نام کاربری یا نشانی ایمیل
رمز عبور
مرا به خاطر بسپار
محمد افغان
تاریخ کے فراز و نشیب میں کئی عظیم سلطنتیں وجود میں آئیں اور ڈوب گئیں۔ ان کی تقدیر میں داخلی انتشار اور غداری نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اوراق سیاست کی ایسی سحر انگیز داستانوں سے بھرے پڑے ہیں، جہاں عروج و زوال کے منازل طے کرتی یہ عظیم سلطنتیں داخلی انتشار اور غداری کے زخموں سے گزر کر اپنی بقا یا فنا یا نئے جنم کی تقدیر رقم کرتی ہیں۔ شمال مغربی افریقا کے اطلس پہاڑوں سے جنوبی ایشیا کے عظیم ہمالیہ تک چار اہم پارچے … سلطنتِ اندلس، ابتدائی عثمانی سلطنت، ٹیپو سلطان کی حکومتِ میسور اور عظیم مغلیہ سلطنت … ہمیں زندگی کے اَنمول اسباق سکھاتے ہیں کہ کیسے داخلی اعتماد و اتحاد ہی کسی قوم کی بقا کی ضمانت بن سکتے ہیں۔
اندلس کا زوال:
سال 711 عیسوی میں طارق بن زیاد کے عظیم المرتبت لشکروں نے اسپین کی سرزمین پر قدم رکھا۔ قرطبی اموی خلافت نے ابتدا میں ایک متحد سیاسی ڈھانچہ قائم کیا، جس نے قرونِ وسطیٰ کے یورپ میں علمی و ثقافتی انقلاب برپا کیا۔ البتہ جیسے ہی مرکز کمزور پڑا، محلّی حکمرانوں نے خود مختاری کا راستہ اپنایا اور چھ چھ ‘طوائف’ (Taifa) ریاستوں میں تقسیم ہو گئے۔ ہر ملک کے امیر نے نہ صرف اپنے پڑوسی طائفوں کے خلاف سازشیں کیں، بلکہ بعض نے عیسائی حکمرانوں سے ساز باز کر کے اپنے گھریلو اتحادیوں کو کمزور کیا۔ غرناطہ کے امیر نے اپنی حکومت اور اپنی زندگی کی ضمانت کے لیے مسیحی بادشاہ کو بھاری محصول ادا کیا، لیکن خود کو محفوظ نہ رکھ سکا۔ یہ داخلی نفاق بالآخر 2 جنوری 1492 عیسوی کو اسلامی اقتدار کے آخری گڑھ غرناطہ کو بھی سمندر بُرد کرنے کا باعث بنا۔
ارطغرل اور سعدالدین کوپیک:
ایشیا کی اناطولیہ کی سرزمین پر سلجوق دور کا زوال جاری تھا۔ شمالی عراق سے آئے سلجوق ترکوں نے عظیم حکمرانی کی بنیاد رکھی تھی، لیکن 12ویں صدی کے وسط میں سلجوق دربار میں سعدالدین کوپیک جیسا وزیر اعظم اقتدار کے نشے میں مبتلا ہو گیا۔ کوپیک نے خراج کی ترسیل کے بہانے مضبوط قبائلی روایات کو پامال کیا، قبائلی سرداروں کے مابین بداعتمادی پھیلا دی اور خود ارطغرل کی فتوحات کو بھی خود کے حکمران بننے کے غدارانہ خواب کے لیے خطرہ سمجھا۔ اگرچہ اس سازشی ماحول نے ایک طرف سلجوقی مرکزی حکومت کو کمزور کر دیا تھا، مگر دوسری طرف اسی ماحول نے ارطغرل کو اپنی خانہ بدوش فوج کو منظم کرنے کا موقع بھی فراہم کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ داخلی انتشار کا ہی نتیجہ تھا کہ عثمانیوں کو اب اپنا راستہ خود تلاش کرنا پڑا۔ چناں چہ سال 1299 عیسوی میں عثمان دوم نے آزاد مملکت تشکیل دی، جس نے چھ صدیوں تک ایشیا، افریقا اور یورپ کے سیکڑوں شہر فتح کیے اور ایک نئے عالمی دور کی بنیاد رکھی۔ جو بالآخر آخری عثمانی سلطان عبدالحمید ثانی (1876ء تا 1909ء) کے دور میں تباہ اور ٹکڑے ٹکڑے ہوئی تو وہ بھی داخلی غداروں کی وجہ سے…
