نام کاربری یا نشانی ایمیل
رمز عبور
مرا به خاطر بسپار
بسم الله الرحمن الرحیم الله أکبر الله أکبر، لا إله إلا الله والله أکبر، الله أکبر ولله الحمد الحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا من يهده الله فلا مضل له ومن يضللہ فلا هادي له وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله. صلوات الله و سلامه علیه و علی آله و أصحابه أجمعین. اما بعد: فقد قال الله عز وجل: ــ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ (1) فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ (2) إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الأَبْتَرُ (3) الکوثر ترجمہ: یقینا ہم نے آپ کو بہت سا خیر عطا کیا ہے، اس لیے تم خاص اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور (خاص اسی کے لیے) قربانی کرو۔ (نعمتوں کا شکر جاری رکھو یقینا تمھارا تذکرہ ختم نہیں ہوا بلکہ) تمھارا دشمن بے نام و نشان (مقطوعی الذکر اور مقطوع الخیر) ہے۔ (عزيز التفاسير جلد: ۱۳ ص: ۲۵۶) ــــ قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٦٢﴾ الانعام ترجمہ: کہہ دیجیے کہ یقینا میری نماز اور میری قربانی اور (بالآخر) میری زندگی اور میری موت خاص اللہ تعالی جل جلالہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ (عزيز التفاسير، جلد۴، ص: ۴۰۳). ــ وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ ۚ …….. وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوٓا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ [سُوۡرَةُ البَقَرَة : ۱۹۶] ترجمہ: اور حج اور عمرہ دونوں صرف اللہ تعالی جل جلالہ کی رضا کے لیے پورے کرو، اور اللہ تعالی سے ڈرو اور سمجھ جاو کہ بے شک اللہ تعالی جلا جلالہ کا عذاب بہت سخت ہے۔(عزیز التفاسیر). ــ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ : ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ أَقْرَنَيْنِ ذَبَحَهُمَا بِيَدِهِ وسَمّى وَكَبّرُ قال: رَأَيْتُهُ وَاضِعًا قَدَمَهُ عَلَى صِفَاحِهِمَا وَيَقُولُ بسم الله والله اکبر، متفق عليه. ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سینگوں والے کالے سفید مینڈوں کی قربانی کی، انہیں اپنے دست مبارک سے ذبح کیا اور تسمیہ اور تکبیر پڑھی۔ حضرت انس رضی الله تعالی عنہ نے فرمایا کہ میں نے دیکھا انہوں نے ان کے پہلو یا گردن پر پاؤں رکھی تھی اور پڑھ رہے تھے بسم اللہ واللہ اکبر ــ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « مَا عَمِلَ آدَمِىٌّ مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ النَّحْرِ أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ مِنْ إِهْرَاقِ الدَّمِ إِنَّهَا لَتَأْتِى يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقُرُونِهَا وَأَشْعَارِهَا وَأَظْلاَفِهَا وَإِنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللَّهِ بِمَكَانٍ قَبْلَ أَنْ يَقَعَ مِنَ الأَرْضِ فَطِيبُوا بِهَا نَفْسًا» رواه الترمذی و ابن ماجه ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان کا کوئی عمل یوم النحر(قربانی کے دن) اللہ تعالی کو خون بہانے (قربانی کرنے ) سے زیادہ محبوب نہیں۔ وہ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، اون اور کھروں کے ساتھ آئے گا۔ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ذبح کے وقت اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوجاتا ہے اس لیے اس کے ذریعے(قربانی کرکے) خوشی حاصل کرو۔
افغانستان کے مجاہد عوام اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے نام السلام علیکم ورحمت الله وبرکاتہ !
