نام کاربری یا نشانی ایمیل
رمز عبور
مرا به خاطر بسپار
خزیمہ یاسین
حالیہ دنوں ایسی چند اسرائیلی فوجی خواتین کی ویڈیو سامنے آئی ہے، جن میں وہ 7 اکتوبر کے واقعے میں قید ہو گئی تھیں۔ اُن فوجی خواتین کی پکڑدھکڑ کے دوران اُن میں سے کچھ زخمی بھی ہو گئی تھیں، جن کی ویڈیو سامنے آنے پر اُن فوجی خواتین کے اہلِ خانہ شدید احتجاج کر رہے ہیں۔ چوں کہ حماس ایک جنگی فریق ہے، اس لیے اُسے جنگی حکمتِ عملی کے طور پر اسرائیلیوں کو یرغمال بنانے پر تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔ اسرائیلی یرغمالیوں کے حوالے سے تمام تَر ذمہ داری نیتن یاہو حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ اسرائیلی فوجی خواتین کی حالتِ زار پر اُن کی ماؤں کی طرف سے شدید صدمے اور غصے کا اظہار کیا گیا ہے۔ 7 اکتوبر کے واقعے میں اسرائیلی فوجی چھاؤنی ‘نہال اوز بیس’ پر خدمات انجام دینے والی خواتین میں سے 15 قتل ہو گئی تھیں، جب کہ 7 یرغمال بنا لی گئی تھیں۔ اُن 7 میں سے ایک فوجی خاتون ‘اوری مجدش’ قیدیوں کی رہائی کے تبادلے میں رہا ہو گئی تھی۔ جب کہ ‘نوا مارسیانو’ قید کے دوران غزہ پر اسرائیلی فوجی حملے میں ہلاک ہو گئی تھی، جس کی لاش تدفین کے لیے اسرائیل لے جائی گئی تھی۔ اب حماس کے پاس قید خواتین میں پانچ فوجی بھی ہیں، جن میں “لیری ایلباگ، کرینہ ایریف، اگام برجر، ڈینیلا گلبوا اور ناما لیوی” شامل ہیں، یہ خواتین 7 اکتوبر سے اب تک قید میں ہیں۔ اِن فوجی خواتین کے اہلِ خانہ کی طرف سے اسرائیلی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا کر اپنے غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ “بدقسمتی سے دو یا تین ہفتوں سے ہم نے یرغمالیوں کی واپسی کے بارے میں کسی بھی طرح کی عوامی بحث نہیں سنی ہے۔ سب کچھ بُری حالت میں ہے۔ ایک یرغمالی فوجی خاتون لیری الیباگ کی والدہ الیباگ نے کہا ہے: “مَیں آپ کو بتا سکتی ہوں کہ مَیں اُن ماؤں میں سے ایک ہوں، جنہوں نے یہ ویڈیو دیکھی ہے۔ جب کہ زیادہ تر ماؤں نے اسے نہیں دیکھا۔ کیوں کہ یہ سب دیکھنا اُن کے لیے بہت مشکل اور سوہانِ روح ہے۔ یرغمال ڈینیلا گلبوا کی والدہ ا’ورلی گلبوا ‘نے کہا ہے: “حکومت کے فیصلہ ساز ارکان اپنے دیگر ذاتی سیاسی مقاصد کی وجہ سے قیدیوں کی رہائی کے لیے کوئی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔ اُنہیں اس بات کا بالکل احساس نہیں ہے کہ 230 دنوں سے اِن لڑکیوں پر کیا گزر رہی ہوگی۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ مَیں ڈینیلا کی آنکھوں میں جیسا خوف دیکھتی ہوں، اسے بیان نہیں کر سکتی۔ یہ ایسے مسائل ہیں، جن کی وضاحت کرنا مشکل ہے۔ ڈینیلا درحقیقت موت کے سامنے موجود ہے۔ یہ بہت خوف ناک اور ناقابلِ برداشت ہے۔” گلبوا نے حکومت کو متوجہ کرتے ہوئے کہا ہے: “آپ کو ان تصاویر کے اِردگرد کا سیاق و سباق سمجھنا ہوگا۔ ہماری بیٹیاں دہشت گردوں کے پاس ہیں۔ وہ ہر طرف گولیاں چلا رہے ہیں۔ گرنیڈ پھینک رہے ہیں۔ وہ ہر طرف آگ لگا رہے ہیں۔ مَیں نے اپنے بدترین خوابوں میں بھی ہالی ووڈ کی سب سے بڑی اور خوف ناک فلم میں بھی کبھی ایسا منظر نہیں دیکھا تھا۔ مَیں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ مَیں اپنی بیٹی کی آنکھوں میں ایسی بے بسی دیکھوں گی۔ گلبوا نے یہ بھی کہا کہ فوٹیج میں ان کی بیٹی کو دیکھا جا سکتا ہے، جس کی ٹانگ زخمی ہے۔ ممکن ہے کہ وہ گولی، دستی بم یا چھری کا نشانہ بنی ہو۔ جب کہ مَیں امید کرتی ہوں کہ یہ ویڈیو اسرائیلی عوام کو یرغمالیوں کے معاملے کے بارے میں دوبارہ بیدار ہونے میں کردار ادا کرے گی۔” گلبوا نے کہا ہے کہ یرغمالیوں کا معاملہ پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے۔ حکومت اس معاملے کی نزاکت اور حساسیت نہیں سمجھ رہی ہے۔ ہمیں حکومتی ارکان کو متوجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس معاملے پر کابینہ سے بحث کی بھیک مانگنی چاہیے۔ اس معاملے میں خطرناک سُستی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ حکومت وقت ضائع کر ہی ہے۔ وہ اپنے بستروں پر سوتے ہیں اور اپنے گھر والوں کے ساتھ کھاتے ہیں۔ اس لیے اُنہیں ہماری تکلیف اور پریشانی کا اندازہ نہیں ہے۔ دوسری طرف دل چسپ امر یہ ہے کہ یہودی جنگی کابینہ نے اس معاملے میں اجلاس بُلانے کی بات کی ہے، مگر یرغمالیوں کے اہلِ خانہ سے ملاقات کے لیے صرف وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے رضامندی ظاہر کی ہے۔ مگر مزید طُرفہ تماشا یہ رہا کہ وزیر دفاع نے یرغمالیوں کے اہلِ خانہ کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے کہا ہے: “وہ پہلے حماس کو ختم کریں گے، اس کے بعد یرغمالیوں کو آزاد کرائیں گے۔” جب کہ یرغمالیوں کے اہلِ خانہ کہہ رہے ہیں کہ یہ معاملہ برعکس ہونا چاہیے۔ پہلے یرغمالیوں کو آزاد کرایا جائے، بعد میں حماس کو ختم کرنے کا پلان بنایا جائے۔ کیوں کہ ہمارے قیدی زیادہ خطرناک حالت میں ہیں۔ وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں گرفتار ہیں۔ جب کہ حماس کی قید میں ہمارے جتنے بھی قیدی گولی لگنے یا لڑائی کی زَد میں آنے سے ہلاک ہوئے ہیں، وہ اسرائیلی فوج کی فائرنگ کی زَد میں آنے سے ہلاک ہوئے ہیں۔ ہمارے کسی بھی قیدی کو حماس نے براہِ راست قتل نہیں کیا ہے۔ اس لیے فوری خطرے میں ہمارے قیدی ہیں۔ جب کہ حماس سے نمٹنے میں برسوں لگیں گے۔ یرغمالیوں کو وہاں سے نکالنے کے لیے جو بھی قیمت ادا کرنا پڑے، وہ سب کیا جائے۔ اسرائیلی اخبار ‘یدیعوت احرونوت’ نے گزشتہ ماہ انکشاف کیا تھا کہ یہ فوٹیج اسرائیلی جنگی کابینہ اور توسیع شدہ سکیورٹی کابینہ کو دکھائی گئی تھی، لیکن بہت سے وزرا نے اسے ارادۃً نہیں دیکھا۔ مثال کے طور پر ایک وفاقی وزیر جوئیل سموٹریچ (Bezalel Smotrich) نے ویڈیو کو دیکھنے کے لیے رضامند وزرا کو کہا: “کیا آپ یہ ویڈیو دیکھ کر رات کو اچھی طرح سونا نہیں چاہتے؟” جب کہ لیری الیباگ کی بہن ‘شائی الیباگ’ نے کہا ہے: “مَیں واقعی امید کرنا چاہتی ہوں کہ جوئیل سموٹریچ اس طرح کی فوٹیج سے لاتعلق نہیں رہ سکیں گے۔ وہ اس صورت حال میں اپنے بچے کا تصور کرنے کی کوشش کریں، شاید اس سے معاملات بہتر ہو جائیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ لیری اور دیگر لڑکیاں حکومتی فرائض کی ادائیگی کے دوران یرغمال بنائی گئی تھیں۔ ریاست کو ان کی اور تمام یرغمالیوں کی حفاظت کرنی چاہیے۔ وہ آٹھ ماہ سے لمحہ بہ لمحہ قید کی تکلیف برداشت کر رہی ہیں۔” جب کہ سموٹریچ نے یہ ویڈیو دیکھنے کے بعد اپنے ایک بیان میں قیدیوں کے اہلِ خانہ کے زخموں کو مزید گہرا کرتے ہوئے کہا ہے: “ویڈیو میں دکھائے گئے خوف ناک مناظر سے ان کے موقف کو تقویت ملتی ہے کہ ‘حماس کو ختم کرنا ہی یرغمالیوں کی واپسی کا واحد راستہ ہے۔” جب کہ اسلام چھوڑ کر یہودیت اختیار کرنے والی ایک مشہور عرب اسرائیلی گلوکارہ ‘نسرین قادری’ نے اپنے انسٹاگرام پر اسی ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے: “اے عرب قوم! تم کہاں ہو؟ خود ہی دیکھو، کیا تمہیں شرم نہیں آتی؟ تم اسلام کی بات کرتے ہو، کیا یہ اسلام ہے؟ یہ مذہب نہیں ہے، یہ رسوائی ہے!” نسرین قادری نے اپنے پیروکاروں سے التجا کی ہے کہ “وہ یہ نہ بھولیں کہ ہماری خواتین قید میں کیا کچھ برداشت کر رہی ہیں؟! انہوں نے آٹھ ماہ سے اپنے والدین کو نہیں دیکھا، آٹھ مہینے تکالیف سہی ہے۔ جاگ جاؤ! اور انہیں ابھی گھر لے آؤ!” جب کہ اسی تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ یہود کو 7 اکتوبر کے بعد پہنچنے والی تکالیف اور پریشانیوں نے اس قدر ماؤف کر دیا ہے کہ وہ قیامِ اسرائیل کے سال 1948 سے اب تک کی تمام خوشیاں بھول گئے ہیں۔ اب اُنہیں صرف 7 اکتوبر سے اب تک کے 8 ماہ کی تکلیفیں ہی یاد ہیں۔ جب کہ فلسطینی مسلمان 1948 سے اب تک اسرائیل کی طرف سے پہنچنے والے قتل و غارت کے مظالم، نسل کشی کے نقصان اور عصمت دری کے مصائب سہہ رہے تھے۔ جیسے لیری ایلباگ کی بہن شائی ایلباگ اسرائیلی حکومتی ارکان کو اپنے مغویوں کی رہائی کے لیے دُہائی دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ ‘اگر وزرا لیری اور اُس جیسی دیگر خواتین کو اپنے بچوں کی جگہ رکھ کر سوچیں تو معاملات درست ہو سکتے ہیں۔’ یہی سوال، بلکہ مطالبہ ہمارا ہے کہ اگر یہود 1948 کے وقت سے ہی فلسطینی بچوں کو اپنے بچوں کی جگہ رکھ کر سوچتے اور معاملات چلاتے تو آج یہود کو 7 اکتوبر کے ہول ناک دن کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ مگر معاملہ یہ ہے کہ ظالم اپنے ظلم سے باز نہیں آتا۔ تب یہ مہلت ختم ہونے پر فطرت کا وہ موڑ سامنے آ جاتا ہے کہ جس میں ظلم کو ایک دن ختم ہو کر رہنا ہے۔ اسرائیل کے بُرے دن آ گئے ہیں۔ فطرت اپنے تدریجی اصول کے تحت دھیرے دھیرے اسرائیل کو ایک ایسی تباہی کی طرف لے کر جا رہی ہے، جس کا انجام بربادی، موت اور جہنم ہے۔ اردو کے ایک شاعر ‘احمد سلمان’ نے درست کہا ہے: جو ہم پے گزرے تھے رنج سارے، جو خود پے گزرے تو لوگ سمجھے جب اپنی اپنی محبتوں کے عذاب جھیلے تو لوگ سمجھے
یہ مضمون بغیر لیبل والا ہے۔
دیدگاهها بسته است.