نام کاربری یا نشانی ایمیل
رمز عبور
مرا به خاطر بسپار
محمد افغان
دنیا میں آزادیِ اظہار رائے بارے پایا جانے والا یہ تصور کہ مغرب اس حوالے سے وسیع الظرف ہے اور اسلام تنگ دامن ہے۔ اس نکتۂ نظر کو صرف مغرب کے ساتھ ہی نتھی کر کے خاموش نہیں رہا جا سکتا۔ درحقیقت یہ اسلام و مغرب کی جنگ نہیں ہے، بلکہ یہ اسلام و کفر کا معرکہ ہے۔ ظاہری طور پر چوں کہ یورپ اور اُس سے بھی خاص امریکا تمام عالمِ کفر کا باپ بن کر کفریہ نظام کی سربراہی کر رہا ہے، اس لیے اسلام کو دبانے یا کفر کی برتری ثابت کرنے کے لیے مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں جو بھی مذموم ہتھ کنڈے اختیار کیے جاتے ہیں، اُن کی کسی نہ کسی درجے میں نسبت بطور ‘چوہدری صاحب’ امریکا کی طرف چلی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آزادیِ اظہار رائے کو اسلام و کفر کی شورش کے بجائے اِسے اسلام و مغرب کی کشمکش بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ درحقیقت ‘اسلام و مغرب کی کشمکش’ کی اصطلاح بھی اس لیے استعمال کی جاتی ہے، تاکہ دنیا پر اپنا “کافرانہ تسلط” جمائے رکھنے کے لیے مغرب کو ‘اسلام دشمنی کے لقب یا طعنے’ سے محفوظ فضا میسر رہے۔دنیا یہ باور کرتی رہے کہ مغرب اپنی اسلام مخالف سرگرمیاں بطور کافر نہیں، بلکہ بطور روادار اور ترقی کے محافظ جاری کرتا ہے۔ اِسی نکتۂ نظر کے حوالے سے سادہ لوح لوگوں کی ذہن سازی کی جاتی اور مغربی عالمِ کفر کو عالمِ اسلام کا ہمدرد بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ جب کہ دوسری طرف اگر یورپ و امریکا کے کافر سیاست دانوں کی طرف سے مسلمانوں بارے کوئی منفی رائے ظاہر کی جائے تو وہ اپنی رائے کو ‘مشرقی عوام’ کے الفاظ استعمال کرنے کے بجائے اسے لفظِ ‘اسلام’ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کی مثال 2016 میں امریکا میں ہونے والے وہ انتخابات ہیں، جن میں صدارتی امیدوار ڈونلڈٹرمپ نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا: ‘اسلام ہم سے نفرت کرتا ہے۔’ ڈونلڈٹرمپ نے امریکی ریاست میامی میں ہونے والے ایک صدارتی مباحثے میں اپنا موقف واضح کرتے ہوئے کہا تھا: اسلام میں ہمارے بارے شدید نفرت پائی جاتی ہے، جب کہ مَیں اپنے الفاظ پر قائم ہوں۔’ ہم اس مثال میں دیکھ سکتے ہیں کہ مغرب میں خصوصاً سیاست دانوں کا طبقہ ہمیشہ اپنے مفادات کے لیے اسلام کو ایک خوف ناک مذہب کے تصوّر کے ساتھ اپنے عوام میں پیش کرتے اور اُن کی اسلام مخالف ذہن سازی کرتے ہیں۔ مغربی سیاست دانوں کی طرف سے اسلام بارے منفی صورت کَشی اگرچہ سیاسی مفادات اور ووٹ حاصل کرنے کی ایک گھناؤنی ترکیب ہے، مگر اس حقیقت سے قطع نظر نہیں کیا جا سکتا کہ اسلام بارے منفی صورت گری کے پسِ پردہ اُن کے تحریف شدہ مذاہب کے اثرانگیز عقائد بہرحال موجود ہیں، جو نفرت اور جنگ و جدل کا باعث ہیں۔ اِنہی مذہبی عقائد کے تناظر میں صدر اوباما نے اپنے دورِحکومت میں 13 اگست 2010ء کو رمضان المبارک کی ایک افطار پارٹی میں مسلمان سامعین سے بات کرتے ہوئے کہا تھا: وائٹ ہاؤس کئی برس سے کرسمس، سیڈرز اور دیوالی سمیت رمضان کی افطار پارٹیوں کی میزبانی کر رہا ہے۔ یہ تقریبات امریکی عوام میں مذہبی ہم آہنگی سمیت مذہب کے کردار کی اہمیت اُجاگر کرتی اور ہمیں اللہ کی مخلوق ہونے کی یاددہانی کراتی ہیں۔ جب کہ ہم سب کو اپنے “عقائد سے توانائی” اور زندگی کے بامقصد ہونے کا احساس ملتا ہے۔ صدر اوباما نے اپنے مخصوص عقائد اور اپنے سیاسی تسلط کے تناظر میں یہ بات بھی کہی تھی کہ: “ہمیں اُن لوگوں کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے، جنہیں ہم نے نائین الیون کو ایک الم ناک انداز میں کھو دیا ہے۔ ہمیں ہمیشہ ان کا احترام کرنا چاہیے، جو اس حملے کے ردعمل میں سب سے پہلے آگے بڑھے ۔ ان فائر فائیٹرز سے لے کر جو دھوئیں سے بھری سیڑھیاں چڑھے۔ ان فوجیوں کا بھی، جو آج افغانستان میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہم کس کے خلاف لڑ رہے ہیں اور ہماری لڑائی کا مقصد کیا ہے؟! ہمارے دشمن مذہبی آزادی کا بالکل احترام نہیں کرتے۔ یہ ہیں وہ لوگ، ہم جن کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ وہ دہشت گرد، جو انسانی جانوں اور انسانی آزادی کا بالکل احترام نہیں کرتے ۔ صدر اوباما نے اپنی بات میں مذہبی عقائد کی طاقت کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا: “ہم یہ جنگ صرف اپنے ہتھیاروں کے بل پر نہیں، بلکہ اپنی جمہوری طاقت اور اقدار (یعنی مذہبی عقائد) کی طاقت سے جیتیں گے، جس کے ہم علَم بردار ہیں۔” صدر اوباما اور ڈونلڈٹرمپ کے بیانات نے یہ واضح کر دیا ہے کہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان جاری جنگ صرف سیاسی مفادات اور ووٹ حاصل کرنے کی گھناؤنی ترکیب تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ واضح اور دوٹوک انداز میں مختلف ادیان کے ماننے والوں کے درمیان ایک ایسی مذہبی جنگ ہے، جس کےپسِ پردہ اثرانگیز عقائد کارفرما ہیں۔ البتہ یہ الگ موضوع ہے کہ اسلام کے علاوہ کسی بھی دین کے پاس وہ مطلوبہ عقائد موجود نہیں ہیں، جو دنیا میں امن و سلامتی کے ضامن ہیں۔ یہی وجہ ہے فلسطینی قضیے سے متعلق مختلف ممالک میں چلنے والے آزادیِ فلسطین کی احتجاجی تحاریک اگرچہ بظاہر آزادیِ اظہار رائے اور انسانیت کے نام سے پنپ رہی ہیں، جن میں مسلمانوں سمیت اعتدال پسند عیسائی اور مختلف مذاہب کےپیروکاروں سمیت حتی کہ یہودی بھی شامل ہیں، مگر ان تحریکوں کو دبانے یا ان میں شامل مظاہرین کو گرفتار کرنے کے پسِ پردہ شدت پسندانہ اور منافرانہ وہ عیسائی اور یہودی نظریات و عقائد ہیں، جو اسرائیل کو حفاظت و حمایت بہم پہنچا رہے ہیں۔ ایک مرتبہ بی بی سی اردو نے اپنی مخصوص ذہنیت کے پسِ پردہ اسلام کے مقابلے میں عیسائی یا یہودی وغیرہ کے بجائے مغرب کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے “اسلام اور مغرب” کے عنوان سے پول منعقد کیا، جس میں نائن الیون کے تناظر میں لوگ امریکا بارے اپنی رائے کا اظہار کریں۔ بی بی سی نے لکھا تھا: بہت سے مسلمان ‘دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ’ کو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف جنگ سمجھتے ہیں۔ پوری اسلامی دنیا سے شدت پسند (مجاہدین) اسے اپنی بقا کی جنگ قرار دیتے ہوئے متحد ہو رہے ہیں، جب کہ دوسری جانب مغرب (عالمِ کفر) عمومی طور پر اور امریکا بالخصوص مسلمانوں کو دہشت گرد تک قرار دیتے نظر آتے ہیں۔ کچھ اسکالرز نے پیشین گوئی کی تھی کہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ تہذیبوں کے تصادم میں بدل جائے گی۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مغرب (عالمِ کفر) کی یہ کوششیں ہماری دنیا کو ایک زیادہ محفوظ جگہ بنائیں گی یا یہ جنگ اسلام میں زیادہ شدت پسند عناصر کے ہاتھ مضبوط کر کے (ٹیکنالوجی کی) ترقی پسند قوتوں کو کمزور کرنے کا سبب بنے گی؟ جس پر کابل کی ایک صارف ‘نورالصفیٰ’ نے متکبرانہ امریکی لہجے پر تنقید کرتے ہوئے لکھا تھا؛ “کسی کا مسلمان ہونا ہی دہشت گرد کہلانے کے لیے کافی ہے۔ امریکا اور اس کے حلیفوں کے پاس افغانستان اور عراق پر حملہ کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں تھا۔ ان کے پاس طاقت ہے اور وہ ثبوت کا انتظار نہیں کر سکتے۔” جب کہ امریکی ریاست ہیوسٹن میں رہائش پذیر ایک شہری ‘میاں شمس’ نے لکھا تھا: “سچی بات تو یہ ہے کہ اسرائیل نے عیسائی دنیا کو اغوا کر لیا ہے، جس کے دفاع میں اب یہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔ لگتا ہے عیسائیوں نے صدیوں تک یہودیوں پر جو ظلم و ستم ڈھائے ہیں، وہ اس کی ندامت سے چھٹکارا پانے کے لیے یہود کو مسلمانوں پر ہر ظلم ڈھانے کی اجازت دینے کو تیار ہیں۔” یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی مجاہد یا کم درجے میں کوئی کمزور ترین عمل والا مسلمان بھی اسلام کی سیاسی حمایت کرے تو وہ مغرب (یعنی کفر) کی نظر میں دہشت گرد اور ناقابلِ قبول ہے۔ حتی کہ بجائے خود اگر کوئی کافر بھی اسلام نہیں، بلکہ انسانیت کے ناطے کسی مسلمان کی سیاسی تناظر میں ہی مدد کر دے تو وہ بھی کفر کو برداشت نہیں ہے۔ بالکل اسی سبب فلسطن کے معاملے نے عیسائی دنیا کے یہود کے ہاتھوں اغوا کو طشت ازبام کر کے اُس مغربی جمہوریت کا مکروہ چہرہ عیاں کر دیا ہے، جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کو “فریڈم آف ایکسپریشن” قرار دینے والا مغرب اپنے ہی شہریوں، بلکہ خواتین اور اساتذہ پر اس لیے تشدد کر کے اُنہیں جیلوں میں قید کر رہا ہے کہ وہ فلسطینیوں پر صہیونی ظلم کے خلاف آواز کیوں اٹھا رہے ہیں؟
یہ مضمون بغیر لیبل والا ہے۔
دیدگاهها بسته است.