کابل

اسرائیل اور آثارِ قدیمہ کی چوری

اسرائیل اور آثارِ قدیمہ کی چوری

 

محمد افغان

اسرائیل سمیت مغرب کے سیاسی و عسکری اثر و رسوخ رکھنے والے ممالک میں ایک مشترکہ بُرائی ‘نوادِرات کی چوری’ ہے۔ اس کے لیے بدنامِ زمانہ برطانیہ اور امریکا مشہور ہیں، جب کہ اب اسرائیل بھی نوادرات چوروں کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔
دو ہزار اکیس کے دوسرے نصف میں برطانیہ کی کالونی رہ چکے مختلف ممالک کی طرف سے برطانیہ پر اس بات کا دباؤ ڈالا جا رہا تھا کہ وہ اُن ممالک کے وہ قیمتی نوادارت واپس کرے، جو اُس نے نوآبادیاتی دور میں اپنے قبضے کے دوران چوری کیے تھے۔ اِس حوالے سے ١٩٤٧سے پہلے کا ہندوستان سب سے مشہور ہے، جہاں کی دولت سمیت قیمتی نوادرات کی چوری برطانیہ کا خصوصی مشن رہا تھا۔ تحقیق نگاروں نے ٨٠ لاکھ سے زائد ثقافتی و تاریخی نوادرات اور فن پاروں کے حامل مشہورِ زمانہ برٹش میوزیم بارے لکھا ہے کہ ‘اس عجائب گھر کے قابل دید نوادرات میں موجود آدھی چیزیں ایسی ہیں، جن کی ملکیت پر اس وقت تنازع ہے۔ اس تنازعے کی بنیادی وجہ برطانیہ کی وہ چوری ہے، جس کے تحت انگلستان نے اپنے مقبوضہ ممالک کے قیمتی نوادرات لُوٹ لیے تھے۔
تحقیق نگاروں نے لکھا ہے:
برطانیہ نے صدیوں تک اپنے نوآبادیاتی مقبوضات کا استحصال کیا ہے۔ جنوبی افریقا سے لے کر ہندوستان اور آسٹریلیا سے لے کر نائیجیریا تک کے ممالک کی دولت سمیت وہاں کے ثقافتی نوادرات اور آثارِ قدیمہ بھی لُوٹ لیے گئے۔ جب کہ ہندوستان کے قیمتی نوادرات میں سے ہندوؤں کی مقدس مُورتیوں سمیت ٹیپو سلطان کی تلوار بھی اس وقت برطانوی عجائب گھر میں اپنے چوری ہونے کی داستان سنا رہی ہیں۔
تاریخ میں یہ بات لکھی ہے کہ برطانوی عجائب گھر میں موجود یہ نوادرات سن١٨٩٧ میں چوری ہونا شروع ہوئے، جب یورپ کی نوآبادیاتی طاقتوں نے ہندوستان سمیت افریقا پر قبضہ کیا تھا۔ یورپ کی یہ لُوٹ مار اتنی منظم تھی کہ اُس نے افریقی براعظم کو آپس میں تقسیم کر لیا تھا، تاکہ سب اس کا مال لُوٹیں اور عیش کریں۔
باہمی بندربانٹ کے بعد افریقا کے جو ممالک انگلستان کی گود میں رکھے گئے، اُن میں اب کے نائجیریا کا ایک علاقہ ‘بنین’ بھی شامل تھا۔ تب بنین کی ریاست نے برطانیہ کے نوآبادیاتی مطالبات ماننے سے انکار کر دیا تھا، جس سے برطانیہ اور بنین کے درمیان آویزش شروع ہو گئی۔ اِسی دوران بنین نے سن ١٨٩٧ میں برطانیہ کے ٧ فوجی سپاہیوں اور افسروں قتل کر دیا۔ برطانیہ نے اس قتل کا بدلہ لینے کے بہانے بنین حملہ کر دیا۔ اگرچہ برطانیہ بظاہر اپنے سپاہیوں کے قتل کا بدلہ لینا چاہتا تھا، مگر درحقیقت اس کا اصل مقصد بنین کے شاہی محلات میں موجود قیمتی نوادرات لُوٹ اور فروخت کر کے اپنی نائجیرین مہم کے اخراجات پورے کرنا چاہتا تھا۔ لہذا برطانیہ نے بنین پر حملہ کر کے اسے جلا کر راکھ میں تبدیل کر دیا، مگر اس آتش زنی سے پہلے بنین کے محلات سے ہزاروں قیمتی نوادرات نکال لیے گئے۔
