نام کاربری یا نشانی ایمیل
رمز عبور
مرا به خاطر بسپار
کابل ڈائری
جب آڑو / آلوچے / شفتالو کے خوش گوار رنگ اور رسیلے ذائقے کی خوش بُو ننگرہار کے باغوں میں پھیل جائے تو ساری دنیا جان جاتی ہے کہ قدرت نے ایک بار پھر اپنی کاری گری اور نعمت کا کرشمہ دکھا دیا ہے۔ رواں سال افغان محکمہ زراعت کے اعداد و شمار کے مطابق صوبہ ننگرہار کے پندرہ اضلاع میں 2,600 ایکڑ پر پھیلے شفتالو کے باغات سے ایسا خوش کن تحفہ ملنے کو ہے کہ پیداوار 9,380 میٹرک ٹن تک پہنچنے کا امکان ہے۔ یہ تعداد نہ صرف کسانوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرے گی، بلکہ مقامی منڈیوں میں رونق اور برآمدات کے نئے دروازے بھی کھولے گی۔ سوال یہ ہے کہ اس دِل خوش کُن کامیابی کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں اور افغان شفتالو کے باغات نے یہ جادو کیسے جگایا ہے؟ آئیں جانتے ہیں…
لیکن پہلے شفتالو کو سمجھتے ہیں کہ وہ قدرت کی کس قدر لذیذ اور ذائقے دار نعمت ہے…
شفتالو اپنی ذات میں مٹھاس اور تُرشی کا ایک دل کش امتزاج رکھتا ہے۔ اس کا اندرونی مرکز گہری میٹھاس سے لبریز ہوتا ہے، زبان جیسے ہی اسے چکھتی ہے تو دل و دماغ میں ایک مدہوش کُن احساس بھر جاتا ہے، مگر ساتھ ہی اُس میں ہلکی سی ترشی بھی شامل ہوتی ہے، جو دھیمی مدہوشی کے ساتھ ساتھ مدھم ہوش کو بھی برقرار رکھتی ہے۔ یہ تازگی کا ایک سرشار کر دینے والا احساس ہے۔ جب آپ شفتالو کے رسیلے ٹکڑے منہ میں رکھتے ہیں تو گودے کا نرم رُتّیما سا پن اور ٹپکتے ہوئے رس کی کھٹی میٹھی بُوندیں آپ کے ذائقے کی حِس کو ایک نئے جہان سے روشناس کر دیتی ہیں۔ جب کہ اُس کی گلاب اور میٹھے پھولوں جیسی خوش بُو کھانے سے پہلے ہی حواس کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔
شفتالو کی بعض اقسام ایسی بھی ہیں، جن میں کڑوے دیسی بادام جیسی ہلکی سی تلخی بھی محسوس ہوتی ہے، جسے ذائقوں کی دنیا میں ایک نیا اضافہ کہا جا سکتا ہے۔ وہ شفتالو کی ہر قاش کو یادگار تجربہ بنا دیتی ہے۔ ایک بار چکھنے کے بعد آپ، خصوصاً خواتین کا دل بار بار اس مسحور کُن امتزاج کی یاد دہانی کرنے کو للچاتا رہتا ہے۔ اگر ایسے صحت افزا شفتالو خواتین کو ہمیشہ دستیاب رہیں تو وہ غیر صحت بخش ‘گول گپّوں’ کی چاہت ہرگز نہ کریں۔
اب دیکھتے ہیں کہ افغان صوبہ ننگرہار کے شفتالو کیا نئے اعداد و شمار لے کر آئے ہیں؟
ننگرہار کے محکمہ ‘زراعت و آب پاشی و مال داری’ کے سربراہ مولوی محمد ولی محسن کے مطابق صوبے کے 15 اضلاع میں 2,600 ایکڑ (جریب) اراضی پر شفتالو کے باغات قائم ہیں۔ ان باغات سے رواں سال 9 ہزار ٹن سے زائد پیداوار حاصل ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ جب کہ گزشتہ برس اس پیداوار کی مقدار 8,964 ٹن تھی، جو کہ سالِ رواں کی متوقع 9 ہزار ٹن سے کم تھی۔
آپ اسے اسلامی نظام کا شاہکار اور مخلص قیادت کی برکت سے تعبیر کریں تو بجا ہوگا۔
اس بہتری کی صورتِ حال پر ننگرہار کے کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ ‘سازگار موسم، جدید کاشت کاری طریقوں اور سرکاری معاونت نے اس بہتری میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔’
ننگرہار کی معتدل آب و ہوا، معتدل سردیاں اور گرما گرم گرمیاں شفتالوکی نشوونما کے لیے انتہائی موزوں ہیں۔ محکمہ زراعت کی تکنیکی ٹیم نے کاشت کاروں کو جدید آب یاری، نامیاتی کھاد اور موسمیاتی اصلاحی طریقوں کی تربیت بھی دی ہے، جس سے پودوں کی صحت اور پھلوں کے وزن میں اضافہ ہوا ہے۔
