نام کاربری یا نشانی ایمیل
رمز عبور
مرا به خاطر بسپار
محمد کوثر دولت زئی
امارت اسلامیہ نے دوحہ میں افغانستان کے حوالے سے اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، امارت اسلامیہ نے یہ فیصلہ اپنے قومی مفادات، مذہبی اور بین الاقوامی قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے کیا ہے۔
ملکوں کی تاریخ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہ سکتی چاہے وہ ملک سے غداری ہو یا ملک کے لیے قربانی، اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور دوسروں کے لیے بطور عبرت یا سبق کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
امارت اسلامیہ کی جانب سے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے کی تقرری کی یہ تاریخی مخالفت کوئی اچانک فیصلہ نہیں ہے بلکہ امارت اسلامیہ افغانستان، افغانستان کی گزشتہ 300 سالہ تاریخ اور موجودہ بین الاقوامی دجالی فتنوں سے باخبری کی دلیل ہے۔ واضح رہے کہ اب انہیں محض خوبصورت اور پرفریب الفاظ سے بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا اور نہ ہی بین الاقوامی منڈی میں ان کی کوئی قیمت مقرر کی جا سکتی ہے۔
فریدون سینر اوغلو کے خصوصی نمائندے کی تجویز بالکل 19ویں صدی کی طرح ہے، جب انگریزوں نے ہندوستان اور بر صغیر کو اپنے وائسرائے (لارڈ کینن، لارڈ لارنس، میک ناٹن، کیوناری، رابرٹس وغیرہ) کے ذریعے سنبھالا، جہاں ان کے 50 فیصد اندرونی معاملات میں مداخلت کی گئی اور ان کے خارجہ تعلقات مکمل طور پر ان کے کنٹرول میں تھے۔
سینیر اوغلو کی تجویز ایک بار پھر براہ راست اور بالواسطہ طور پر افغانستان کے امور خارجہ کو اپنے ہاتھ میں لینے کے مترادف ہے۔ اس طرح عالمی قوتیں اپنے نئے سامراجی تصور کو اب خوبصورت الفاظ میں نئی تعریف دینے کی کوشش کر رہے ہیں، اس طرح وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس فیصلے کی خلاف ورزی کرنا امارت اسلامیہ افغانستان کی سیاسی بصیرت کو زیربحث لانا ہے۔
اس کے علاوہ بیرون ملک مقیم وہ افغان جو خود کو روشن خیال اور دیگر افراد جو یہ سمجھتے ہیں کہ امارت اسلامیہ کا خصوصی ایلچی کی مخالفت کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ بین الاقوامی سیاست کو نہیں سمجھتے اور خود کو بین الاقوامی تنہائی میں ڈال رہے ہیں۔ تاہم ایسا بالکل نہیں ہے، وہ صرف اپنے پرفریب الفاظ سے ہمارے ملک سے باہر مقیم افغانوں کو ورغلانے کی کوشش کر رہے ہیں جیسا کہ انہوں نے پوری تاریخ میں ایسا کیا بھی ہے۔
امارت اسلامیہ یہ اچھی طرح جانتی ہے کہ نمائندہ خصوصی کی مخالفت مختصر مدت میں نام نہاد روشن خیال افغانوں اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے والے بین الاقوامی قوتوں کے لیے مشکل ہوگی، لیکن طویل مدتی طور پر افغانستان کے شہریوں اور افغانستان سے باہر مقیم افغانوں کے لیے باعث فخر ہوگی اور یہ فیصلہ تاریخ کے صفحات میں سنہرے الفاظ کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہے گا۔
یہ مضمون بغیر لیبل والا ہے۔
دیدگاهها بسته است.