نام کاربری یا نشانی ایمیل
رمز عبور
مرا به خاطر بسپار
کابل ڈائری
آج سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ نظر آتی ہے: “ہماری زبان سب سے بہتر ہے!” دوسرے صارف کا جواب ہوتا ہے:
“نہیں، ہماری ثقافت اعلیٰ ہے!” یہ منظر عام ہے۔
اسی تقسیم کی چند اَور مثالیں دیکھیں!
علاقائی تفاخر؛
“ہمارے شہر کے لوگ ہی ذہین ہیں، باقی تو دیہاتی ہیں!”
“تمہارے علاقے میں تو جرائم ہی ہوتے ہیں، ہماری سڑکیں محفوظ ہیں!”
فرقہ وارانہ تعصب؛
“ہمارے مسلک کے علاوہ سب بدعتی ہیں!”
“تمہاری عبادتیں کیسے قبول ہوں گی؟ ہمارا طریقہ ہی درست ہے!”
رنگ کی بنیاد پر تفریق؛
“گورے بچے خوب صورت ہوتے ہیں، کالوں کو تو شادی کے لیے بھی مشکل ہوتی ہے! رنگ گورا کرنے والی کریمیں استعمال کرو، کالا پن تو نفرت انگیز ہے!”
وطن پرستی کا جھوٹا فخر؛
“ہماری سرحدیں مقدس اور پاک ہیں، دوسرے ممالک تو ناپاک ہیں!”
“ہمارے وطن کے بغیر کچھ نہیں، باقی دنیا ویسے ہی دشمن ہے!”
نسلی برتری کا زہر؛
“ہماری نسل کا خون پاک ہے، تمہاری تو ذات ہی نیچ ہے!”
“تمہاری قوم نے تاریخ میں کیا کی ہےا؟ ہم تو فاتح ابنِ فاتح ہیں!”
لسانی تنگ نظری:
“ہماری بولی میں مٹھاس ہے، تمہاری زبان تو کھردری لگتی ہے!”
“جو ہماری زبان نہیں بولتا، وہ ہمارا دشمن ہے!”
کیوں خطرناک ہیں یہ جملے؟
اس لیے کہ یہ بے وقوفانہ بیانیے معاشرے کو “ہم” اور “تم” میں بانٹتے، تقسیم کرتے اور توڑتے ہیں۔
جب کہ قرآن ہمیں فہم و فراست، یکجہتی اور اتحاد کی طرف بُلاتا ہے:
“يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا” (الحجرات:13)
“اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد و عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔”
یاد رکھیں، یہ تقسیم نہیں، بلکہ اس سے ‘تعارف’ مقصود ہے۔ سوشل میڈیا پر اٹھنے والی یہ آوازیں ہمیں اُس قرآنی مقصد سے بہت دور لے جا رہی ہیں۔
کیا ہم نے کبھی سوچا کہ یہ چھوٹی چھوٹی جھڑپیں ہمیں کس طرف لے جا رہی ہیں؟ قرآن مجید ہمیں “کلمۂ سواء” (عادلانہ مشترکہ بات) کی طرف بلاتا ہے، مگر ہم اپنی زبان، وطن یا نسل کے نام پر کیوں بٹے ہوئے ہیں؟ آئیے، قرآن و حدیث کی روشنی اور تاریخ کے آئینے میں اس مسئلے کو سمجھیں۔
قرآن کا حکم: “تعالوا الی کلمۃ سواء” — مسلمانوں کے لیے مشترکہ بنیاد کیوں ضروری ہے؟
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ” (آل عمران:64)
اگرچہ یہ آیت اہلِ کتاب سے خطاب ہے، لیکن اس کا پیغام عالمگیر ہے کہ اختلافات کے باوجود مشترکہ انسانی اقدار پر متحد ہو جاؤ۔ مسلمان ہونے کے ناطے ہماری سب سے بڑی مشترکہ قدر اور بنیاد “لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ” ہے۔ مگر آج ہم اس وحدت کو بھول کر لسانی و علاقائی تعصب کی دیواریں کھڑی کر رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہ دیواریں کبھی بھی معاشرے کو مضبوط نہیں کرتیں، بلکہ انہیں اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہیں۔
نبوتِ محمدیﷺ سے پہلے عرب قبائل “عصبیۃ الجاہلیۃ” (جاہلیت کی قوم پرستی) میں جکڑے ہوئے تھے۔ بنو قریظہ اور بنو نضیر کے درمیان لڑائیاں، بنو اوس و خزرج کی دشمنیاں… یہ سب لسانی و نسلی تفاخر کے سبب تھیں۔ حضرت رسول اللہﷺ نے انہیں ‘اخوان’ (بھائی) بنا دیا۔
حضرت محمد ﷺ کے حجِ الوداع کے خطبے میں ارشاد موجود ہے:
“…لا فضل لعربي على أعجمي ولا لأعجمي على عربي، ولا لأحمر على أسود ولا لأأسود على أحمر إلا بالتقوى…” (خطاب حجِ الوداع)
کسی عربی کو کیس عجمی پر اور نہ ہی کسی عجمی کو کسی عربی پر – اسی طرح – کسی سرخ و سپید کو کالے پر اور نہ ہی کسی کالے کو کسی سرخ و سپید پر کوئی فوقیت و فضیلت حاصل ہے، مگر یہ کہ وہ معزز ہے، جو تقوی اختیار کرنے والا ہو۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ نسلی و لسانی تعصب کو پوری طرح مسترد کرتے اور فرماںبرداریِ الٰہی کو سب سے بڑا معیار قرار دیتے ہیں۔
آج سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے “لا الہ الا اللہ والے بھائیوں” کو زبان یا علاقے کی بنیاد پر “غیر” بنا رہے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ “بالکل!” اور بلاشبہ یہ انتہائی بھیانک صورتِ حال ہے، جو ہمیں اپنے ہی ہاتھوں تباہی کی طرف لیے جا رہی ہے۔
حضرت یوسفؑ کا جواب: “مَعَاذَ اللہ!”