جب کہ شفتالوکے ان باغات سے تقریباً 3,000 افراد کو براہ راست اور بالواسطہ روزگار کے مواقع بھی میسر آئے ہیں۔ مقامی بازاروں میں شفتالو کی قیمت سال بہ سال بڑھ رہی ہے، جس سے کسانوں کی آمدنی میں نمایاں اضافہ ریکاڈ ہوا ہے۔
دوسری طرف برآمدات کے لیے بھی ابتدائی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں اور پڑوسی پاکستان کے پشاور و اسلام آباد اور لاہور و کراچی جیسے مرکزی شہری بازاروں میں اعلیٰ کوالٹی کے پھل بھیجے جانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
جلال آباد کے کاشت کار محمد خان کہتے ہیں:
گزشتہ برس ہماری کمائی میں کمی تھی، لیکن اس سال شفتالو کے پھل بہترین معیار کے اور زیادہ وزن کے ہیں، جس سے ہماری آمدنی تقریباً دو گنا بڑھ گئی ہے۔
جب کہ ضلع خوگیانی کے کاشت کار حیات اللہ کہہ رہتے تھے:
محکمہ زراعت کی تربیت اور پانی کے جدید نظام نے شفتالو کے باغات کو نئی زندگی دی ہے۔ اب ہم اپنی پیداوار کو دوسرے صوبوں میں بھی بھیج سکتے ہیں۔
دوسری طرف ان تمام بہتریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے افغان حکومت مکمل تند دہی کے ساتھ ذخیرہ اور پروسیسنگ جیسے مسائل سے بھی بہ خوبی نمٹنے کے لیے کوشش کر رہی ہے، تاکہ کولڈ اسٹوریج کی کمی سے پھلوں کے ضیاع کو روکا جا سکے۔
اسی طرح چوں کہ خراب سڑکوں اور ٹرانسپورٹ کے مسائل بھی برآمدات میں تاخیر کا سبب بنتے ہیں، اس لیے حکومت خصوصاً سڑکوں کی تعمیر کو اپنا خاص ہدف بنائے ہوئے ہے۔ یہ اس لیے بھی افغانستان -چین، روس، ازبکستان، تاجکستان سمیت وسطی ایشیا -کے ساتھ مختلف ٹرانزٹ منصوبوں میں منسلک ہو رہا ہے، جس کے لیے تجارتی گزرگاہوں کا نظام بہتر ہونا ازحد ناگزیر ہے۔
جب کہ ساتھ ہی حکومت ویلیو ایڈڈ مصنوعات (جیم، جوس، ڈرائی فروٹس) کے لیے بھی چھوٹے پلانٹس کا قیام عمل میں لا رہی ہے، جیسا کہ مختلف خبروں میں ریکارڈ ہوا ہے کہ اب افغانستان پھلوں سمیت پھلوں سے بننے والی جوس و جیم جیسی مصنوعات بھی برآمد کرنے لگا ہے۔
اگر افغانستان کی یہ بہتری اسی رفتار سے برقرار رہی تو ننگرہار کو مستقبل میں ’شفتالو کا صوبہ‘ کہا جا سکتا ہے۔ علاقائی تجارتی رابطوں جیسے پشاور–جلال آباد کارگو روٹ کے ذریعے پیداواری پھل آس پاس کے ممالک تک پہنچ سکیں گے، جس سے نہ صرف مقامی معیشت کو فائدہ ہو گا، بلکہ ملک کے زرعی شعبے کو بھی نئی بلندیوں تک لے جایا جائے گا۔
آخری مدعا یہ ہے کہ اگر دنیا بھر کے ممالک اپنے سیاسی و عسکری کھچاؤ کو پسِ پشت ڈال کر عدل و انصاف کے راستوں پر گامزن ہو جائیں تو دنیا بھر، خصوصاً پڑوسی سرزمینوں کے ہر شہری کی اِن سنہرے تحفوں تک رسائی نہ صرف آسان ہو جائے گی، بلکہ اس کی قیمت بھی حلال اور کم ہو گی۔ یوں ہر پھل و شجر، ہر ذائقہ اور خوش بُو سرحدوں کی بندشیں توڑ کر محبت و بھائی چارے کی خوش بُو بکھیر دے گی۔ چھوٹے سے شفتالو کی مسحورکن تلخی بھی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ قدرت کی بانہوں میں پلتی اور جادو جگاتی یہ نعمتیں سب کی مشترکہ ہیں، فقط ہمیں انہیں تقسیم کرنے کا صحیح وعدہ نبھانا اور راستہ اپنانا ہوگا۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاه بسته شده است.