کابل

ابراہیم رئیسی کی موت حادثہ یا سازش

ابراہیم رئیسی کی موت حادثہ یا سازش

عبد الحئ قانت
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی، وزیر خارجہ امیر حسین عبد اللہیان اور ان کے وفد کے تمام سرکاری حکام کے حادثے سے متعلق پانچ بڑے ممالک امریکا، چین، روس اور ترکیہ کے بیانات اور خود ایران کے مستقبل کا موقف نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ امریکہ نے سرکاری طور پر اس واقعہ کو افسوس ناک قرار دیا اور نئی حکومت کے قیام کے ساتھ ساتھ ایک بار پھر انسانی حقوق کا مسئلہ اٹھایا۔
امریکا کے مشرقی کمانڈ (CENTCOM) کے بیان میں ہیلی کاپٹر کی مکمل تفصیلات شیئر کی گئیں۔ ان کی تفصیلات سے ایسا لگتا ہے کہ واقعے کا تکنیکی پہلو بہت واضح ہے کیوں کہ ابراہیم رئیسی جس ہیلی کاپٹر میں سفر کر رہے تھے وہ 1994 میں امریکا میں بنایا گیا تھا۔
چین نے اس واقعے پر دکھ کا اظہار کیا ہے تاہم واقعے کے بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
گذشتہ روز روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی سربراہی میں روس نے قومی سلامتی کا اجلاس بلایا جس میں ماسکو میں ایران کے سفیر خصوصی طور پر بلائے گئے تھے۔ روسیوں نے اس واقعے پر شدید غم و غصہ کا اظہار کیا تاہم ابھی تک واقعے کے تفصیلات کے بارے میں وہ بھی خاموش ہیں۔
اس سلسلے میں ترکی کا کردار نہایت اہم ہے، کیوں کہ ایران کی مسلسل کوششوں کے باوجود وہ ہیلی کاپٹر کا سراغ نہ لگا سکے۔ ترکیہ کے ڈرون طیاروں نے ایک گھنٹے کے آپریشن کے نتیجے میں ہیلی کاپٹر کا سراغ لگا لیا اور ایرانی حکام کو ملبے کی معلومات فراہم کیں۔ ترکیہ کا سرکاری موقف یہ ہے کہ ہیلی کاپٹر موسم اور فنی خرابی کے باعث گر کر تباہ ہوا۔ ترکیہ کا مزید موقف یہ ہے کہ ہیلی کاپٹر کا ریڈار سسٹم اتنا کمزور تھا کہ ٹیک آف کے دوران سگنل بھی نہیں دیتا تھا۔
ایرانی دو گروہوں میں تقسیم ہیں۔ ایرانی حکومت کا پروپیگنڈہ گروپ اس واقعے کو صیہونی حکومت سے نتھی کر رہا ہے لیکن سرکاری حکام اور ماہرین اس واقعے کو ایک قدرتی حادثہ سمجھتے ہیں۔
جواد ظریف نے گذشتہ روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے کا ذمہ دار امریکا ہے کیوں کہ امریکا ہی نے ایران پر پابندیاں عائد کیں جس کی وجہ سے ہم بروقت فضائیہ کی بحالی اور مرمت نہیں کر سکتے۔
ایران مشرق وسطیٰ کی چار بڑی طاقتوں میں سے ایک ہے۔ ایسے ملک کے صدر اور وزیر خارجہ کو قتل کرنے میں غیر ملکی ہاتھ کو بہت بھاری حساب دینا پڑتا ہے اور بین الاقوامی سیاست میں بڑی قوتیں جب ایک دوسرے کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں تو نتائج کا اندازہ لگاتے ہیں۔
اس واقعہ کی سب سے بڑی وجہ حکومت کی اعلیٰ سرکاری حکام کے مناسب پروٹوکول سے بے اعتنائی و لاپرواہی ہے۔
اب تک کے دست یاب معلومات، متعلقہ ممالک کے بیانات اور ایران کے موقف کے مطابق صدر ابراہیم رئیسی اور ہیلی کاپٹر میں سوار تمام اعلی سرکاری حکام قدرتی آفت کے نتیجے میں ہونے والے حادثے کے شکار ہوگئے۔