نام کاربری یا نشانی ایمیل
رمز عبور
مرا به خاطر بسپار
تحریر: ارغوان وطن یار افغانستان کا جغرافیائی محل وقوع خطے کے ممالک کے لئے نہایت اہمیت کا حامل اور رابطے کے مرکز کی حیثیت رکھتا ہے، افغانستان وسطی ایشیائی ممالک کے لیے پیشرفت کا دروازہ ہے، جنوبی ایشیائی ممالک کے لیے اقتصادی منڈی اور اقتصادی راہداری ہے۔
اگر پڑوسی یا خطے کے ممالک چاہتے ہیں کہ وہ اقتصادی، صنعتی، زرعی اور سیاسی خوشحالی کے بام عروج تک پہنچیں تو افغانستان کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے اور ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ یہاں پر استحکام کے لیے کام کریں۔
افغان جغرافیہ نے ہمیشہ وسطی ایشیا کے لیے دل کا کردار ادا کیا ہے۔ جس کے بارے میں شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے ایک ایسی حکیمانہ بات کہی ہے جو اس خطے میں موجود تمام ممالک کے لئے ایک رہنماء اُصول کا درجہ رکھتی ہے اور تاریخ اس حقیقت پر مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہے۔ علامہ اقبال نے فرمایا: آسیا یک پیکرِ آب و گل است ملتِ افغاں در آں پیکر، دل است از کُشادِ او، کُشادِ آسیا از فسادِ او، فسادِ آسیا ایشیا پانی اور مٹی میں گندھا ہوا ایک بہت بڑا وجود ہے اور افغانستان اس وجود کا دھڑکتا ہوا دل ہے۔ اگر یہاں امن ہو گا تو پورے ایشیا میں امن ہو گا اور اگر یہاں فساد برپا ہوا تو پورے ایشیا میں فساد برپا ہو گا.
مغربی سیاست دان اور دانشور نہیں چاہتے کہ ایشیا میں امن اور استحکام ہو، کیونکہ اگر ایشیائی پٹی مضبوط ہوئی تو ان کا بڑھتا ہوا صنعتی گراف نیچے گر جائے گا، مغربی حکمرانوں کے لئے امید کی کرن ایشیا کے ذخائر ہیں اور ان کی صنعتی مشینری کے پہیے ہمارے پانی، تیل اور معدنیات سے چل رہے ہیں۔
اگر ایشیائی ممالک آپس میں تجارتی، سیاسی، اقتصادی، زرعی اور صنعتی تعلقات مستحکم بنائیں اور اپنے وسائل ایک دوسرے کے مفاد میں استعمال کریں تو وہ سب سے زیادہ سرمایہ دار ہوں گے اور ان کی فی کس آمدنی امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور فرانس سے زیادہ ہو گی۔
بدقسمتی سے امریکہ کی قیادت میں مغرب نے ہمیشہ ایشیا میں مداخلت کی ہے، جاپان پر ایٹمی حملہ ہو، ویتنام پر جارحیت ہو، افغانستان اور عراق پر قبضہ ہو یا شام میں مداخلت ہو، ان تمام مسائل میں امریکہ براہ راست ملوث رہا ہے، جب کہ بالواسطہ تو مختلف ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ بنانے میں اس کا منفی کردار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، ایران اور سعودی تعلقات میں کشیدگی، پاکستان اور بھارت میں تناو، چین اور تائیوان کا مسئلہ، شمالی اور جنوبی کوریا کے اختلافات اور دیگر ممالک کے باہمی مسائل اور اختلافات میں بالواسطہ امریکہ کا کردار نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
اگر ایشیا کے ممالک باہم دست و گریبان رہیں گے اور افغانستان کو تنہا چھوڑ کر اس کے ساتھ تعلقات منقطع کریں گے تو اس کے درج ذیل نقصانات واضح ہیں۔ 1۔ ایران کی متزلزل معیشت مزید تباہ ہو جائے گی۔ 2۔ پاکستان کی سبزیاں اور پھل سڑ کر خراب ہو جائیں گے، اس کی صنعتی مشینری تباہ ہو جائے گی۔ 3۔ تاجکستان کی صنعت مفلوج ہو جائے گی اور اس کی تجارت کے دروازے بند ہو جائیں گے، اسی طرح ترکمانستان، قازقستان اور چین کی مارکیٹیں بند ہو جائیں گی۔
آج جب کابل-جلال آباد، کابل- مزارشریف، کابل- قندھار اور ہرات کی سڑکوں پر بڑی اور چھوٹی ٹرانزٹ گاڑیاں چل رہی ہیں جس کے بارے میں بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ دوسرے ممالک کی پیداوار اور اشیاء افغان مارکیٹ تک پہنچا رہی ہیں، نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ ان مال بردار ٹرانزٹ گاڑیوں میں مختلف پڑوسی ممالک کا سامان دوسرے ممالک تک پہنچایا جاتا ہے، جن میں قابل ذکر پاکستان کا سریا اور سیمنٹ تاجکستان جا رہے ہیں، ایران کا تیل اور پیٹرول پاکستان کی منڈیوں میں جا رہے ہیں، تاجکستان اور ازبکستان کی اشیائے خوردونوش پاکستان کی منڈیوں میں جا رہی ہیں، اسی طرح چینی اشیاء ایران، پاکستان اور وسطی ایشیائی ممالک کو برآمد کی جاتی ہیں۔
اگر یہ تمام ممالک افغانستان کے جغرافیائی محل وقوع کی اہمیت کو مدنظر رکھ کر اس کے استحکام میں اپنا کردار ادا کریں گے تو اس کے درج ذیل مثبت اثرات برآمد ہوں گے؟ 1۔ جنگ کے شعلے ان کی سرزمین تک نہیں پہنچیں گے۔ 2۔ ان کا امن برقرار رہے گا۔ 3۔ ان کے نظام مستحکم ہوں گے۔ 4۔ لوگوں کی بدحالی اور بے روزگاری کی چیخیں ان کے ضمیروں کو پریشان نہیں کریں گی۔ 5۔ اقتصادی اور سیاسی تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔ 6۔ صنعتی اور پیداواری کارخانوں کے بازار گرم ہوں گے۔ 7۔ خوف کی وجہ سے امریکہ سے ہتھیار خریدنے کی بجائے اپنی بدحال قوموں کے لیے آٹا، تیل، گیس، اور تازہ سبزیاں خرید سکیں گے۔
افغانستان اقتصادی رابطے کا مرکز بھی ہے اور انقطاع کا پوائنٹ بھی ہے، ان دو نقاط میں سے جس کا انتخاب کرنا ہے وہ ان کی صوابدید پر منحصر ہیں۔ ان کے لیے مولانا جلال الدین بلخی کا یہ مشورہ کافی ہے: در این خاک در این مزرع پاک بجز عشق بجز مهر تخم دیګر نکاریم
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاه بسته شده است.