نام کاربری یا نشانی ایمیل
رمز عبور
مرا به خاطر بسپار
تحریر: عبدالحئی قانت
اس میں کوئی شک نہیں کہ غاصب صیہونی حکومت کے خلاف حماس کا یہ تاریخی معرکہ مشرق وسطیٰ کے خطے میں تزویراتی ارتقا کا ایک تاریخی عمل تھا، جس کو تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن نے مشرق وسطیٰ کا سیاسی منظرنامہ مکمل طور پر تبدیل کر دیا۔ خطے کے ممالک، اسرائیلی حکومت اور بڑی بین الاقوامی طاقتوں نے حماس کا جو تجزیہ کیا تھا وہ غلط ثابت ہوا۔ طوفان الاقصیٰ معرکہ کے بعد اسٹریٹجک مفکرین کے تجزیے میں حماس کو فلسطینی کیس کی واحد نمائندہ سمت تصور کیا جائے گا کیونکہ موجودہ طوفان کو پیدا کرکے اس نے ثابت کر دیا کہ مسئلہ فلسطین پر اس کا کنٹرول ہے۔ امریکا اور صیہونی حکومت فلسطینی اتھارٹی (محمود عباس) کے لیے جتنی بھی مہم چلائے، تاہم فیصلہ طاقت کی بنیاد پر ہوتا ہے اور طوفان الاقصیٰ آپریشن نے ثابت کر دیا کہ طاقت کی کرسی پر کون بیٹھا ہے۔
2021 کے سیف القدس آپریشن کے بعد اسرائیل اور خطے کے ممالک کو تشویش لاحق ہوگئی ہے کہ غزہ کی پٹی میں حماس کی مزاحمت ان کے لیے مسلسل خطرہ ہے لیکن ان کے نزدیک اسے روکنے کا راستہ مشکل نہیں تھا۔ انہیں غزہ میں اپنے فوجی اڈوں پر فخر تھا اور انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ فلسطینی مزاحمت اتنا بڑا کارنامہ انجام دے گی۔ اسرائیلی حکومت اور اس کے حامیوں سب نے اس ناکامی کا اعتراف کیا ہے۔
حماس کی اسٹریٹجک کامیابیاں:
7 اکتوبر کے آپریشن میں حماس کو دو بڑی سٹریٹیجک کامیابیاں حاصل ہوئیں۔
سن 1948ء کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ فلسطینی مزاحمت نے غاصب اسرائیل کو اعصاب شکن سبق سکھایا۔ حماس نے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوجیوں کو گرفتار کیا اور کئی اہم اسرائیلی کمانڈروں کو ہلاک کیا۔ اس سے حماس کو اپنے مظلوم قیدیوں کو اسرائیل کی ظالمانہ جیلوں سے آزاد کرنے کا موقع ملا۔
حماس کا خیال تھا کہ اسرائیل کے ساتھ خطے کے ممالک کی روایتی پالیسی اور امریکہ کی کوششوں سے (صدی کی ڈیل) کو روک دیا جائے کیونکہ امریکہ کی قیادت میں خطے کے ممالک نے اسرائیل کی مدد سے حماس کو فلسطین کے سیاسی معاملہ سے باہر کر دیا تھا۔ تاہم طوفان اقصی معرکہ نے یہ ثابت کر دیا کہ حماس کے بغیر مسئلہ فلسطین کا کوئی حل نہیں ہے اور حماس نے کسی کو یہ اجازت نہیں دی ہے کہ وہ اس معاملہ پر سودہ بازی کریں۔ دوسرا اس نے اسرائیل کے ساتھ خطے کے عرب ممالک کے رویے کو بھی چیلنج کر دیا۔
ابھی تک جنگ کا سیاسی توازن حماس کے مجاہدین کی طرف ہے کیونکہ وہ اس آپریشن سے درج بالا سٹریٹجک فوائد حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں لیکن اسرائیل کو غزہ پر بمباری کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوا۔ حماس کا موقف معلوم ہے اور وہ یہ ہے کہ جنگ کو بڑھایا جائے، علاقائی کھلاڑی اس میں کردار ادا کریں اور اگر ممکن ہو تو دوسرے مسلمانوں کو القدس کی آزادی کی عظیم جدوجہد میں شامل کیا جائے۔ حماس کے مختلف رہنما آپریشن کے آغاز سے ہی یہ درخواست کر رہے ہیں اور وہ اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ مختصر مدت کے لیے جاری آپریشن کو اس طرح ختم کیا جاسکے جو حماس کے مفاد میں ہو۔
دوسری طرف اسرائیل اپنی ناکامی، شرمندگی اور غصے کی وجہ سے عالمی برادری اور یہودیوں کو کامیابی دکھانے پر مجبور ہے۔ اس نے ابھی تک میدان جنگ سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھایا ہے اور وہ اس جنگ کو اس وقت تک نہیں روک سکتا جب تک کہ اس کے پاس عوام کو دکھانے کے لیے کوئی چہرہ نہ ہو۔
مستقبل کا ممکنہ منظرنامہ:
میرے خیال میں طوفان الاقصیٰ کے نتیجے میں مستقبل کے کئی ممکنہ منظرنامے ہیں۔
1۔ اسرائیل غزہ کے باشندوں کو مصری سیناء کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ وہ غزہ پر قبضہ کر سکے، نتن یاہو ایک عظیم اسرائیل بنانے کے لئے اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ جنگ کے دوسرے دن مشرق وسطیٰ آنے والے بلینکن نے مصر، اردن اور خطے کے دیگر ممالک سے غزہ کے 22 لاکھ پناہ گزینوں کو قبول کرنے کی درخواست کی تھی لیکن اب تک ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ مصر، اردن اور مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک جانتے ہیں کہ اس خطے میں طاقتور اسرائیل ان کے تمام مستقبل کے لیے خطرہ ہے۔ یہ منظر نامہ اب تک ناکام رہا ہے اور ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں بھی ان کی کوشش کارآمد ثابت نہ ہو۔
