کابل

قیدیوں کو رہائی مبارک ہو!

قیدیوں کو رہائی مبارک ہو!

 

خزیمہ یاسین

امارتِ اسلامیہ ہر دور میں اسلام دشمنوں اور دین بے زاروں، خصوصا اہلِ کفر کی جانب سے اسلام کے سیاسی نفاذ کے تناظر میں طعنوں اور تنقید کی زَد میں رہی ہے۔ اِس تشنیع کا زور تب زیادہ بڑھ جاتا ہے، جب اسلام کی تعزیرات اور حدود و قیود کے نفاذ کا کوئی واقعہ سامنے آتا ہے۔ اِس میں بھی خاص طور پر تب، جب کسی جرم کی مرتکب کوئی خاتون اپنی غلطی کی پاداش میں سزا کے عمل سے گُزرتی ہے۔ اس موقع پر مغرب کے اہلِ کفر، خصوصاً “حقوقِ نسواں” کے نام نہاد علَم بردار اِداروں کی جانب سے ایک وسیع دباؤ اور پریشر افغانستان پر برسایا جاتا ہے، جس کا مقصد امارت اسلامیہ کو دبانا اور اُس کی مذہبی و سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔
البتہ اسلام کی مضبوط اور لافانی پشت پناہی حاصل ہونے کی بنیاد پر امارت اسلامیہ نے ہمیشہ خود کو قائم و دائم رکھا ہے۔ اُس اپنے مذہبی کردار کو کسی بھی ملامت کرنے والے کے طعنوں کی پروا کیے بغیر ادا کرتے ہوئے جاری و ساری رکھا ہے۔ امارت اسلامیہ کا یہ مذہبی کردار دوسرے الفاظ میں درحقیقت ‘رفاہِ عامہ اور بہبود’ کا وہ عمل ہے، جس حوالے سے اسلام کا انتباہ یہ ہے کہ “بروز قیامت مسلمان حکمران سے اُس کی رعایا کے حوالے سے خبرگیری کا سوال کیا جائے گا۔”
بلاشبہ عوام کی خبرگیری صرف اُنہیں دنیاوی ضروریات و سہولیات بہم پہنچانے تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ اس دیکھ بھال کا دائرۂ کار اسلام کی مذہبی عبادات کے گِرد بھی موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ توحید و رسالت کی تصدیق و تسلیم کے بعد سب سے پہلے نماز کا عملی قیام اور زکوۃ کی لازمی ادائی وہ اُمور ہیں، جن کا قیام و اَدا بہرحال مطلوب و مقصود ہے۔ یہ اسلام کے وہ احکامات ہیں، جن کے بارے کسی بھی طور سُستی اور معافی قابلِ برداشت نہیں ہے۔
البتہ اِس کے ساتھ ساتھ امارت اسلامیہ نے صرف افغانستان کی حد تک ہی نہیں، بلکہ دیگر ممالک میں کسی بھی وجہ سے مقیم افغان باشندوں کی خبرگیری و رعایت کے حوالے سے بالکل بھی سُستی و کاہلی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ امارت اسلامیہ ایک مکمل ذمہ دار حکومت کے تناظر میں اپنے باشندوں اور شہریوں کے حوالے سے چوکس اور ہوشیار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امارت اسلامیہ نے ‘متحدہ عرب امارت’ میں مختلف مسائل کی بنیاد پر جیلوں میں قید 42 افغان باشندوں کی رہائی کے حوالے سے اپنا کردار ادا کیا ہے۔
امارت اسلامیہ کی وزارتِ خارجہ کے نائب ترجمان ‘حافط ضیاء احمد تکل’ کے مطابق امارت اسلامیہ کی وزارت خارجہ کی ہدایت پر متحدہ عرب امارات میں افغان سفارت خانے کی مسلسل کوششوں کے نتیجے میں مختلف جیلوں میں قید 42 افغان باشندے یو اے ای حکومت کے معافی نامے کے تحت رہا ہو رہے ہیں۔ ان قیدیوں میں سے کچھ کو فوراً، جب کہ دیگر کو عنقریب رہا کر دیا جائے گا۔
ترجمان حافظ ضیاء احمد تکل نے مزید کہا ہے:
“امارت اسلامیہ افغانستان دنیا میں ہر جگہ خود کو اپنے شہریوں کی حالت سے باخبر رکھنے اور ان کے مسائل کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات اُٹھا رہی ہے۔ اسی سلسلے میں مزید طور پر امارت اسلامیہ کی حکومت کے دوران مختلف ممالک میں افغان قیدیوں کی رہائی کی کوششیں جاری ہیں۔ اور اب تک درجنوں افغان قیدی دیگر ممالک کے جیلوں سے رہا ہو چکے ہیں۔” جیسا کہ خاص طور پر گوانتاناموبے کے گھٹیاترین جیل سے کئی مجاہد قیدیوں کی رہائی عمل میں آ چکی ہے۔
امارت اسلامیہ کی جانب سے اپنے شہریوں کی خبرگیری کا یہ عمل انتہائی قابلِ تعریف اور لائقِ ستائش ہے۔ بلاشبہ یہ وہ حکومت ہے، جس کی نسبت صحابہ رضی اللہ عنہم کی خلافتِ راشدہ کے ساتھ جا ملتی ہے۔ جیسے قرآن مجید نے سورۃ الفتح کی آیت 29 میں صحابہ رضی اللہ عنہم کی یہ صفت بیان کی ہے:
“وہ (صحابہ) کفار کے معاملے میں انتہائی سخت ہیں۔”
بالکل واضح ہے کہ امارت اسلامیہ نے اہلِ کفر کے نیٹو اتحاد کو جس سختی کے ساتھ کُچلا ہے، وہ بلاشبہ اسلام کی وہ تعلیم ہے، جس کے بارے میں قرآن مجید سورۃ الانفال کی آیت 12 میں کہتا ہے:
“(یاد کرو) وہ وقت، جب تمہارا رب فرشتوں کو وحی کے ذریعے حکم دے رہا تھا کہ : مَیں تمہارے ساتھ ہوں، اب تم مومِنوں کے قدم جماؤ، مَیں کافِروں کے دِلوں میں رعب طاری کردوں گا، پھر تم گردنوں کے اوپر وار کرو اور اُن کی انگلیوں کے ہر ہر جوڑ پر ضرب لگاؤ۔”
امارت اسلامیہ نے بالکل اسی طرز پر خدا تعالی کی جانب سے قدم جمانے کے بعد نیٹو کے ہر ہر رُکن اور ہر ہر رُکن کی گردن اور اُس کی ہر ہر انگلی کے جوڑ پر ایسی کاری ضرب لگائی ہے کہ وہ اپنی ٹوٹی انگلیوں کی وجہ سے واپس بھاگتے ہوئے اپنا بہت سا جنگی سامان بھی افغانستان میں چھوڑ گیا تھا۔
جب کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ‘کفار پر سختی کی صفت’ کے بعد اِسی صفت کے دوسرے حصے کو سورۃ الفتح کی آیت 29 میں یوں بیان کیا گیا ہے:
وہ (صحابہ) آپس میں بہت رحم دِل ہیں۔
بلاشبہ امارت اسلامیہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی اِسی صفت کی پیروی میں اپنے باشندوں کے حوالے سے رحم و محبت کا رشتہ نبھاتے ہوئے اُنہیں سختیوں اور پریشانیوں سے بچانے کی فکر کی ہے۔ متحدہ عرب امارات سے اپنے قیدیوں کی رہائی امارت اسلامیہ کی وہ سیاسی و رفاہی اور رحم دِلانہ کوشش ہے، جس نے دنیا بھر کے مسلمانوں سمیت خصوصاً افغان باشندوں کو یہ اطمینان اور حوصلہ دیا ہے کہ ‘وہ اپنی زندگیوں کے حوالے سے امارتِ اسلامیہ پر مکمل اعتماد اور بھروسا کریں۔’
چوں کہ مغرب کے اہلِ کفر اور اسلام دشمن ہمیشہ سے امارت اسلامیہ کے انسانی حقوق کے تناظر میں ناقِد رہے ہیں، لہذا یہ موقع ہے کہ وہ جان لیں کہ امارت اسلامیہ حقوقِ انسانی کے حوالے سے آپ جیسے نام نہاد علَم برداروں کی نسبت ہر لحاظ سے بہترین اور قابلِ تقلید عمل کا نمونہ پیش کر رہی ہے۔ امارت اسلامیہ نے متحدہ عرب امارات سے اپنے باشدوں کو رِہا کروا کر اُن قیدیوں، خصوصاً امارت کے قائم ہونے کے دوران طالبان کے حوالے سے بے جا ڈر اور خوف کا شکار ہو کر امریکا اور یورپ بھاگ جانے والے افغان باشندوں کو یہ احساس دیا ہے کہ وہ امارت اسلامیہ سے ویسی ہی تمنا اور اُمید، بلکہ یقین رکھیں، جیسے کہا جاتا ہے کہ ‘ریاست اپنے شہریوں کے لیے ماں کا درجہ رکھتی ہے۔’ لہذا امارت اسلامیہ جیسی ‘اسلامی تعلیمات کے زیور سے آراستہ ماں’ اپنے شہریوں کو ہرگز تنہا اور پریشان حال نہیں رہنے دے گی۔ ان شاء اللہ