تعصب کے دعوت دہندگان کو کیسے جواب دیں؟ اس کے لیے قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ صرف نفسانی آزمائش ہی نہیں، بلکہ ہر قسم کے فتنے سے بچنے کا طریقہ سکھاتا ہے۔ جب زلیخا نے اُنہیں برائی کی دعوت دی تو ان کا جواب تھا: “قَالَ مَعَاذَ اللہِ إِنَّہُ رَبِّی أَحْسَنَ مَثْوَايَ” (یوسف:23)
یعنی، “میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، میرا رب مجھے بہتر جگہ عطا فرماتا ہے۔
آج ہمیں زلیخا جیسے “دعوت دہندگان” سوشل میڈیا پر ملتے ہیں، جو کہتے ہیں:
“تمہاری زبان کمزور ہے”، “تمہارا علاقہ کمتر ہے”۔ “تم کمزور نسل سے تعلق رکھتے ہو”۔ ایسے میں حضرت یوسف علیہ السلام کا جواب ہمارا نصب العین ہونا چاہیے۔ ہم ایسے بدبودار نعروں اور آوازوں پر “مَعَاذَ اللہ کہیں اور قرآنی تعلیم کی بنیاد پر اپنے بھائی کو قرار دیں کہ ‘ ہم تعصب کی بنیاد پر اپنے بھائیوں کو کمتر نہیں سمجھتے! کیوں کہ تعصب دلوں میں کینہ و حسد پیدا کرتا اور بھائی چارے کے رشتے کو متاثر کرتا ہے۔’
حضرت یوسف علیہ السلام کے عمل میں ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ‘ظالم یا متعصبانہ برتاؤ ترک کرنا ہر مومن کا فریضہ ہے۔’
جب قوم پرستی نے امت کو کھوکھلا کیا:
جب مسلم ہسپانیہ(اندلس) کی حکومت لسانی و نسلی گروہوں (بربر، عرب، صقلیہ) میں بٹ گئی تو وہ عیسائیوں کے سامنے کمزور پڑ گئی۔
خلافتِ عباسیہ کے دور میں ترک و عرب سپاہیوں کے درمیان رسہ کشی نے بغداد کو تباہی کے جہنم میں دھکیل دیا۔
سال 1857ء میں ہندوستان کی جنگ آزادی میں علاقائی راجاؤں اور نوابوں نے اپنے مفادات کو امت پر ترجیح دی، نتیجتاً غلامی کی صدیوں طویل رات چھا گئی۔
یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ لسانی و علاقائی تعصب قوموں کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔
جیسا کہ آج ہم غزہ کے حوالے سے دیکھ رہے ہیں۔ ہر مسلم ملک اپنی سرحد کی جکڑبندی سے باہر نہیں جانا چاہتا۔ لہذا ہنستا بستا غزہ خون سے گُندھی ہوئی مٹی اور لاشوں کا ڈھیر بن گیا ہے۔
حل کا قرآنی فارمولا:
اس تباہ کُن تعصب کا حل یہی ہے کہ ہر خطے و قبیلے کے سنجیدہ ادارے و افراد علاقائی و انٹرنیٹ سطح کے فکری و تربیتی مراکز قائم کریں۔ یہ ضرورت درحقیقت اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔
جیسا کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے قرآنی حکم کے مطابق بھلائی کی تلقین اور برائی سے روکنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (آل عمران:104)
اسی طرح اجتماعی ذمہ داری کے حوالے سے حدیث مبارکہ کا پیغام ہے کہ “تم میں سے جو برائی دیکھے، اسے ہاتھ سے روکے، اگر نہ کر سکے تو زبان سے،اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تو (کم از کم ایمانی درجے کے طور پر) اسے دل سے بُرا سمجھے” (مسلم)