مصر کے سیسی، اردن کے عبداللہ، سعودی عرب کے سلمان اور قطر کے امیر سبھی نے غزہ کی نقل مکانی کے منصوبے کو مسترد کر دیا ہے۔ اس کی وجہ سے بلینکن کا دورہ زیادہ کامیاب نہیں رہا۔
2۔ اسرائیل غزہ کے باشندوں کو شمال سے جنوب کی طرف ہجرت پر مجبور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ 2014 کی جنگ کا تجربہ دہرانا چاہتا ہے جس وہ وہ شمالی غزہ میں داخل ہوا، 2000 عام فلسطینیوں کو شہید کیا اور اس کے 66 فوجی ہلاک ہوئے۔ نتن یاہو کا خیال ہے کہ اس طرح وہ عالمی برادری اور یہودیوں کی قانونی حیثیت حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ منظر نامہ عملی منظرناموں میں سے ایک ہو سکتا ہے لیکن درج ذیل نکات کی وجہ سے نتائج غیر متوقع ہیں:
امریکیوں نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ ہم نے 11 ستمبر کے بعد افغانستان اور عراق میں طویل جنگیں لڑیں لیکن یہ بہت بڑی غلطی تھی۔ اگر اسرائیل غزہ میں داخل ہونے کی غلطی کرتا ہے تو اس سے فائدہ سے زیادہ نقصان ہوسکتا ہے۔
حماس کی نئی کارروائیوں نے اسرائیل کے سیکورٹی ریڈار کو چیلنج دیا ہے، اس کے پاس غزہ میں دستیاب وسائل کا صحیح ادراک نہیں ہے۔ حماس بھی ایک طویل جنگ کی تیاری کر رہی ہے اور اپنے نئے وسائل کی ویڈیوز بھی نشر کر رہی ہے۔ ایسی صورت حال میں اسرائیل کے لیے غزہ پر حملہ کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ ایران اور خطے کی دیگر تنظیموں نے اسرائیل کو بارہا خبردار کیا ہے۔ اسرائیل یہ بھی جانتا ہے کہ خطے کے کچھ کھلاڑی اسے بلاواسطہ اور بلاواسطہ طویل المدتی اور نہ ختم ہونے والی جنگ میں شامل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ امریکہ اسرائیل کو یہ بھی مشورہ دیتا ہے کہ وہ افغانستان اور عراق میں اس کے تجربات نہ دہرائے۔
اگر اسرائیل اس منظرنامہ پر کام کر رہا ہے تو اسے مندرجہ بالا نکات کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ ان حالات میں اس بات کا امکان ہے کہ جنگ مشرق وسطیٰ تک پھیل جائے لیکن یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ امریکی کسی قیمت پر نہیں چاہتے، کیونکہ امریکی سمجھتے ہیں کہ اگر ہم مشرق وسطیٰ میں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان طویل المدتی تنازعے میں الجھ گئے تو روس اور چین کے معاملات پیچھے رہ جائیں گے۔ ان کے لیے یوکرین اور بحیرہ جنوبی چین مشرق وسطیٰ سے زیادہ تزویراتی طور پر اہم ہیں۔
3۔ ایک اور آپشن یہ ہے کہ اسرائیل غزہ پر بمباری جاری رکھے جب تک کہ وہ غزہ کے اندر یا باہر حماس کے کچھ رہنماؤں کو نشانہ نہ بنائے۔ اس طرح نتن یاہو اپنے دوستوں اور یہودیوں کو بدلہ لینے کا اطمینان دے سکتا ہے۔
مذکورہ بالا تمام آپشنز اسرائیل کے لیے قابل عمل حکمت عملی ہیں، لیکن ہر ایک میں متعدد چیلنجز ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے غزہ کے عام لوگوں پر بمباری کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ طاقت کا توازن ایسا ہے کہ اس کے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے اور جو کچھ اس کے پاس ہے اس پر عمل درآمد کرنا بہت مشکل ہے۔
مغربی دنیا نے اسرائیل کو بچوں، عورتوں اور نوجوانوں کو مارنے، ہسپتالوں پر بمباری کرنے، لوگوں کو خوراک، بجلی اور پانی سے محروم کرنے کے لئے کھلی چھوٹ دی ہے۔ اسرائیل کے پاس انسانیت کے خلاف ان گھناونے جرائم اور منظم نسل کشی کے علاوہ کوئی آسان آپشن نہیں ہے۔
اسرائیل کی صیہونی حکومت اور تحریک آزادی حماس نے بیک وقت اعلان کیا ہے کہ جاری جنگ کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن بدل جائے گا۔ طاقت کے اس توازن کا فلسطینی کاز کے مستقبل پر بڑا اثر پڑے گا۔ وقت ثابت کرے گا کہ یہ توازن کس کے حق میں بدلتا ہے۔
یہ مضمون بغیر لیبل والا ہے۔
لید بند دی.