نام کاربری یا نشانی ایمیل
رمز عبور
مرا به خاطر بسپار
تحریر: استاد فریدون
افغانستان کے وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند نے گذشتہ روز اپنے ایک پیغام پاکستان سے افغان مہاجرین کے انخلا کے حوالے سے ایک پیغام میں پاکستان کے علما ، عوام اور سیاسی جماعتوں کو الگ سے مخاطب کیا۔ انہوں نے کہا: ’’پاکستان کے مسلمان عوام، علماء کرام اور سیاسی جماعتوں نے افغان مہاجرین کے ساتھ اچھا وقت گزارا ہے اور ان پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ہے، اللہ تعالی اس کا اجر دے۔آپ کو معلوم ہے کہ اسلام نے ہمیں ایک دوسرے کا احترام کرنے کا درس دیا ہے، یہ بات ثابت ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے مسلمان عوام کے ساتھ اخوت کا رشتہ ماضی میں بھی قائم تھا، آج بھی قائم ہے اور آئندہ بھی قائم رہے گا، حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں، اچھی حکومت بھی قائم ہوتی ہے اور بری حکومت بھی کسی ملک میں قائم ہوتی ہے، لیکن عوام قیامت تک اپنی سرزمین پر رہیں گے کیونکہ خطہ تبدیل نہیں ہوتا، اللہ تعالی افغانستان اور پاکستان کے مسلمان عوام کو توفیق دے کہ وہ آپس میں قیامت تک اخوت اور محبت کی فضا میں زندگی گزاریں۔‘‘ پاکستان کے عوام کی افغان عوام سے محبت، افغانستان پر آنے والے مختلف مصائب میں افغانوں کی دست گیری، افغانستان کے مصائب پر عام پاکستانی شہری کی کڑھن اور غم یہ کوئی مخفی امر نہیں ہے۔ امارت اسلامیہ نے ہمیشہ محسوس کیا ہے کہ پاکستان کا عام شہری ہر مصیبت میں افغانستان اور افغانوں کے ساتھ کھڑا رہا۔ یہ بات آج کی نہیں ، پاکستان میں افغانستان کے سابق سفیر ملا عبدالسلام ضعیف نے اپنی کتاب My life with Talban میں اس حقیقت کا بہت کھل کر اعتراف کیا ہے۔ انہوں نے نائن الیون ، دوہزار ایک کےبعد پیدا ہونے والی صورت حال اور پھر افغانستان پر امریکی حملے تک پاکستان کی صورت حال کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس دوران جو بھی پاکستانی شہری ملا وہ غم سے نڈھال اور پریشان ملتا ، حتی کہ مجھے انہیں دلاسہ دینا پڑتا تھا ۔ پاکستان کے عوام کی افغانستان میں بیش بہا مالی و جانی قربانیاں ہیں۔ یہ قربانیاں پاکستانیوں کی ہی نہیں عربوں اور دیگر اقوام کی بھی ہیں۔ اور یہی وحدت کا تصور ہے جو شارع علیہ السلام نے اپنی امت کو دیا ہے۔ امت کی یہ وحدت رنگ وخوں، زبان و جغرافیہ سے ماورا کلمے کا تعلق ہے جس میں مشرق و مغرب کا ہر کلمہ گو پرویا ہوا ہے۔ افغانستان اور موجودہ ایام میں فلسطین کے مسلمانوں کی صورت حال پر دنیا بھر کے مسلمانوں کی کڑھن اسی تعلیم نبوی کا اثر ہے کہ انما المؤمنون اخوۃ۔ چودہ صدیاں گذرنے کے باجود بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ان کا دیا ہوا یہ درد نہیں بھولی۔ یہی اس امت کا طرہ امتیاز ہے۔ امت کی یہ آپس کی محبت اور اس کا اخوت کا رشتہ برقرار رہنا چاہیے۔ آج کی دنیا جغرافیہ ، زبان اور نسل کی بنیاد پر تقسیم ہوتی چلی جارہی ہے۔ اس حقیقت کے اعتراف سے کوئی چارہ بھی نہیں۔ لیکن امت کے دل ایک دوسرے کے لیے دھڑکنے چاہییں۔ محترم ملا حسن اخوند نے اپنے پیغام میں اسی جانب متوجہ کیا ہے۔ سیاسی حکومتیں اور سیاسی معاملات آئے روز بدلتے رہتے ہیں۔ ہر دن کسی نئے مسئلے کے ساتھ طلوع ہوتا رہتا ہے۔ ہمیں بہ ہر حال اپنے رشتہ اخوت اور وحدت کو بچا کر چلنا ہے۔ حضرت علامہ اقبال نے کہا تھا۔ قلب ما از ہند و روم شام نیست مرزبوم بہ جز اسلام نیست ہم ہند، روم اور شام میں قید نہیں ہیں، ہمارا وطن اسلام ہے۔
یہ مضمون بغیر لیبل والا ہے۔
دیدگاهها بسته است.