علاقائی و انٹرنیٹ سطح کے فکری و تربیتی مراکز کا مقصد ہی یہ ہے کہ نفرت پھیلانے والے علاقائی و انٹرنیٹ سطح کے مجرموں کی نشان دہی کرنا اور انہیں فکری و تربیتی مراحل سے گزارنا ہے۔ اگر وہ نہ مانیں تو ان کے خلاف اجتماعی آواز اٹھانا۔ مثال کے طور پر اگر کوئی صاحب یا صارف “ہماری زبان نہ سیکھنے والے یا دوسرے ملک میں رہنے والے غیر ہیں” بولے یا لکھے تو اسے یاد دلایا جائے کہ حضرت رسول اللہﷺ نے مختلف اللسان صحابہ سلمان فارسی، بلال حبشی رضی اللہ عنہم کو یکساں باعزت قرار دیتے ہوئے اُنہیں عزت دی تھی۔
ہماری ذمہ داری کیا ہے؟
ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم سب اپنے دل کا جائزہ لیں کہ کیا ہم کسی کو زبان یا علاقے کی بنیاد پر “کمتر” سمجھتے ہیں؟
ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ کسی مجلس یا سوشل میڈیا پر کچھ بھی شیئر کرتے وقت سوچیں کہ کیا میرا یہ کہنا یا میری یہ پوسٹ امت کو جوڑے گی یا توڑنے کا باعث بنے گی؟
ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم ایسی تعصب آمیز پوسٹس کا جواب دیتے ہوئے حضرت یوسف علیہ السلام کی طرح “مَعَاذَ اللہ” کہیں، اور اپنے الفاظ میں وحدت کا پیغام شامل کریں۔ ہمارے جوابی الفاظ یہ ہونے چاہییں:
“بھائی! ہماری زبان الگ ہو سکتی ہے، مگر ہمارے دل “لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ” کی رسی سے بندھے ہوئے ہیں!”
“بھائی! ہمارے رنگ اور علاقے تو مختلف ہیں، مگر ان تمام رنگوں اور علاقوں میں بسنے والی انسانیت سب کی یکساں و مشترکہ میراث ہے! لہذا کسی اور یہ حق نہیں ہے کہ کوئی بھی اپنے تعصب کی وجہ سے دوسرے کو اُس کی میراث سے محروم کرنے کی کوشش کرے!
ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ نوجوان نسل کو سمجھائیں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی آواز کو کیوں فضیلت حاصل ہوئی؟ کیوں کہ ان کا معیار تقویٰ تھا، نسل نہیں! جیسا کہ قرآن کہتا ہے:
ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم!
تم میں سب سے باعزت وہ ہے، جو سب سے زیادہ تقوی (خدا سے قربت رکھنے) والا ہے۔ (الحجرات:13)
اس حوالے سے ہر جگہ ملک، خصوصا عالمِ اسلام میں ایسے ادارے قائم ہونے چاہییں، جو سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی نگرانی کریں۔
مساجد و مدارس کی سطح پر آگاہی مہم شروع کی جانی چاہیے۔ اہلِ علم متعصبانہ خیالات کے نقصانات واضح کر کے لوگوں میں بھائی چارے کا جذبہ پروان چڑھائیں۔
مساجد و مدارس اور تعلیمی اداروں کے ذمہ دار اپنے دائرہ اختیار میں زبان یا قوم پرستی اور علاقائی و ملکی تعصب کے اظہار کرنے والوں کا فوری نوٹس لیں۔ ایسے غافل مزاجوں کے متعصبانہ نعروں پر دعوتِ اصلاح و نصیحت کی جائے، تاکہ وہ جرم کی سنگینی کا ادارک کر کے توبہ کریں۔
ان اقدامات سے نہ صرف تعصب کم ہوگا، بلکہ امت میں ایک دوسرے کے ساتھ وحدت و اعتدال اور اتحاد و تحمل کا رویہ فروغ پائے گا۔
قرآن مجید ہمیں “امت واحدہ” بننے کا حکم دیتا ہے (البقرۃ:213)۔ آئیے، اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک مثالی معاشرہ بنائیں، جہاں ہماری پہچان “لا الہ الا اللہ” ہو، نہ کہ ہماری زبان یا جغرافیہ! یاد رکھیں، جب ہم “کلمۂ سواء” پر جمع ہوتے ہیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتی!
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاه بسته شده است.