نام کاربری یا نشانی ایمیل
رمز عبور
مرا به خاطر بسپار
کابل ڈائری
یہ مرثیہ ایک ایسے غم کی حکایت ہے، جس نے غزہ کا چپہ چپہ چیختے سکوت اور ہولناک ویرانی میں بدل دیا ہے۔ وہاں کی غم ناک آوازیں، چِلّاتی سِکّیاں اور پسِ آنسوؤں سے تر آہ و زاریاں آج پوری انسانیت کو جگانے میں ناکام ہیں۔ درحقیقت بجائے خود انسانیت غزہ کی حالت دیکھنے کے باوجود جاگنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ جس کا معنی یہ ہے کہ اس نام نہاد انسانیت میں زندگی نام کی کوئی رمق باقی نہیں رہی۔
وہ آگ جو غزہ کو بھسم کر گئی، کبھی وہ مکڑی کے جالے جیسی تھی، مگر مسلمانوں کی بے حسی کی وجہ سے آج وہ ایک نا ختم ہونے والے لاوے میں بدل چکی ہے۔جو فلسطین سمیت ہر مسلمان کا دل جلائے دے رہی ہے۔
اسرائیل نے حماس کے خاتمے کے نام پر ایک پوری بستی کو ‘تھِن آؤٹ’ کر کے ویران اور ملبے سے اَٹی ہوئی زمین میں تبدیل کر دیا ہے۔ غزہ کی شمالی پٹی … بیت لاهیا، بیت حانون اور جبالیا… وہ شہر جو کبھی آبادیاں تھے، آج ان کی جگہ مٹی، دھواں اور خون و انسانی گوشت کے لوتھڑوں سے بھرا ہوا میدان ہیں۔ یہ ایک ایسا منظرنامہ ہے، جو انسانیت کو دہلائے دیتا ہے۔ 30 فیصد پناہ گزین کیمپوں پر قبضے کے بعد انہیں ناقابل رہائش بنانے کی جو یہودی منصوبہ بندی تھی، وہ اب روزنامہ حقیقت بن چکی ہے۔
اس منظم تباہی کا مقصد فلسطینیوں کو اُن کے علاقے سے بے دخل کرنا اور ان کی نسل کشی کرنا ہے۔ صہیونی افواج نے اپنے ‘جنرلز پلان’ کے تحت شمالی پٹی کو خالی کرانے کے ساتھ مستقبل کی یہودی بستوں کا ڈھانچہ ڈالنے کے لیے وسیع تیاریاں کر رکھی ہیں۔ یہ کوئی عارضی حکمت عملی نہیں، یہ ایک طویل المدت منصوبہ ہے۔ اس کا مقصد غزہ کو ایک ایسا قصبہ بنانا ہے، جسے واپس بسایا نہ جا سکے اور وہاں کا اصل رہائشی اور مالک تشدد اور تباہی کی آگ میں جل رہا ہو۔
یہ نقل مکانی صرف غزہ تک محدود نہیں رہی، بلکہ پورے علاقے کو ایک ایسی زمین میں تبدیل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے، جو قابض طاقت کے لیے سازگار ہو۔ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال کر صحراؤں میں بے یار و مددگار چھوڑ دینا کسی عارضی حل کی کوشش نہیں، بلکہ ایک مستقل حکمت عملی ہے۔ یہ خواب نہیں، بلکہ ایک خوف ناک حقیقت ہے، جس کا مقصد فلسطینیوں کو اپنی زمین سے محروم کرنا ہے۔
غزہ کے علاوہ مغربی کنارے میں بھی ظلم اور جبر کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے۔ وہاں رہائشی علاقوں پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ زمینوں کو ضبط کیا جا رہا ہے۔ لوگوں کو زبردستی ان کے گھروں سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ ایک منظم منصوبے کا حصہ ہے، جو پورے علاقے میں فلسطینیوں کی موجودگی کو ختم کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔
یہ ایک ایسا منصوبہ ہے، جس کا مقصد نہ صرف آج… بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی غزہ کو وجود سے مٹا دینا ہے۔ سرحدوں کے اندر ہونے والے واقعات ایک منظم منصوبے کا حصہ ہیں، جسے ہم ‘آہستہ آہستہ استعمار’ کہہ سکتے ہیں۔
یہ مرثیہ ان کھوئی ہوئی کلیوں کا ہے، ان ننھے بچوں کا ہے، جنہوں نے سرجیکل حملوں میں اپنی زندگی کھو دی۔ یہ دِل کچلنے والی کہانی ان ماؤں کی ہے، جنہوں نے اپنے جیون ساتھیوں کے چہرے کا خون اپنے دامن سے صاف کیا ہے۔
جب سب کچھ فنا ہو جائے، تب بھی با ضمیر انسان کا جذبہ مرتا نہیں۔ یہ مرثیہ نہ صرف غم ہے، بلکہ زندہ ضمیروں کے لیے بیداری کا پیغام بھی ہے۔ اگر آج ہم نے آواز نہ اٹھائی… اگر آج ہم سچی انسانیت کی جانب متوجہ نہ ہوئے تو کل ہمیں تاریخ کو جواب دینا ہوگا۔ یہ وقت ہے ہاتھ بڑھانے کا… آگے آنے کا… زخموں پر مرہم رکھنے کا… اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا…
ہم سب پر ایک فریضہ ہے۔ اسکول جانے کے منتظر بچوں کی تباہ ہوتی مسکان… ماؤں کی آنسو بھری آنکھیں… بوڑھوں کے لاغر جسم… اِن زندگیوں کو نظر انداز کرنا انسانیت کی کمزوری ہوگی۔ یہ ظلم صرف وہاں نہیں، یہ ہر اس دل کی خاموشی کو جھنجھوڑ رہا ہے، جو درد سے بے آشنائی اختیار کیے ہوئے ہو۔
آئیں! اس مرثیے کو مایوسی نہ بننے دیں، بلکہ یہ ہمارے لیے تحریک ہو۔ غزہ کے ملبے کے نیچے دفن امید کو بچائیں۔ اپنی آواز بلند کریں۔ ظلم کے خلاف احتجاج کریں۔ حق کے دفاع میں آگے بڑھیں۔ آج غزہ کا درد ہماری زبان پر نہ آیا تو کل ہماری تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
یہ مرثیہ ایک ضمیر کی گونج ہے، جو پکار رہا ہے کہ ‘غزہ کو ختم نہیں ہونے دینا۔ انسانیت کو خاموش نہیں ہونے دینا۔ بازو بڑھائیں، قلم اٹھائیں، علم پھیلائیں اور محبت کے سمندر میں ہلچل پیدا کرتے ظلم کے طوفان کا مقابلہ کریں۔ عالمی ضمیر جگائیں۔ انصاف کا پرچم لہرائیں… تاکہ موت کا یہ بجتا ڈھول بند ہو جائے اور غزہ کی زندگی اپنی حقیقت میں واپس آ جائے۔’
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاه بسته شده است.