عثمانی سلطنت کے زوال میں بھی داخلی غداری نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ خاص طور پر سلطان عبدالحمید ثانی کے دور میں جب سلطنت مختلف داخلی اور خارجی چیلنجز سے نبرد آزما تھی۔ اس دور میں سلطان کی ‘خود مختار حکمرانی’ سے نالاں ‘نوجوان ترک’ تحریک کے رہنما اور دربار کے کچھ اعلیٰ عہدے دار یورپی طاقتوں کے ساتھ سازباز کرنے لگے۔
ان غدارانہ سرگرمیوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ سلطان عبدالحمید کو اپنے سیاسی اختیارات ترک کرنا پڑے اور انہیں تخت سے ہٹا دیا گیا۔ سال 1908 عیسوی کے انتشار میں عثمانی سلطنت کی مرکزی حیثیت ختم ہو گئی، جس کے بعد سلطنت کا سیاسی شیرازہ بکھرنے لگا۔ سلطنت کے اندرونی استحکام کو کمزور کرنے والی یہ داخلی غداری عالمی جنگِ عظیم اول کے دوران مزید آشکار ہو گئی۔
سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد سال 1924 عیسوی میں خلافت کا خاتمہ ہو گیا اور یورپی طاقتوں نے سلطنت کے علاقوں کو نوآبادیات میں تقسیم کر دیا۔ خاص طور پر فلسطین میں برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی کے تحت صیہونی منصوبوں کی راہ ہموار ہوئی۔ یہ وہی زمین تھی، جس کے تحفظ کے لیے سلطان عبدالحمید نے صہیونی تحریک کی لاکھوں پاؤنڈز کی پیشکش مسترد کر دی تھی۔ تاہم داخلی غداروں کی سازشوں کے سبب خلافت ختم ہوئی اور فلسطین پر مظالم اور عزت و ناموس کی بربادی کا وہ دُکھ سہنا پڑا، جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ یہ حقیقت ان غداروں کی تاریخی ذمے داری کو واضح کرتی ہے، جنہوں نے نوآبادیاتی طاقتوں کے ساتھ ساز باز کر کے امتِ مسلمہ کی مرکزیت کو توڑا تھا۔
ٹیپو سلطان سے میرِ صادق کی غداری:
سال 1782 عیسوی میں حیدر علی کے بعد تختِ میسور پر بیٹھنے والے ٹیپو سلطان نے جدید توپ خانے اور خفیہ مخبری کا جال بچھایا۔ وہ اپنی فوج کو جدید سازو سامان سے آراستہ کرتا اور برطانوی سازشوں کو چکما دینے کی ہر ممکن کوشش کرتا۔ مگر 1799 عیسوی میں چوتھی ‘انگریزی-میسوری جنگ’ کے دوران میرِ صادق نے معرکہ کے خفیہ خاکے اور فوج کی نقل و حرکت کے حالات انگریزوں کے حوالے کر دیے۔ نتیجتاً برصغیر میں انگریزوں کے قدم جم گئے اور 4 مئی 1799 عیسوی کو سری رنگاپٹنہ کے محاصرے میں ٹیپو سلطان شہید ہو گئے۔ اس غداری نے نہ صرف ایک بہادر سلطنت کا اجتماعی خاتمہ کیا، بلکہ برصغیر کو صدیوں کی غلامی کے اندھیرے میں دھکیل دیا۔
مغلیہ سلطنت میں انتشار:
سال 1526 عیسوی میں بابر نے مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی، مگر عروج کے بعد اندرونی اختلافات نے کمزوری پیدا کر دی۔ شاہجہاں کے بعد اس کے بیٹوں کے درمیان تخت یابی کی لڑائی نے دربار کو خانہ جنگی کی لپیٹ میں لے لیا۔ پھر اَورنگزیب کے دور میں خزانے خالی ہوئے، مذہبی اختلافات بڑھے اور انتظامی نظام کمزور اور سست ہو گیا۔ اس دوران بعض صوبائی حکمرانوں نے اپنے مفادات کے لیے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی سے خفیہ معاہدے کیے۔ ان اقدامات نے سلطنت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا اور انگریزوں کے لیے برصغیر میں حکمرانی کا دروازہ کھول دیا۔
کوئی غدار کیوں یا کب بنتا ہے:
آخر سوال یہ ہے کہ لوگ غداری پر کیوں آمادہ ہو جاتے ہیں؟
بات یوں ہے کہ غداری کرنے والے حکمران یا اعلیٰ عہدے دار—چاہے عام انسان ہوں یا میرِ صادق اور سعدالدین کوپیک جیسے اہم افراد—چند بنیادی محرکات کی وجہ سے اپنے ‘محسنوں’ یا حکومتوں کے خلاف سازش اور غداری کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔
نمبر 1 … ذاتی مفاد و لالچ:
اکثر درباری یا فوجی عہدے دار اپنے عہدے کے ذریعے بھاری مال و دولت اور زمینیں حاصل کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ میرِ صادق کو اگرچہ میسور کے وزیرِ خزانہ کا منصب ملا تھا، مگر برطانوی سرپرستی میں اس کا لالچ مزید بڑھ گیا کہ وہ ‘غیرملکی نئے حکمران’ کے تحت اپنی جاگیر اور عہدے کو برقرار رکھنا زیادہ مفید سمجھنے لگ گیا تھا۔
بعض اوقات حکومتی زوال کا خوف ہوتا ہے۔ کوئی عہدے دار سوچتا ہے کہ اگر حکومت گر گئی تو اُس کی زندگی و املاک خطرے میں پڑ جائیں گی۔ چناں چہ وہ طاقت وَر مخالف/اجنبی قوت کے ساتھ امیدیں باندھ لیتا ہے۔
نمبر 2 … سیاسی عناد یا انتقام:
سعدالدین کوپیک نے ارطغرل اور اس کے قبائل کو کمزور کرنے کے لیے بنارسیا انتقامی کارروائی کی—وہ اپنی سیاسی لیڈرشپ کو محفوظ رکھنے کے لیے روایتی قبائلی قوتوں کا خاتمہ چاہتا تھا۔
سعدالدین کوپیک نے ارطغرل اور اس کے قبائل کی طاقت کم کرنے کے لیے انتقامی کارروائیاں کیں۔ کیوں کہ وہ اپنا سیاسی اقتدار برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ کوپیک جیسے سدابہار سیاسی طاقت کے خواہش مند کے خیال میں ارطغرل کا عروج کوپیک کے لیے سیاسی موت کے مترادف تھا۔
مغل حکمران اورنگزیب کے دور میں بھی بعض اعلیٰ مجاہدین یا نواب اپنی ‘مذہبی’ ترجیحات کے نام پر دربار سے الگ ہو کر منحرف ہو گئے۔
اورنگزیب کے دور میں جب انہوں نے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے فقہی نظریات کو مرکزی اہمیت دیتے ہوئے سنی مذہب کو سرِ فہرست رکھا تو دربار سے منسلک شیعہ، اہل سنتِ کے دیگر مکاتب فکر اور صوفیائی گروہوں سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ حکام اور نواب محسوس کرنے لگے کہ ان کے عقائد و رسومات کو دربار میں قبولیت نہیں مل رہی۔ چناں چہ انہوں نے دربار سے الگ ہو کر اپنی صوبائی طاقتیں مضبوط کیں یا اورنگزیب مخالف اتحادوں میں شمولیت اختیار کر لی۔ یوں مذہبی ترجیحات کے نام پر پیدا ہونے والی مسلکی دیواروں نے مغل دربار کے اندرونی اتحاد کو سخت نقصان پہنچایا اور سلطنت کی انتظامی ہم آہنگی کو کمزور کر دیا۔
نمبر 3 … فکری یا نظریاتی اختلاف:
کبھی کبھی عہدے دار یہ بھی سمجھتے ہیں کہ موجودہ نظام غلط ہے اور وہ خود ‘انقلاب’ یا ‘اصلاح’ لانا چاہتے ہیں۔ مگر بسا اوقات یہ اصلاحی جذبہ عصبیت یا غیظ و غصے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ جس کی نکاسی کے لیے ایسے افراد میں سے اگر کوئی فرد پختہ نظریاتی فکر اور اپنے ملک و قوم سے اخلاص کے درست مفہوم سے ناآشنا ہو تو وہ غیروں کے ہاتھوں کا کھلونا بن کر شعوری یا غیر شعوری طور پر غداری کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔
نمبر 4 … بیرونی دباؤ اور دہشت:
جب کوئی طاقت ور بیرونی عسکری یا سیاسی قوت اندرونی درباری کو دھمکاتی ہے تو بعض مرتبہ وہ دربار سے منسلک فرد یا عہدے دار گھبرا کر یا جان کے خوف سے غداری کر بیٹھتا ہے۔ خاص طور پر اگر اس کے اپنے خاندان یا قبیلے کی سلامتی کو خطرہ ہو اور وہ عزت کی موت اور ذلت کی زندگی کے معنوں سے نابلد ہو تو ایسے فرد کے لیے عین یقینی ہوتا ہے کہ وہ اپنی ہی قوم کے خلاف استعمال ہو جائے۔
نمبر 5 … سازشی ماحول:
بعض مرتبہ جب کبھی سلطنت کے اندرونی حالات اتنے کشیدہ ہوں کہ دربار میں طاقت کے حصول کے لیے ہر کسی کو اپنے مفادات کا خیال ستائے یا محاذِ جنگ پر فوجی کمانڈرز اپنے وجود کی حفاظت میں مصروف ہوں تو ہر فرد قومی یا مذہبی وفاداری کے اصولوں سے پہلے اپنی ذاتی پوزیشن یعنی ‘عہدے دارانہ مقام’ کو خطرے سے بچانا اولین ترجیح سمجھتا ہے۔ ایسی بے یقینی کی فضا میں لوگ حکومتی یا فوجی ڈھانچے کی بقا سے زیادہ اس حکومتی منصب کی حفاظت کے لیے لڑتے ہیں، جہاں سے انہیں ظاہری اسباب کے درجے میں اختیار، مرتبہ اور رزق ملتا ہو۔
خلاصہ یہ کہ ہر غداری کی بنیاد انسانی فطرت کے وہ پہلو ہیں، جو شدید لالچ، خوف، انتقام یا سیاسی خودغرضی سے پیدا ہوتے ہیں۔ جب کسی فرد کے لیے ؛ذاتی مفاد’ یا ‘فرد کی بقا’ مذہب، جماعت یا ریاستی وفاداری سے بڑھ کر اہم ہو جاتی ہے تو اُس کی نظر میں غداری کوئی بہیمانہ فعل نہیں رہتا… بلکہ ‘نظریہ ضرورت’ محسوس ہوتی ہے۔ ہمیشہ اسی ‘نظریہ ضرورت’ نے تاریخی طور پر مسلم حکومتوں کے اندرونی ڈھانچے کو ہلاکر رکھا ہے۔
عبرت آموز نتائج:
جب سلطنتوں میں اندرونی انتشار اور غداری ہوتی ہے تو وہ اندر سے کمزور ہو جاتی ہیں۔ مشکل حالات کے بعد صرف مضبوط رہنما اور اجتماعی اتحاد ہی نئی کامیابیوں کے دروازے کھول سکتے ہیں۔
مثلاً اندلس میں طوائف کی تقسیم نے وہاں مسلم حکمرانی کی جڑیں ختم کر دیں۔ جب اندلس سے مسلمانوں کا سورج غروب ہوا تو ساتھ ہی عیسائیت کی سیاہ رات چھا گئی۔
سلجوقیوں کے اندرونی جھگڑوں نے سلطنت عثمانیہ کو جنم دیا۔
ٹیپو سلطان کے خلاف میر صادق کی غداری نے نئی سرحدی تقسیم کے دروازے کھول دیے۔ اور مغلیہ سلطنت کے زوال نے انگریزوں کو برصغیر میں مضبوط قدم جمانے کا موقع دیا، جن کے نشانات آج بھی سرحدی، تہذیبی اور ثقافتی تقسیم کی صورت موجود ہیں، جو یہاں کے باسیوں اور حکومتوں کے درمیان جنگ و جدل کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جب تک ایمان و اتحاد اور انصاف کا سایہ موجود رہے، تب تک مسلمانوں کو زوال دینا ناممکن ہے۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاه بسته شده است.