کابل

ترکمانستان سے انڈیا تک: سفارتی و اقتصادی استحکام کا سنگم

ترکمانستان سے انڈیا تک: سفارتی و اقتصادی استحکام کا سنگم

 

تحریر: کابل ڈائری

گورنر صوبہ ہرات اور افغانستان میں تاپی منصوبے کے ڈائریکٹر شیخ مولانا اسلام جار اور ترکمانستان کی طرف سے تاپی پروجیکٹ کے جنرل ڈائریکٹر باغنچ عبداللہ یوف کے درمیان ہونے والی حالیہ ملاقات میں تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کے عملی آغاز کے لیے اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔
ترکمن وفد نے منصوبے کے لیے ضروری مشینری اور تکنیکی آلات کی فہرست پیش کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ آلات جلد ہرات منتقل کے جائیں گے۔ وفد نے 153 کلومیٹر روٹ کے سروے اور ترکمن گیس منصوبے کے انجینئرز و تکنیکی عملے کی تعیناتی کا اعلان کیا ہے۔ ترکمانستان کے قونصل جنرل کے سربراہ کی موجودگی میں گورنرِ ہرات نے سرحدی علاقے “سلم چشمہ” میں مشترکہ بندرگاہ کے قیام اور آلات کی منتقلی میں مقامی انتظامیہ کے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ درایں اثنا منصوبے کی سکیورٹی اور تیز رفتار تکمیل پر بھی زور دیا گیا ہے۔
تاپی (ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور انڈیا) گیس پائپ لائن منصوبہ وسطی اور جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان توانائی کی ضروریات پورا کرنے اور معاشی تعلقات کو مضبوط کرنے کی اہم کڑی ہے۔ ترکمانستان کے گیس ذخائر کو افغانستان، پاکستان اور انڈیا تک منتقل کرنے والا یہ منصوبہ خطے میں ترقی اور استحکام کا ایک نیا باب لکھ سکتا ہے۔ تاہم اس کی کامیابی متعلقہ ممالک کے باہمی تعلقات، علاقائی سیاست اور تنازع دار مسائل سے پاک صورتِ حال پر منحصر ہے۔
اوّلیں طور پر یہ منصوبہ ترکمانستان کو توانائی کے نئے خریدار فراہم کرے گا۔ اس سے نہ صرف ترکمن معیشت کو استحکام ملے گا، بلکہ ترکمانستان کو روس اور چین کے علاوہ نئی منڈیوں تک رسائی بھی ممکن ہوگی۔
ثانوی طور پر یہ منصوبہ افغانستان کو گیس کی فراہمی سمیت پاکستان و انڈیا کی طرف سے ٹرانزٹ فیس کی صورت میں مالی فوائد فراہم کرے گا۔ جب کہ منصوبے کی تعمیر کے دوران روزگار کے مواقع اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی افغانستان کے لیے اہم بونس ہوں گے۔
ثالثاً توانائی کے بحران سے دوچار پاکستان کو تاپی منصوبے سے ممکنہ گیس کی فراہمی اس کی صنعتی اور تجارتی ترقی میں ایندھن کی کمی جیسی رکاوٹ ختم کر کے معیشت کو فروغ دے گی۔
جب کہ چوتھے نمبر پر ایشیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت انڈیا اپنی توانائی کی ضروریات پورا کرنے کے لیے اس منصوبے سے امید لگائے ہوئے ہے۔
چوں کہ یہ گیس سستی اور ماحول دوست توانائی کے ذرائع میں شمار ہو رہی ہے، اس لیے مذکورہ چاروں ممالک اس سے حاصل ہونے والے ممکنہ فوائد کی بنیاد پر اپنے اپنے طور اس پر نظر جمائے ہوئے ہیں۔
بھارت اور پاکستان کے تناظر میں تاپی منصوبے کی کامیابی کے لیے دونوں ہمسائیوں کے تعلقات کا بہتر ہونا از حد ضروری ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی، خاص طور پر مسئلہ کشمیر اور دہشت گردی کے قدیم الزامات اس منصوبے کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ اگر دونوں ہمسائے باہمی تعلقات کو تعمیری بنیادوں پر استوار کر لیں تو یہ سیاسۃً باہم دست و گریبان دھما چوکڑیوں سے ہٹ کر عوام اور کارخانوں تک گیس کی ترسیل، ٹرانزٹ فیس اور اقتصادی فوائد کی بنیاد پر درحقیقت دونوں ملکوں کے عوام کی بھلائی کا فیصلہ ہوگا۔