امریکا نے اپنے پیش رَو برطانیہ کی پیروی کرتے ہوئے افغانستان میں جنگ کے دوران سیکڑوں قیمتی نوادرات چوری کر لیے تھے۔ چوری کا یہ کارنامہ انجام دینے کی ذمہ داری امریکی فوج کے پاس تھی۔
نوادرات کی چوری کا عمل ثقافتی اور تاریخی شناخت چھیننے کے مترادف ہے۔
اسی لیے اگست دو ہزار اکیس میں امارت اسلامیہ نے ڈالر اور نوادرات افغانستان سے باہر بھیجنے پر پابندی لگا دی تھی۔ افغان شہریوں کو خبردار کیا گیا تھا کہ ڈالر اور مقامی نوادرات باہر لے جانے پر پابندی ہے، کوئی بھی شہری اس حکم کی خلاف ورزی نہ کرے۔
اِس پابندی پر اس لیے بھی سختی کی گئی تھی کہ کچھ عرصہ قبل افغان نیشنل میوزیم کے ڈپٹی ڈائریکٹر یحییٰ محب زادہ نے کہا تھا کہ “افغانستان میں نوادرات کی اسمگلنگ ایک طویل عرصہ پرانی بُرائی ہے۔ گزشتہ سال ایک ہزار تاریخی اور ثقافتی قدیمی نوادرات کی اسمگلنگ روکی گئی تھی۔ ان آثار قدیمہ کو نیشنل میوزیم افغانستان میں رکھا گیا تھا۔ یحیٰ محب زادہ نے یاددہانی کرائی کہ امریکا طالبان جنگ کے دوران اس میوزیم کے کچھ آثار چوری کر لیے گئے تھے، جو امریکا نے افغانستان کے نیشنل میوزیم کو واپس کر دیا تھا۔
اب لاشوں کے بیوپاری اسرائیل نے بھی فلسطین میں یہی مشترکہ بُرائی شروع کر دی ہے۔
انسانی حقوق کی ایک اسرائیلی تنظیم نے اسرائیلی فوج پر غزہ میں بہت سے آثارِ قدیمہ کو منظم منصوبہ بندی سے تباہ کرنے اور نوادرات چوری کرنے کا الزام لگایا ہے۔ آثار قدیمہ سے متعلق اُمور کی اسرائیلی تنظیم “عمق شبیہ” نے کہا ہے کہ اسرائیل کی فلسطین پر بمباری کی وجہ سے غزہ کی پٹی میں سیکڑوں آثار قدیمہ اور تاریخی مقامات تباہ ہوگئے ہیں۔ جب کہ اِسی تنظیم نے یاددہانی کرائی ہے کہ ” اسرائیل کو غزہ میں نوادرات کا ایک بھی ٹکڑا اپنے قبضے میں لینے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ نوادرات اہلِ غزہ کا حق ہیں۔”
اسرائیلی فوجیوں نے غزہ میں ١٥٠٠ سال پرانا بازنطینی دَور کا تیل سے جلنے والا مٹی کا چراغ چوری کیا تھا۔ فوجیوں نے اِس کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اَپ لوڈ کر دی تھی۔
اسرائیلی آثار قدیمہ اتھارٹی کی رُکن “سارہ تال” نے کہا ہے:
“یہ بازنطینی دور کا ایک قدیم مٹی کا چراغ ہے، جو تقریباً ١٥٠٠ سال پُرانا ہے۔ اِسے ‘صندل کے چراغ’ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ روشنی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ سارہ تال نے فوجیوں کے چوری کردہ قیمتی نوادرات اپنے قبضے میں لے کر انہیں ‘اسرائیل نوادرات اتھارٹی’ کی طرف سے تعریفی سرٹیفکیٹ دے دیا۔
‘اسرائیل نوادرات اتھارٹی’ کے ڈائریکٹر ‘ایلی ایسکوسیڈو’ کا کہنا ہے کہ جنگ آثارِ قدیمہ کے محاذ پر بھی غیرمعمولی حالات پیدا کرتی ہے۔ ” فلسطین میں خصوصی طور پر غزہ کا علاقہ تاریخ اور قدیم نوادرات سے بھرا ہوا ہے۔
