کابل

افغان مہاجرین اور ان کی واپسی کا جائزہ

افغان مہاجرین اور ان کی واپسی کا جائزہ

 

خزیمہ یاسین

افغانستان میں ہونے والی مسلسل سیاسی تبدیلیوں اور معاشی سرگرمیوں کے نتیجے میں افغان مہاجرین کا اپنے وطن واپس آنا ایک اہم عمل بن چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کے مطابق سال 2023 تک 13 لاکھ افغان مہاجرین اپنے وطن واپس آ چکے ہیں۔ جب کہ امارت اسلامیہ کی طرف سے یو ایس ایڈ ادارے کے نشر کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد تقریباً 22 لاکھ مہاجرین پر مشتمل ہیں۔ ان میں بیشتر افراد پاکستان اور ایران میں مقیم تھے۔ ان مہاجرین کی واپسی نہ صرف افغانستان کی معیشت کے لیے اہم ہے، بلکہ یہ ملک کے سماجی اور سیاسی استحکام کے لیے بھی ضروری ہے۔ اسی تناظر میں افغانستان کو مہاجرین کے لیے امدادی پیکجز فراہم کیے جا رہے ہیں، جس میں رہائش، صحت، تعلیم اور آبادکاری کے منصوبے شامل ہیں۔ تاہم اس عمل میں مشکلات اور چیلنجز بھی ہیں، جن میں حکومت کی جانب سے مدد کی فراہمی اور معاشی حالات کی بہتری کی کوششیں سامنے آ رہی ہیں۔

پاکستان اور ایران جیسے میزبان ممالک کو افغان مہاجرین کی موجودگی سے ایک خاص حد تک معاشی فوائد بھی حاصل ہوئے ہیں۔ پاکستان میں افغان مہاجرین نے زراعت، تعمیراتی صنعتوں اور دیگر شعبوں میں اہم کردار ادا کیا ہے، جو ملکی معیشت میں ایک مثبت اثر ڈال رہا تھا۔ اسی طرح ایران میں بھی افغان مہاجرین نے مقامی معیشت کی ترقی میں حصہ لیا ہے۔ تاہم جب یہ مہاجرین واپس آنے لگے ہیں تو ان ممالک کو روزگار کی کمی اور دیگر سماجی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ افغان مہاجرین کی واپسی ان ممالک کی معیشت میں خلا پیدا کر رہی ہے، جو کہ مقامی حکومتی اداروں کے لیے فکر انگیز چیلنج ہے۔

دوسری طرف اقوام متحدہ کی متعدد رپورٹس کے مطابق پاکستان میں افغان مہاجرین کے لیے امداد کی تقسیم میں بے ضابطگیوں کے حوالے سامنے آئے ہیں، جس سے امدادی فنڈز کا موثر استعمال ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ یو این ایچ سی آر اور دیگر عالمی ادارے افغان مہاجرین کے لیے امداد فراہم کرتے ہیں، تاکہ وہ اپنے وطن واپس جا سکیں، مگر یہ امداد پاکستان میں درست طریقے سے تقسیم نہیں ہو پاتی۔ اس کے علاوہ بعض سیاسی وجوہات کی بنا پر پاکستان نے افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کیا ہے، تاکہ وہ عالمی سطح پر مزید امداد حاصل کر سکے۔ اس عمل کے دوران حکومت اور عالمی اداروں کی شفافیت اور ذمہ داری پر سوالات اٹھے ہیں۔

پاکستان کی حکومتی پالیسی افغان مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے واضح تضادات پر مبنی ہے۔ ایک طرف پاکستان عالمی امداد حاصل کرنے کے لیے افغان مہاجرین کے مسئلے کو اہمیت دیتا ہے تو دوسری طرف انہیں وطن واپس بھیجنے کے لیے مسلسل کوششیں کرتا ہے۔ اس میں سیاسی اور معاشی محرکات اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کیوں کہ پاکستان افغان حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے اس مسئلے کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اس کے باوجود افغان مہاجرین کی واپسی کے عمل کو بین الاقوامی امدادی اداروں کی جانب سے حمایت حاصل ہے، مگر اس عمل میں مزید بہتری کی ضرورت ہے، تاکہ مہاجرین کو اپنی زندگیوں کو دوبارہ معمول پر لانے میں مدد مل سکے۔

جب کہ افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے حوالے سے افغانستان کو کئی فوائد حاصل ہونے کے امکانات ہیں۔ متلعقہ مہاجرین اپنی واپسی کے ساتھ اپنے ساتھ سرمایہ اور مہارت لے کر واپس آ سکتے ہیں، جو ملک کی اقتصادی ترقی میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ افغان مہاجرین کی واپسی سے ملک میں کاروباری مواقع بڑھ سکتے ہیں، جو مقامی معیشت کو مستحکم کرنے میں مدد دیں گے۔ اس کے علاوہ افغان حکومت اپنے شہریوں کو واپس لا کر ان کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے عالمی امداد کا استعمال کر رہی ہے، جو ملک کی ترقی کے لیے اہم پہلو ہے۔

افغان مہاجرین کی واپسی کے ساتھ عالمی امدادی ادارے جیسے یو این ایچ سی آر اور دیگر تنظیمیں افغانستان کو مالی اور انتظامی مدد فراہم کر رہی ہیں۔ یہ ادارے افغان حکومت کو دوبارہ آبادکاری اور معاشی استحکام کے لیے معاونت فراہم کر رہے ہیں، جس سے افغانستان کی معیشت کو فروغ مل رہا ہے۔ عالمی امداد کے ساتھ افغان حکومت کو ترقیاتی منصوبوں میں مزید وسائل دستیاب ہوئے ہیں، جو طویل المدتی ترقی کے لیے مددگار ثابت ہوں گے۔ ان عالمی اداروں کے ساتھ شراکت داری افغانستان کی عالمی سطح پر پوزیشن کو مستحکم کر کے ملک کی تعمیرِنو کے عمل میں اہم کردار ادا کرے گی۔