کابل

اب ظلم کی میعاد کے دن تھوڑے ہیں

اب ظلم کی میعاد کے دن تھوڑے ہیں

 

محمد افغان
فلسطین کے سنگین معاملے پر تمام دنیا دہل کر رہ گئی ہے۔ حتی کہ یہ خصوصی طور پر اسلام و کفر کی جنگ ہے، اس کے باوجود انسانی بنیادوں پر فطری رحم دلی ایک ایسا معاملہ ہے، جس کے لیے کسی مذہب کی کوئی قید نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ و امریکا کے نرم مزاج عیسائیوں سمیت یہودیوں میں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں، جو اسرائیل کی انسانیت کُش سرگرمیوں کی کسی بھی لگی لِپٹی کے بغیر مذمت کر رہے ہیں۔ البتہ ایسی دنیا بھی یہاں موجود ہے، جو خدا کے کسی بھی تصوُّر سے ماورا ہیں، وہی لوگ خصوصی طور پر اسرائیل کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کی کُھل کر حمایت کر رہے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ مسلم دنیا کی طرف سے فلسطینیوں کو حمایت و ہمدردی اور نصرت و مدد کے جس معیار کی ضرورت و امید تھی، وہ کہیں نظر نہیں آتی۔ فلسطین کے 30 ہزار شہداء درحقیقت مسلم امت کی حمیت و غیرت کی موت کا سانحہ ہیں۔ خصوصی طور پر فلسطین کے پڑوسی عرب ممالک نے ظالمانہ لاپروائی دکھاتے ہوئے نظریۂ اخوتِ اسلام کی دھجیاں ہی اُڑا کر رکھ دی ہیں۔ اسرائیل کی ایشائی تجارت کے لیے بحری آمدورفت میں حوثیوں کی طرف سے پیدا کی جانے والی رکاوٹ کو عرب ممالک نے اپنی سڑکیں پیش کر کے ختم کر دیا ہے۔ اسرائیل میں جانے والے پھل اور سبزیوں کی برآمدات ایک عرب اور ایک مسلم ملک کی طرف سے ہو رہی ہیں۔ بیت المقدس کا نعرہ لگانے والے مسلمان اپنی نام نہاد اہمیت تک دنیا کو دکھانے سے قاصر ہیں۔ دنیا کی محبت نے مسلمانوں کو جہاد جیسی اہم ترین ذمہ داری سے بے خبر کر رکھا ہے۔
اس تمام درد انگیز صورتِ حال میں یورپی و امریکی عوام کی طرف سے فلسطین کی حمایت اور اسرائیل کی مذمت میں جلسے جلوس اور احتجاجات کی ایسی تاریخ سامنے آئی ہے، جس نے یہ واضح کر دیا ہے کہ زندہ ضمیر اور آزادانہ زندگی بہت قیمتی دولت ہے۔ جس قوم کے پاس یہ دونوں اقدار نہ ہوں، اُس کی حالت علامہ اقبال کے اِس شعر کے مصداق رہتی ہے ؎
اے مُرغکِ بے چارہ! ذرا یہ تو بتا تُو
تیرا وہ گُنہ کیا تھا، یہ ہے جس کی مکافات؟
افسوس، صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تُو
دیکھے نہ تری آنکھ نے فطرت کے اشارات
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جُرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات!
ایک طرف اُمّت کا سویا، بلکہ مُردہ ضمیر ہے، جس کے جُرمِ ضعیفی کی سزا ایک طرف فلسطین کو 30 ہزار شہداء، 70 ہزار زخمیوں، 8 ہزار لاپتہ اور غزہ کی تباہی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہی ہے۔ یہی سزا دوسری طرف افغانستان کو اِس طور برداشت کرنا پڑ رہی ہے کہ خصوصا اقوامِ متحدہ مظلوم فلسطینیوں کی خیرخبر کے بجائے افغانستان میں اسلامی نظام کی اقدار کو بے جا اور تعصب پرستانہ تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔ کچھ دن پہلے افغانستان میں ایک لڑکی کے ساتھ زنا کے معاملے پر دو لڑکوں کو پھانسی دی گئی تو اقوامِ متحدہ کی طرف سے جُرمِ زنا اور قتل پر دی جانے والی سزائے پھانسی پر تنقید کے نشتر برسائے گئے۔ اِسے انسانیت کے خلاف قرار دیا گیا۔ اقوامِ متحدہ نے اپنی یہ تنقید اپنے معتبر اشاعتی پلیٹ فارم پر نشر کی تھی۔ جس پر افغان وزیرِخارجہ کی طرف سے اقوامِ متحدہ کو خبردار کیا گیا کہ ‘آپ کا انسانیت کے لیے یہ رونادھونا کسی بھی لحاظ سے عقل مندانہ معاملہ نہیں ہے۔ اگر اقوامِ متحدہ کو تنقید کرنا ہی تھی تو زنا کے معاملے پر کرتا۔ لڑکی کی مظلومیت پر تو ایک حرف نہیں کہا گیا۔ لڑکی کی عزت لُٹنے پر افسوس کا کوئی اظہار نہیں کیا گیا۔ اگر بات کی ہے تو صرف اسلامی نظام کی اقدار پر تنقید کی گئی ہے۔ جس سے دنیا کو یہ سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں رہی کہ اقوامِ متحدہ کو انسانی احساسات کی حفاظت سے ہٹ کر صرف اسلامی سیاسیات کی سیادت پر غم و غصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کی فلسطین میں دہشت گردی کے خلاف قراردادیں پیش کی جاتی ہیں تو امریکا اُسے ویٹو کر دیتا ہے۔ جس پر اقوامِ متحدہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف بے بس رہتا ہے۔