سب سے پہلے آپ کو عید الاضحیٰ کی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالی آپ کی قربانی، صدقات، حج، اسلام کی راہ میں خدمات اور تمام اعمال حسنہ قبول فرمائے۔ آمین یارب العالمین۔ امید ہے ہمارے عید کے مبارک ایام خوشی سے گذریں گے اور ہم عید کی نماز، قربانی، حج اور دیگر تمام عبادات احسن طریقے سے ادا کریں گے۔ عیدالاضحیٰ کے مبارک دنوں میں ایک جانب قربانی کا فریضہ ادا کیا جاتا ہے تودوسری جانب حرمین شریفین میں دنیا کے مختلف ممالک سے میلینوں مسلمان اس میں حج کا مبارک فریضہ ادا کرتے ہیں۔ یہ عبادت، اخوت اور قربانی کے وہ دن ہیں جو اہل اسلام کو اتحاد اور ہمدردی کی دعوت دیتے ہیں اور اللہ تعالی کی رضا کے لیے قربانی اور ایثار کا احساس دلاتے ہیں۔ چونکہ عبادت اور قربانی کے یہ ایام ہمارے عوام پر ایسے حالات میں آرہے ہیں کہ ہمارا ملک اسلامی نظام اور مکمل امن و امان سے بہرہ ور ہے۔ ہمارے ہم وطنوں کو اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے تاکہ مزید اللہ تعالی کے انعامات کے مستحق ٹھہریں۔ للہ الحمد، امارت اسلامیہ کی حاکمیت کے ساتھ اسلامی نظام پھر سے قائم ہوچکا ہے۔ مقدس اسلامی شریعت کا اعلان اور نفاذ ہوچکا ہے۔ دینی شعائر کی سربلندی اور دینی مراکز کی وسعت اور مضبوطی کے لیے اہم اقدامات ہوچکے ہیں۔ قانون سازی، حکومت داری، قضاء، معیشت، ثقافت اور زندگی کے دیگر میدانوں میں دینی اصلاحات جاری ہیں۔ یہ وہ تمام تراہداف و اقدار ہیں جن کے حصول کے لیے ہمارے مؤمن عوام نے طویل مزاحمتیں کی ہیں اور بڑی قربانیاں دی ہیں۔ قومی سطح پر افغانستان کا استقلال اور خودمختاری ایک بارپھر محفوظ ہوگئی ہے۔ اسلامی اخوت اور قومی وحدت مضبوط ہوگئی ہے۔ قوم، زبان اور علاقے کے نام پر ہر طرح کی تعصبات ختم ہوچکے ہیں۔ ملک کی سرحدیں محفوظ ہوگئی ہیں اور ملک کے تمام سرحدات کی مضبوطی سے حفاظت کی جاتی ہے۔ قومی سرمایہ جیسے کسٹمز ٹیکسز اور دیگر مالیاتی آمدنی، معدینیات، سرکاری زمینیں، جنگلات اور دیگر املاک جو قوم کا مشترکہ سرمایہ ہیں طاقتور لوگوں کے قبضے سے واگزار کرواکر بیت المال کے املاک کے طورپر محفوظ کردی گئی ہیں۔ امارت اسلامیہ کی حاکمیت کے بعد خواتین کا زبردستی نکاح اور دشمنی کے عوض ان کے رشتے دیے جانے سمیت دیگر بہت سے ظالمانہ رسومات سے ان کی حفاظت کے لیے لازمی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ ان کے تمام شرعی حقوق محفوظ کردیے گئے ہیں۔ معاشرے کی نصف آبادی کی حیثیت سے خواتین کی اصلاح، حجاب، عفت اور انہیں غیر مخلوط ماحول کی فراہمی کے لیے اہم اقدامات کیے گئے ہیں۔ خواتین کی بے حجابی اور گمراہی سے متعلق بیس سالہ جارحیت کے منفی اثرات ختم ہونے کو ہیں۔ خواتین کے حقوق کے متعلق چھ مادوں پر مشتمل فرمان کے اجرا سے ایک آزاد اور باعزت انسان کی حیثیت سے خواتین کودوبارہ مقام دیا گیا ہے۔ نکاح، میراث اور دیگر حقوق کے تحفظ کے لیے پوری انتظامیہ کو خواتین سے تعاون کا حکم دیا گیا ہے۔ شرعی عدالتوں کی فعالی سے شریعت ایک بارپھر عملی طورپر نافذ ہوچکا ہے۔ وہ دینی احکام اور شرعی اوامر، حدود اور قصاص جس کے عملی اجرا کے امکانات نہ تھے للہ الحمد اب ان کا اجرا ہوتا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اسی طرح امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا بڑا فریضہ عملا سرانجام دیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے اسلامی اصولوں کے مطابق اعتدال، مصلحت اور شفقت کے اصولوں کے مطابق معاشرے کی اصلاح کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ جس سے معاشرے میں دن بہ دن اصلاح بڑھ رہی ہے اور منکرات ختم ہونے کو ہیں۔ اقتصادی حوالے سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ اندازے جس میں یہاں اقتصادی سقوط اور مکمل بحران کی پیش گوئی جارہی تھی اللہ تعالی کے فضل سے غلط ثابت ہوچکے ہیں۔ اپنے قریبی تاریخ میں پہلی بار ملک اقتصادی لحاظ سے خود کفیل ہوا ہے اور تعمیر نو، زراعت، آب پاشی، سڑکوں کی تعمیر، معدینیات کے اخراج اور دیگر شعبوں میں اہم اقدامات شروع کردیے گئے ہیں اور سب زیر عمل ہیں۔ امارت اسلامیہ اقتصادی حوالے سے مزید ترقی اور ملک کے اقتصادی مسائل کے خاتمے کے لیے تمام سرمایہ کاروں اور قوم تاجروں کو دعوت دیتی ہے کہ مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرکے ملکی تعمیر و ترقی کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔ امارت اسلامیہ ان کے تحفظ اور تمام حقوق کی ادا ئیگی کے لیے پر عزم ہے۔ تمام سرکاری اداروں پر ذمہ داری عائد کردی گئی ہے کہ ملکی خوشحالی اور اقتصادی ترقی کے لیے سرمایہ کاروں کو ضروری سہولیات فراہم کریں۔ چونکہ ہمارے ہاں کئی عشروں سے مسلسل جنگیں رہی ہیں اور لاکھوں یتیم بچے، بیوائیں اور بے سہارا لوگ ہمیں میراث میں ملے ہیں۔امارت اسلامیہ ان کے حقوق کے تحفظ اور تعاون کے لیے مضبوط عزم رکھتی ہے۔ اسی طرح اہل خیر صاحب حیثیت شہریوں خصوصا یتیموں اور بے سہارا بچوں کے رشتہ داروں کو دعوت دیتے ہیں کہ ان کونہ بھولیں۔ ان کی پرورش، تربیت اور تعاون پر پوری توجہ دیں۔ چونکہ پورے ملک میں مکمل امن و امان قائم ہوچکا ہے، اسلامی نظام حاکم ہوچکا ہے، اس لیے معاشرے میں وہ لوگ جو لوگوں کے امن کے لیے خطرہ بنیں، ان سے مطالبہ یہ ہے کہ اب مزید اپنے ملک میں اپنے ہم وطنوں کے ساتھ پرسکون زندگی گذاریں، پائیدار امن کے قیام میں امارت اسلامیہ سے تعاون کریں ۔ غیروں کے مفادات کے لیے اپنے ملک میں موجود امن و امان تباہ نہ کریں۔ گداگر افراد کو گداگری سے روکنے کے لیے قابل ذکر اقدامات کیے گئے ہیں۔ ہزاروں ایسے گداگر جو تحقیق کے بعد حقیقی ضرورت مند ثابت ہوئے ہیں انہیں امارت اسلامیہ کی جانب سے وظیفہ جاری کردیا گیا ہے۔ مگر پیشہ وراور غیر مستحق گداگروں کو روکنے کے لیے علما کرام، مساجد کے ائمہ اور دیگر مؤثر لوگوں کے تعاون کی ضرورت ہے۔ گداگری کی برائی اور کسب معاش کی ترغیب کے لیے مذکورہ لوگوں کو بروئے کار آنا چاہیے۔ امارت اسلامیہ کے تعمیری اور مفید اقدامات کی برکت سے منشیات کی کاشت تقریبا صفر ہوچکی ہے۔ شریف شہریوں نے اسلامی تعلیمات کے مطابق عالمی اداروں سے کسی قسم کی لالچ یا ان کی امداد کے بغیر متبادل معاشی اقدامات پر توجہ دی ہے۔ اور اس کے مثبت نتائج دن بدن سامنے آرہے ہیں۔ اسی طرح ہر طرح کی منشیات کی درآمد، اس کی پیداوار اور استعمال پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ جس سے الحمد للہ بڑے پیمانے پر شہری خصوصا نوجوان نسل اس کے نقصان سے محفوظ ہے۔ امارت اسلامیہ کے بہت سے متعلقہ ادارے ان شہریوں کے علاج کے لیے بروئے کار ہیں جو جارحیت کے گذشتہ بیس سالہ دور میں منشیات کے عادی ہوچکے تھے۔ ان لوگوں کی صحت، تفہیم اور معمول کی زندگی کی جانب ان کے لوٹانے کی کوششیں منظم طریقے سے جاری ہیں۔ بیس سالہ جارحیت کے دور میں افغان مومن عوام کے بہت سے حقوق تلف کیے گئے ہیں اور بیت المال کے سرمایے پر طاقت ور لوگوں کا قبضہ رہاہے۔ اس لیے امارت اسلامیہ نے ان نقصانات کی ادائیگی اور مغصوبہ زمینوں کی واگزاری کے لیے کمیشن مقرر کردیا ہے۔ جس نے اب تک سینکڑوں ایکڑ مغصوبہ زمین واگزار کروالی ہے۔ ظلم اور قبضے کا خاتمہ ہر مسلمان کا شرعی فریضہ ہے اس لیے ہر شہری کو ہدایت دیتا ہوں کہ مغصوبہ زمینوں کے واگزاری کمشین سے تعاون کریں۔ تاکہ عام لوگوں اور بیت المال کی مغصوبہ زمینیں قبضہ سے آزاد اور اصل حقدار تک پہنچ جائیں۔ امارت اسلامیہ پوری دنیا خصوصا اسلامی ممالک کے ساتھ تعمیری سیاسی اور اقتصادی تعلقات چاہتی ہے اور اس حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری کرچکی ہے۔ جس طرح ہم دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے اسی طرح دوسرے لوگوں کو بھی اجازت نہیں دیتے کہ کسی بھی بہانے اور عنوان سے ہمارے داخلی معاملات مداخلت کریں یا ہمیں ہدایت دیں۔ امارت اسلامیہ کے ذمہ داران کو ہدایت دی جاتی ہے کہ حکومت داری کے تمام شعبوں میں مومن عوام کی خدمت، حفاظت اورخوشحالی کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری تندہی سے ادا کریں۔ اپنے دروازے عوام کے لیے کھولیں۔ ان کے کام احسن طریقے سے فوری طور پر کرکے دیے جائیں۔ عام آدمی سے کبھی ایسا رویہ نہ رکھیں کہ وہ اپنے آپ کو حکام سے کم تر یا غیر محسوس کرنے لگیں۔ یہ وہی عوام ہیں جنہوں نے بیس سالہ جہاد کے دور میں اپنی جان، مال، گھر اور بچے مجاہدین کے لیے قربان کیے اور ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار رہے۔ اب یہ سرکاری حکام کا امتحان ہے کہ ان سے کیسا رویہ رکھتے ہیں؟ سیکیورٹی ذمہ داران کو میری ہدایت ہے کہ بالخصوص عید کے دنوں میں اپنے عوام کے سکون، خدمت اور تحفظ پر پوری توجہ دیں۔ اپنے شہریوں کی خوشحالی اور سکون کے لیے تمام لازمی اقدامات اٹھائیں۔ شہدا، معذوروں اور یتیموں کے خاندانوں کی خبر گیری کریں اور اپنی بساط کے مطابق ان کی مدد کریں۔
ہمارے مومن ہم وطنو! ہماری اور آپ کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ اپنے اسلامی نظام کا تحفظ، پرورش اور خدمت کریں۔ یہ نظام ہزاروں شہدا کے خون کی قیمت اور مجاہد عوام کی شدید محنت اور قربانیوں سے قائم ہوا ہے۔ آئیے اس کی حفاظت کے لیے ہم سب متفق ہوکر ہمت کریں۔ بھائیوں کی طرح ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوں۔ دشمنوں کی تمام سازشیں ناکام بنائیں۔ امن و امان، خوشحالی، آبادی اور عوامی خدمت کی قدر کریں اور ان کی مزید مضبوطی کے لیے بروئے کار آجائیں۔ مقام شکر ہے کہ ہمارے ملک سے ہزاروں حجاج کرام حج کے عظیم فریضے کی ادائیگی کے لیے بیت اللہ شریف گئے ہیں۔ امارت اسلامیہ کے حکام کی جانب سے پورے اہتمام کے ساتھ ان کی خدمت کی جارہی ہے اور انہیں تمام لازمی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ حرمین شریفین میں دنیا بھر کے کونے کونے سے آئے ہوئے حجاج کرام سے میری درخواست ہے کہ پوری امت مسلمہ خصوصا افغانستان کے اذیت رسید عوام کے لیے دعائیں کریں کہ اللہ تعالی انہیں دنیوی اور اخروی سعادت سے نوازے۔ ہم فلسطین کے خواتین، بچوں اور عام نہتے مسلمانوں پر اسرائیلی مظالم کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور دیگر ممالک سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ اس بڑے انسانی جرم اور وحشیانہ مظالم کی روک تھام کے لیے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔ اسلامی ملک سوڈان کے عوام اور حکومت سے ہمارا مطالبہ ہے کہ اپنے اندرونی اختلافات اور جنگیں ترک کردیں۔ اتحاد و یگانگت اور بھائی چارے کے لیے مل کر کام کریں۔ بلکہ مجموعی طور پر امت مسلمہ کے تمام مسائل اور پریشانیوں کا حل ان کے اتحاد و اتفاق میں ہے۔ اس بڑے مقصد کے حصول کے لیے ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ اس کا ادراک کرے اور پورے خلوص اور احساس سے اسے ادا کرے۔ تاکہ مفاد پرست حلقوں کی تفرقہ ڈالنے کی کوششیں ناکام ہوں اور مسلمان عوام اسلامی اخوت اور اتفاق کی نعمت سے بہرہ مند ہوں۔ آخر میں ایک بار پھر مومن عوام کو عید الاضحیٰ کی مبارک باد دیتا ہوں۔ اللہ کرے ہمیشہ ہم اپنی عید اسی طرح مکمل آزادی اور اسلامی نظام کے سائے میں منائیں۔ والسلام
(امیرالمؤمنین شیخ القرآن والحدیث مولوی) هبۃ الله اخندزاده ۷/۱۲/۱۴۴۴ ھ ــ 2023/6/25ء
یہ مضمون بغیر لیبل والا ہے۔
دیدگاهها بسته است.