نام کاربری یا نشانی ایمیل
رمز عبور
مرا به خاطر بسپار
تبصرہ: الامارہ اردو گذشتہ دنوں افغانستان کےلیے روسی صدر کے نمائندہ خصوصی ضمیر کابلوف نے روسی خبر رساں ایجنسی ٹاس نیوز ایجنسی کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ روسی حکومت نے امارت اسلامیہ کو روس کی کالعدم تنظیموں کی فہرست سے نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے روسی عدالت نے بھی صدر ولادیمیر پیوٹن کو کہا ہے کہ وہ امارت اسلامیہ کو کالعدم تنظیموں کی فہرست سے نکال دیں۔ روسی صدر نے بھی کہا کہ ماسکو امارت اسلامیہ کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کا سوچ رہا ہے اور اس کے لیے تمام ممکنہ ذرائع استعمال کرے گا۔ اس فیصلے سے چند روز قبل افغان وزیر صنعت و تجارت کو وفد سمیت تاتارستان میں روس اور عالم اسلام کے پندرہویں بین الاقوامی اقتصادی اجلاس میں مدعو کیا گیا تھا۔ وزیر صنعت و تجارت نے ملک واپسی پر نائب وزیر اعظم برائے سیاسی امور مولوی عبد الکبیر سے ملاقات کے دوران اقتصادی اجلاس میں اپنی شرکت کو کامیابیوں سے بھرپور قرار دیا۔ اگلے ماہ 5 سے 8 جون تک روس کے سینٹ پیٹرز برگ میں منعقد ہونے والے ورلڈ اکنامکس فورم کے اجلاس میں بھی امارت اسلامیہ کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ حالیہ دنوں امریکی وزارت خارجہ کے نائب ترجمان نے بھی ایک پریس کانفرنس میں امارت اسلامیہ کے ساتھ بات چیت کو اہم قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی مفادات کے تحفظ کی خاطر امریکا امارت اسلامیہ کے ساتھ سیاسی تعلقات بنانے کےلیے تیار ہے۔ دیگر ممالک بھی عالمی سطح کی اہم سیاسی اور اقتصادی فورمز میں امارت اسلامیہ کی شرکت پر اصرار کرتے ہیں اور امارت اسلامیہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان فیصلوں سے دو باتیں ظاہر ہوتی ہیں: پہلی بات یہ کہ امارت اسلامیہ افغانستان کے خلاف پروپیگنڈے کا اثر ختم ہو گیا۔ امارت اسلامیہ نے اس منفی پروپیگنڈے کا اثر ختم کرنے کےلیے طویل سفر کیا۔ دوسری بات یہ کہ امارت اسلامیہ نے ملک کے اندر امن و امان کی صورت حال بہتر کرنے اور ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کرنے کے علاوہ خارجہ پالیسی میں اہم اقدامات کیے ہیں۔ ان اقدامات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ امارت اسلامیہ کی سیاسی اور سفارتی صورت حال استحکام کی طرف گامزن ہیں، کیوں کہ امارت اسلامیہ نہایت کم عرصے میں بہت سے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات استوار اور بہتر کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ امریکہ اور روس جو اس وقت دنیا کی بڑی طاقتیں ہیں، امارت اسلامیہ کے حوالے سے ان کا تازہ موقف بین الاقوامی سیاست میں افغان حکومت کی حقیقی فتح ثابت کرتا ہے۔ دوسری طرف دنیا کے ان مواقف کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہوں نے افغانستان کے ٹھوس حقائق کا ادراک کر لیا ہے۔ متعدد پابندیوں کے باوجود امارت اسلامیہ نے اپنی متوازن پالیسی کی وجہ سے خطے اور دنیا کے بہت سے دوسرے ممالک کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ نائب وزیر اعظم برائے سیاسی امور مولوی عبد الکبیر نے بھی گذشتہ دنوں صوبہ پروان میں ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کے دوران کہا کہ دنیا کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔ یہ صورت حال دنیا کے ساتھ تعلقات کی وسعت و استحکام کو ظاہر کرتا ہے۔ امارت اسلامیہ افغانستان کی ایک حقیقت ہے جسے کوئی بھی ملک نظر انداز نہیں کر سکتا۔ امارت اسلامیہ کے قائدین نے اس سرزمین کی آزادی اور خوشحالی کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں۔ ان مشقتوں اور قربانیوں کے نتیجے میں آج پورے ملک پر ایک ہی قیادت کا کنٹرول ہے اور امارت اسلامیہ کو پوری افغان سرزمین پر مکمل حاکمیت حاصل ہے۔ ایک واضح حقیقت کے طور پر موجودہ حکومت کے ساتھ تعامل دنیا کے ہر ملک کی ضرورت ہے۔ دنیا کو چاہیے کہ وہ ان حقائق کا ادراک کرتے ہوئے امارت اسلامیہ کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کرے۔
یہ مضمون بغیر لیبل والا ہے۔
دیدگاهها بسته است.