اقوامِ متحدہ سے بڑھ کر تو امریکی ایئرفورس کا وہ نوجوان آرون بوشنال ہی قابلِ تعریف ہے، جس نے اپنے زندہ ضمیر کی وجہ سے امریکا کے اسرائیل کے ساتھ دہشت گردانہ روابط و تعلقات اور مدد کے خلاف اپنے غم و غصے اور نفرت کا اظہار کرتے ہوئے خود کو واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے آگ لگا لی تھی۔ آرون بوشنال نے خودسوزی سے پہلے اپنے بیان میں کہا:
“امریکی فوجی اسرائیل کے ساتھ مل کر غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کا قتلِ عام کر رہے ہیں۔ لہذا مَیں اب فلسطینیوں کی نسل کُشی میں مزید ملوث نہیں رہوں گا۔ مَیں اگرچہ احتجاج کے لیے ایک انتہائی اقدام کے عمل کی طرف جا رہا ہوں، مگر جو کچھ یہودی آبادکاروں کی طرف سے فلسطین کے عوام کے ساتھ ہو رہا ہے، میری یہ قُربانی اُس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ میرا یہ اقدام درحقیقت ہمارے حکمران طبقے کے جارحانہ فیصلوں کا عملی مظہر اور نتیجہ ہے، جس میں حکمرانوں کی طرف سے یہ طے کیا گیا ہے کہ فلسطین میں عوام کی نسل کشی ایک معمول کی بات ہے۔”
اسی لیے حماس نے بھی امریکی ایئرفورس کے اس نوجوان آرون بوشنال کے لیے ہمدردی کے الفاظ میں اپنائیت کا اظہار کیا ہے۔ حماس نے اپنا بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے:
“آرون بوشنال کی موت کی ذمہ داری امریکی صدر جوبائیڈن پر عائد ہوتی ہے، جس نے صہیونی نازی اسرائیل کو فلسطین پر دہشت گردانہ حملوں کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ آرون بوشنال نے صہیونی فوج کی طرف سے ہمارے فلسطینی عوام کی نسل کُشی اور قتلِ عام کے خلاف اپنے غم اور غصے کے اظہار کے لیے اپنی جان دے دی ہے۔ ہم آرون بوشنال کے اہلِ خانہ اور دوستوں کے ساتھ اظہارِ تعزیت اور مکمل یکجہتی کرتے ہیں۔ آرون بوشنال ہمیشہ فلسطینی عوام کی یادوں میں زندہ رہیں گے۔”
امریکا اور اقوامِ متحدہ کو اپنے عوام کے ردِعمل اور احتجاجی مظاہروں سے عقل حاصل کرنی چاہیے۔ سوشل میڈیا بلاگرز بھی آرون بوشنال کو تیونس کے نوجوان محمد البوعزیزی سے مشابہت دے رہے ہیں، جس نے تیونسی حکمرانوں کے معاشی مظالم سے تنگ آ کر اپنے قصبے سیدبوزید میں گورنریٹ کی عمارت کے سامنے 4 جنوری 2011 کو خودسوزی کر لی تھی۔ اِسی خودسوزی کی بنیاد پر تیونس کو ہلا کر رکھ دینے والے ایسے مظاہرے شروع ہو گئے تھے، جنہوں نے تخت اور تاج کی دھجیاں اُڑا کر رکھ دی تھیں۔ 1987ء سے اقتدار پر آمرانہ قبضہ جمائے ہوئے صدر زین العابدین بن علی کو استعفیٰ دے کر ملک چھوڑنا پڑا تھا۔
عالمی سطح پر یہ آواز بلند ہو رہی ہے کہ کیا آرون بوشنال “امریکی بوعزیزی” ثابت ہوگا، جس کی وجہ سے امریکی عوام اپنے اقتدار یافتہ طبقے کی ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف ملک گیر ایسے احتجاج کی طرف جائیں گے، جو امریکی ورلڈ آرڈر کی دھجیاں اُڑا دے گا؟!
بظاہر ایسا ہونا ممکن ہے۔ آرون بوشنال کی ہلاکت کے بعد بہت سے حاضر سروس امریکی فوجیوں کی طرف سے ایک احتجاج ریکارڈ کرایا گیا ہے، جس میں وہ اپنی فوجی وردیوں کو آگ میں جلا کر امریکا کی فلسطین میں ظالمانہ مداخلت کے خلاف اپنے غصے اور نفرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ حالات بدلتے وقت نہیں لگتا۔ رات ختم ہو کر دن کی روشنی پھوٹنے کے لیے کچھ ہی وقت لگتا ہے۔ فیض احمد فیض نے کہا تھا ؎
جسم پر قید ہے جذبات پہ زنجیریں ہیں
فکر محبوس ہے، گفتار پہ تعزیریں ہیں
اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جیے جاتے ہیں
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے، جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
لیکن اب ظلم کی میعاد کے دن تھوڑے ہیں
اِک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں