کابل

بون سے دوحہ تک

بون سے دوحہ تک

 

ذاکر جلالی

بون اور دوحہ دونوں نے افغانستان کے مسئلے کے دو اہم مراحل پر فیصلہ کن اجلاسوں کی میزبانی کی۔
بون کانفرنس امریکی جارحیت کے بعد جارحیت کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش تھی، 20 سال بعد ثابت ہوا کہ کوئی بھی کسی قوم پر قبضے کو جائز نہیں بنا سکتا! دوحہ پھر بون کی غلطی کو درست کرنے کی کوشش بن گیا۔
2007 میں جب بیرونی قبضے کے خلاف مزاحمت عروج پر پہنچی تو امریکیوں کو احساس ہوا کہ وہ جنگ کے ذریعے جیت نہیں سکتے،2010 میں لندن میں مغربی اتحاد نے طالبان کے ساتھ بات چیت کا فیصلہ کیا اور دوحہ کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے ایک اچھی جگہ سمجھا گیا،دوحہ نے طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کی۔
آخر کار دوحہ نے یہ اعزاز حاصل کیا کہ فروری 2020 میں اس شہر میں افغانستان میں جارحیت کے خاتمے کے معاہدے پر دستخط ہوئے۔ بیرونی جارحیت کے خاتمے پر دستخط کے بعد دوحہ میں مذاکرات کا سلسلہ مدہم پڑ گیا۔ طالبان کی فتح کے آثار دکھائی دے رہے تھے۔اشرف غنی اپنے غلط اندازے کے مطابق مذاکرات کو ناکام بناکر امریکہ کو افغانستان میں جنگ جاری رکھنے پر راضی کرنے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن آخر کار امریکہ جنگ کو 20 سال سے زیادہ طول نہیں دینا چاہتا تھا۔
اب جب کہ امارت اسلامیہ پورے ملک پر حاکم ہے،اور تمام تر چیلنجز کے باوجود حکومت کی بنیادیں روز بروز مضبوط ہو رہی ہیں، وہ دوحہ میں ہونے والے ایسے اجلاس میں شرکت کو ضروری نہیں سمجھتے جس کا ایجنڈا ، ترکیب اور نتیجہ واضح نہ ہوں، تاہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ افغانستان کے نمائندے کے طور پر امارت اسلامیہ کی شرکت کے بغیر اگر کوئی فیصلہ کیا گیا تو وہ بے نتیجہ ہوگا۔
سیاست میں اہم یہ ہے کہ سیاستدان اپنی خوبیوں کو پہچانے اور انہیں وقت پر استعمال کرے۔ اب اگر امارت اسلامیہ نے قابل ذکر وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اس نے کچھ نہیں کھویا ہے…لیکن یہ اجلاس اپنی اہمیت کھو چکا ہے۔
یہ اجلاس نہ پہلا ہے اور نہ آخری، جب تک افغانستان اور مغربی ممالک کے درمیان موجودہ مسائل پر حقیقت پسندانہ اور عملی نقطہ نظر نہیں اپنایا جاتا، ان اجلاسوں کا تبادلۀ خیالات کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