اسرئیلی فوج کی اِس چوری کے بعد بہت سے سیاست دانوں، ماہرین اور کارکنوں نے خبردار کیا ہے کہ فوج کی ایسی کارروائیاں غزہ میں نسل کُشی کے جرائم کو وسیع کرنے کی تکنیک ہیں۔ لوگوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو جنوبی افریقا کی جانب سے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالتِ انصاف میں دائر کی گئی مضبوط شکایت کی بنیاد پر سزا دی جائے۔
غزہ کے قیمتی نوادرات کے حوالے سے فلسطینی سیاست دان ‘حنان عشراوی’ نے اپنی ٹویٹ میں کہا ہے:
“اسرائیل نہ صرف ہمارے حال کو کچلنا اور ہمارے مستقبل کو تباہ کرنا چاہتا ہے، بلکہ وہ ہمارے ماضی کو بھی مٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔ غزہ میں ثقافتی ورثے کے مقامات کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا ہے۔ مغربی کنارے میں اسرائیلی قابض فوج اور اسرائیلی یہودی آبادکار منظم طریقے سے آثار قدیمہ کے مقامات پر حملے کر رہے ہیں۔”
غزہ دنیا کے قدیم ترین شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ قیمتی ورثے سے مالامال ہے۔ یہ فرعونوں، یونانیوں، رومیوں، بازنطینیوں اور پھر اسلامی دورِ حکومت کے تابع رہا ہے۔
ماہر آثار قدیمہ آیوشی نایوک نے لکھا ہے:
“اسرائیل نے آثارِ قدیمہ کے مقامات کو نشانہ بنا کر ایک بار پھر جنیوا اور ہیگ کنونشنز کی خلاف ورزی کی ہے۔ آثار قدیمہ کی حفاظت کے حوالے سے ہمارے پیشہ ور اداروں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ قابلِ نفرت صورت ہے کہ ہم اِس معاملے کے لیے اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام ہیں۔”
فلسطینی سرکاری میڈیا آفس نے خبردار کیا تھا کہ “اسرائیل نے ٧ اکتوبر سے اب تک منصوبہ بندی کے ساتھ غزہ میں ٣٢٥ مقامات میں سے ٢٠٠ سے زیادہ آثارِ قدیمہ اور قیمتی ورثے کے مقامات کو نشانہ بنا کر تباہ کر دیا ہے۔”
اسرائیلی فوج کی اس چوری کے معاملے پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے مِلا جُلا ردِعمل سامنے آیا تھا۔
ایک صارف نے لکھا تھا:
“یہ فلسطین کا قیمتی ورثہ وہیں واپس رکھ دو۔ اسرائیل ایک چور ہے۔”
ایک صارف مروہ فطافطہ نے لکھا:
کیا آثار قدیمہ چوری کرنا بھی حماس کے خلاف جنگ کا حصہ ہے؟ اسرائیل مجرم بھی ہے اور چور بھی ہے۔ اسرائیل آثارِ قدیمہ پر ڈاکا ڈال کر ١٩٤٨ کو ١٩٤٨دُہرانا چاہتا ہے۔
ان مختلف تبصروں اور تنقیدوں کے بعد اسرائیلی فوجیوں نے نوادرات کی جو ویڈیو سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کی تھی، اُسے ڈیلیٹ کر دیا۔ جب کہ دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر غصے سے بھرے تنقیدی تبصروں کے بعد اسرائیلی فوجیوں نے اپنی چوری کی وضاحت دینے کی کوشش کی تھی کہ “ہم نے یہ نوادرات چوری نہیں کیے، بلکہ جس مقام پر یہ نوادرات موجود تھے، فوج کی طرف سے آرڈر تھا کہ وہاں تلاشی لی جائے کہ “حماس کے اہل کار وہاں چھپے ہوئے ہیں؟! جب کہ نوادرات اپنے مقام پر ہی ہیں، اُنہیں کہیں بھی نہیں لے جایا گیا۔”
مگر فوجیوں کی یہ وضاحت درحقیقت لالی پاپ تھا، جس پر ایک صارف نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
اسرائیل جھوٹ بولتا ہے۔ ایک تو چوری، اُوپر سے سینہ زوری!