نام کاربری یا نشانی ایمیل
رمز عبور
مرا به خاطر بسپار
محمد افغان
افغانستان جیسے ترقی پذیر ملک کو توانائی کے شعبے میں خاصے بحران کا سامنا ہے۔ یہاں بجلی اور گیس جیسے توانائی کے بنیادی ذرائع کی کمی ہے، جو عوام کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرنے کے علاوہ صنعتوں کی ترقی اور اقتصادی استحکام کے لیے بھی بڑی رکاوٹ ہیں۔ دوسری طرف افغانستان کی قدرتی گیس کے 59 ٹریلین کیوبک میٹر تخمینہ شدہ ذخائر اپنے اخراج کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور سرمائے کا انتظار کر رہے ہیں۔ افغانستان میں قدرتی گیس کے ذخائر مختلف علاقوں میں موجود ہیں۔ جیسے افغانستان کے شمالی حصے میں “آمو دریا” کے علاقے میں 1950 کی دہائی کے آخر میں قدرتی گیس کے ذخائر دریافت ہوئے تھے۔ یہ ذخائر روسی حکومت نے دریافت کیے تھے اور ان کا مقصد اس گیس کو روس تک منتقل کرنا تھا۔ دوسرے نمبر پر شمالی افغانستان میں “شبرغان” کے علاقے میں 1960 کی دہائی میں قدرتی گیس کے بڑے ذخائر دریافت ہوئے تھے۔ شبرغان گیس کا ذخیرہ افغانستان کے سب سے بڑے گیس ذخائر میں سے ایک ہے۔ تیسرے نمبر پر ڈھند اور فاریاب نامی علاقوں میں بھی 1970 کی دہائی میں گیس کے ذخائر دریافت ہوئے تھے، جنہیں تب مختلف مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ چوتھے نمبر پر افغانستان کے شمالی صوبے جوزجان میں قدرتی گیس کے ذخائر کی دریافت 1970 کی دہائی میں ہوئی تھی۔ البتہ یہ ذخائر تب تک استعمال نہیں کیے جا سکے، جب تک افغانستان کی سیاسی اور اقتصادی صورت حال مستحکم نہیں ہوئی۔ ان علاقوں میں گیس کی دریافت نے افغانستان کی توانائی کی ضروریات پورا کرنے کی اہم بنیاد فراہم کی تھی، مگر محدود وسائل، خانہ جنگیوں اور امریکی جنگی حالات کے دوران امن و امان کی خرابیوں کے باعث ان ذخائر کا زیادہ فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔ البتہ اس کے باوجود افغانستان کے مذکورہ شمالی علاقوں میں قدرتی گیس کا محدود استعمال بہرحال موجود ہے۔ امارت اسلامیہ اور توانائی کے شعبے میں کام کرنے والے ادارے قدرتی گیس کے مزید ذخائر تلاش کرنے اور انہیں استعمال کے قابل بنانے کے لیے محدود سرمائے اور وسائل کی بنیاد پر کوششیں کر رہے ہیں، مگر یہ اقدامات اب تک اس بحران کو مکمل طور پر حل نہیں کر پائے ہیں۔ دوسری طرف افغانستان مجموعی طور پر سرد ملک ہے۔ اس لیے موسمِ سرما میں حرارت حاصل کرنے کے لیے گیس کے بجائے بجلی پر انحصار کی مجبوری اس بات کی غماز ہے کہ یہاں بجلی کی طلب میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ صورت حال خاص طور پر موسم سرما میں اَور زیادہ شدید ہو جاتی ہے، جب لوگ حرارت حاصل کرنے کے لیے بجلی سے چلنے والے اے سی اور الیکٹرک ہیٹر جیسے آلات پر انحصار کرتے ہیں۔ نتیجۃً بجلی کی فراہمی پر بوجھ بڑھ جاتا ہے، جس سے لوڈشیڈنگ کے دورانیے طویل ہو جاتے ہیں۔ افغانستان کے جن علاقوں میں قدرتی گیس کی فراہمی موجود نہیں ہے، وہاں گیس کا استعمال سیلنڈروں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ ان سیلنڈرز کے حوالے سے عوام کے لیے ایک بڑا بوجھ یہ ہے کہ بار بار گیس خریدنا بڑی مشکلات میں سے ایک ہے تو دوسری طرف معاشی طور پر بھی یہ پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ ان حالات میں خصوصاً سردیوں میں بجلی کی طلب پر بڑھتا ہوا انحصار لوڈشیڈنگ کی شدت اور طویل دورانیے کو جنم دیتا ہے۔ افغانستان میں سردیوں کے دوران بجلی کی ضرورت بڑھنے سے ہونے والی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 10 گھنٹوں سے زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ اس عرصے میں بجلی کی فراہمی میں کمی کی وجہ سے روزمرہ کی زندگی سمیت معاشی سرگرمیاں بھی متاثر ہوتی ہے، جس سے عوامی سطح پر مشکلات میں اضافہ محسوس کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف افغانستان میں توانائی کے بحران کا حل صرف داخلی ذرائع پر انحصار سے نہیں نکل سکتا۔ اس کے لیے بین الاقوامی سطح پر شراکت داری کی ضرورت موجود ہے، تاکہ توانائی کے مزید ذرائع تلاش کیے اور تلاش شدہ کو جلد از جلد فعال کیا جا سکے۔ افغانستان کی الیکٹرسٹی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر عبدالباری عمر کا ترکمانستان کا دورہ اس حوالے سے اہم پیش رفت ثابت ہوا ہے۔ اس دورے میں افغانستان اور ترکمانستان کے درمیان بجلی کی خریداری کے معاہدے پر بات چیت کی گئی ہے، جس کے تحت افغانستان ترکمانستان سے سال 2025 کے لیے بجلی کی موجودگی یقینی بنائے گا۔ توانائی کے شعبے میں ترکمانستان کے ساتھ بڑھتا ہوا تعاون افغانستان کی توانائی کی ضروریات پورا کرنے کے لیے مثبت قدم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کے قدرتی گیس کے ذخائر کو نکالنے اور انہیں کارآمد بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کی بھی ضرورت ہے، تاکہ ملک بھر میں توانائی کی فراہمی میں اضافہ کیا جا سکے۔ جب کہ اسی مقصد کے لیے افغانستان میں بجلی کی کمی پورا کرنے کے لیے مختلف علاقوں میں ڈیمز بھی بنائے جا رہے ہیں، جن کا مقصد نہ صرف بجلی کی پیداوار بڑھانا ہے، بلکہ پانی کے ذخائر بھی محفوظ کرنا ہے، تاکہ خشک سالی کے دوران پانی کی کمی کا مقابلہ کرنے سمیت موجودہ کاشت کاری کو مزید بڑھایا جا سکے۔ ان منصوبوں کے مکمل ہونے کے بعد خصوصاً ڈیمز سے حاصل ہونے والی بجلی سے افغانستان کی توانائی کی ضروریات پورا کرنے سمیت لوڈشیڈنگ پر بھی قابو پایا جا سکے گا۔ افغانستان کو توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے عالمی سطح پر مزید تاجرانہ شراکت داری کی ضرورت ہے، تاکہ عوام کی زندگی بہتر بنائی جا سکے۔ ملک کی مزید اقتصادی ترقی کے راستے کھل سکیں۔ اسی تناظر میں ترکمانستان کے ساتھ بڑھتا ہوا تعاون اچھا آغاز ہے۔ البتہ افغانستان کو دیگر ممالک سے توانائی کے ذرائع حاصل کرنے، قدرتی گیس کے ذخائر کو نکالنے اور جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ توانائی کی ضرویات پورا کرنے کے لیے دیگر ذرائع جیسے شمسی توانائی، ہوائی توانائی اور ہائیڈرو پاور کو بھی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔
یہ مضمون بغیر لیبل والا ہے۔
دیدگاهها بسته است.