خصوصاّ پاکستان اور بھارت ہی کے تناظر میں پاکستانی صوبہ بلوچستان کے سکیورٹی حالات کی تسلی بخش یقنی صورت حال ایک ایسی ناگزیر ضرورت ہے، جسے ہر حال میں رُو بہ عمل ہونا ضروری ہے۔ کیوں کہ پاکستان کا بلوچستان دنیا بھر میں ایسے خطے کا تاثر لیے ہوئے ہے، جس میں پاکستان کی جانب سے بھارت پر مبینہ طور پر بلوچ علیحدگی پسندوں کی مدد کا الزام لگایا جاتا ہے۔ یہ کیفیت ہمیشہ باعثِ کشیدگی رہی ہے۔ جس سے باہمی سفارتی مشنز، خیر سگالی جذبات اور اقتصادی فوائد لاحاصل مقاصد بن جاتے ہیں۔
لہٰذا تاپی پائپ لائن کی حفاظت کے لیے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی ضروری ہے۔ یہ منصوبہ عوام کی بھلائی کی نئی راہیں کھول سکتا ہے۔ اسی طرح بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری خطے کے دیگر ممالک کے لیے ایک مثبت پیغام ہو گی، جو علاقائی ترقی اور اعتماد سازی کو فروغ دے گی۔
دوسری طرف بھارت اور امارت اسلامیہ کے تناظر میں گزشتہ دنوں منظر عام پر آئی خبروں کے حوالے سے اگر بھارت امارت اسلامیہ افغانستان کو سرکاری طور پر تسلیم کر لیتا ہے تو اس سے تاپی منصوبے کی ممکنہ کامیابی پر نمایاں مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اگرچہ اس حوالے سے پہلے قدم کے طور پر بھارت و افغانستان کے درمیان قونصل خانے کا دوبارہ اجرا مستقبل کے تسلیم شدہ سفارتی تعلقات کی ممکنہ بحالی کی طرف اہم اشارہ ہے۔
آمدم برسرِ مطلب، بھارت کی جانب سے افغانستان کی موجودہ حکومت کو تسلیم کرنے سے منصوبے کی تعمیر اور اس کے آپریشنل ہونے کے لیے ایک سازگار ماحول پیدا ہوگا، جس سے ممکنہ طور پر بھارت کی جانب سے افغان حکومت کے ساتھ تکنیکی اور مالی تعاون سامنے آنے سے منصوبے کے متعلقہ معاملات کی انجام دہی کا عمل تیز ہو جائے گا۔ اسی طرح بھارت کا یہ متوقع اقدام ترکمانستان، پاکستان اور افغانستان کے ساتھ اس کے تعلقات کو مزید مضبوط بنائے گا، جس سے منصوبے کی کامیابی سمیت علاقائی ترقی اور مستقبل کے تجارتی منصوبوں کے امکانات مزید واضح ہو جائیں گے۔
مذکورہ مسائل حل ہونے کے بعد آخری مسئلہ اس منصوبے کی تعمیر کے لیے مالی وسائل کی دستیابی اور سرمایہ کاری کے لیے فنڈز کا ہے۔ اگر چین و روس اور جاپان جیسے ممالک اس میں سرمایہ کارانہ فنڈز کے ساتھ شمولیت اختیار کریں تو یہ اس لیے بھی آسان ہو چکا ہے کہ افغانستان کے امن و امان کے قابلِ قدر حالات پر حال ہی میں روسی وفد کی جانب سے تعریفی الفاظ ادا کیے گئے ہیں۔
یہ اس لیے بھی کہ تاپی منصوبے کی اب تک تاخیر میں ایک بنیادی بڑی رکاوٹ افغانستان میں امریکی موجودگی سے پیدا ہونے والے غیر مستحکم حالات تھے، جن کی وجہ سے سرمایہ دار لوگ، ادارے اور ممالک افغانستان میں انویسٹمنٹ سے کتراتے تھے۔
کئی ترقی یافتہ ممالک اور افغانستان کا سفر کر چُکنے والے لوگ اس امر کے گواہ ہیں کہ دہشت گردی کی جڑ امریکی موجودگی کے اختتام پر امارت اسلامیہ افغانستان اپنے سیاسی استحکام، امن و امان کی پائیدار صورت حال اور معتدل معاشی پالیسیوں کی وجہ سے سرمایہ کاروں کی نظر میں خاصی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