نام کاربری یا نشانی ایمیل
رمز عبور
مرا به خاطر بسپار
خزیمہ یاسین
امریکی انخلا کے بعد امارت اسلامیہ کی حکومت کے بارے میں بہت سے لوگ اور مختلف مکتبہ ہائے فکر کے کو امارت اسلامیہ کی پالیسیوں کے بارے میں خدشات تھیں۔ وہ اِنہی خدشات کے پیشِ نظر اپنے مخصوص مقاصد کے تحت پوچھ تاچھ کرتے رہتے ہیں۔ ایسی ہی ایک پوچھ تاچھ میں یہ سوال کیا گیا تھا کہ: “افغانستان کے عوام طالبان سے مطمئن ہیں یا نہیں!؟” جس پر افغان عوام نے مختلف جوابات دیے۔ بلاشبہ یہ جوابات اپنے ظاہری الفاظ کی ناؤ میں اپنے پسِ پردہ افکار اور مقاصد کی لہروں پر تیر رہے ہیں۔ جیسے ایک شخص نے جواب دیا: “ہاں! افغان عوام طالبان سے مطمئن ہیں۔ افغانستان میں سکیورٹی، زمین پر مکمل کنٹرول، داعش کا خاتمہ، افغانستان کی تعمیرِنو، جرائم کی سطح میں غیرمعمولی کمی اور منشیات کی پیداوار کے خاتمے سمیت معاشی ترقی کی گہماگہمی بڑھ رہی ہے۔ البتہ معیشت کو مزید بہتر بنانے، مردوں اور عورتوں کے لیے مزید ملازمتوں اور خواتین کی تعلیم کے لیے مثبت پالیسیوں کے اجرا کی امید ہے۔ جس طرح بہت سے لازمی مسائل حل ہو گئے ہیں، آئندہ میں بقیہ مسائل بھی ختم ہو جائیں گے۔ ان شاء اللہ” جب کہ ایک خاتون نے رائے دیتے ہوئے کہا: “افغانستان میں طالبان کے دوبارہ برسرِاقتدار آنے پر قوم پر ایک ایسی حکومت کا سایہ پھیل گیا ہے، جس نے (جمہوری دور میں ہوئی) برسوں کی ترقی پلٹ کر رکھ دی ہے۔ طالبان نے 2021 کے بعد اب اقتدار میں واپس آ کر زبردستی کی حکومت مسلط کر دی ہے، جس میں مختلف آزادیاں، خاص طور پر خواتین کے لیے تعلیمی آزادی اور مختلف معاشی خدمات نظرانداز کی گئی ہیں۔ معیشت بحال ہو رہی تھی، جب ک اب خراب ہو رہی ہے۔ غذائی قلت کی شرح بڑھ گئی ہے۔ روزگار کی منڈی تباہ ہو گئی ہے۔ جس سے لاکھوں لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں۔ طالبان کی اسلامی قانون کی سخت تشریح شہری آزادیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا باعث بنی ہے، جس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی اطلاعات ہیں۔ جن میں سرعام کوڑے اور پھانسی بھی شامل ہے۔ بین الاقوامی برادری اس معاملے سے گھبراہٹ محسوس کر رہی ہے۔” مذکورہ خاتون کے اعتراض کے حوالے سے بات یہ ہے کہ افغانستان کے دیگر داخلی مسائل پر تو بات ہو سکتی ہے اور اُس میں بلاشبہ بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ البتہ افغانستان سے متعلق بین الاقوامی برادری کی گھبراہٹ بالکل قابل توجہ نہیں ہے۔ اوّلاً اس لیے کہ بین الاقوامی برادری کو سب سے پہلے جنگ زدہ اُس غزہ کی فکر کرنے کی ضرورت ہے، جہاں اسرائیلی فوج کی جانب سے ترجیحی بنیادوں پر خواتین اور بچوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ دوم اس لیے کہ ایک مرتبہ بین الاقوامی برادری کی مشہور نمائندہ تنظیم اقوامِ متحدہ کا وفد وزیرِخارجہ مولوی امیر خان متقی کے پاس آیا، جس نے افغانستان میں امریکی موجودگی کے دوران افغانستان کو فنڈ دینے کی اپنی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے موجودہ حکومت میں دوبارہ فنڈ دینے کے لیے اپنی پیشکش چند ایسی شرائط کی بنیاد پر کی، جو افغانستان کے داخلی مسائل میں دخل اندازی شمار ہو رہی تھیں۔ جس پر وزیرِخارجہ نے کہا: “یہ مسائل افغانستان کے داخلی معاملات ہیں، اس لیے براہِ مہربانی آپ افغانستان کو فنڈ دینے کے لیے اپنی شرائط پر نظرِثانی کریں۔ ” جس پر وفد نے کہا: “ہماری شرائط سے ہٹ کر ہمارے لیے فنڈ دینا مشکل ہے۔” وزیرخارجہ نے جواباً کہا: “اس کا مطلب تو یہ ہے کہ آپ بنیادی طور پر فنڈ افغانستان کو نہیں دے رہے ہیں، بلکہ آپ فنڈ ‘جنگ’ کو دینا چاہتے ہیں۔ حالانکہ امریکی موجودگی کے دوران بھی یہی افغان عوام تھے۔ آج امریکی انخلا کے بعد بھی وہی افغان عوام ہیں، مگر آپ کا فنڈ اگر افغان عوام کے لیے ہوتا تو آپ ایسی بے جا شرائط نہ رکھتے، لیکن آپ کی شرائط نے یہ نکتہ واضح کیا ہے کہ آپ اُس علاقے اور اُن لوگوں کو فنڈ دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، جہاں جنگ ہو اور جنگ بھی ایسی، جو یا تو امریکا کے مفاد میں ہو یا امریکا کی طرف سے لگائی گئی ہو۔ اور مقصد یہ ہے کہ جنگ زدہ عوام کو فنڈ دے کر پسِ پردہ امریکی مفادات کی تکمیل کی جائے۔” اِسی سروے میں کچھ لوگوں نے کہا ہے: اگرچہ افغان عوام بعض مسائل، جیسے لڑکیوں کی چھٹی کلاس سے آگے اعلی عصری تعلیم کی بندش سے مطمئن نہیں ہیں، البتہ اس کے علاوہ مجموعی صورتِ حال اطمینان بخش ہے۔ جیسے امن و امان کی کیفیت بہت عمدہ ہے۔ مقامی خانہ جنگی کے باعث بننے والے مختلف جنگجو طاقت وَر گروہوں، اخلاقی اور انتظامی کرپشن وغیرہ سے نجات مل گئی ہے۔ سکیورٹی مضبوط ہونے سے رات کو ہر جگہ سفر کرنا محفوظ ہے۔ اب ہمیں ایسا کوئی ڈر اور خوف نہیں ہے کہ جب ہم سفر اور اپنی ضرورت کے لیے گھر سے نکلیںں تو چور لٹیرا ہمیں لُوٹ لے۔ اسی طرح تعمیر و ترقی کے لیے اور افغانستان کے وسیع ذخیرۂ آب کی حفاظت اور اُس کے کاشت کاری اور بجلی کی پیداوار جیسی ضروریات کے حوالے سے درست استعمال جیسی خوبیاں عوام کو اطمینان دِلا رہی ہیں۔ اسی طرح پورے ملک میں مرکزی سڑکوں کا نظام درست ہو کر تعمیرِنَو کے عمل سے گزر رہا ہے۔ گلی محلے کے راستے بھی بہتر کیے جا رہے ہیں، جس سے آمد و رفت میں پہلے کی نسبت بے حد آسانی پیدا ہو گئی ہے۔ ایک آدمی نے افغانستان میں خواتین کی آزادی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا: آزادی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہر انسان اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق اپنی صنفی اور اخلاقی ذمہ داریوں کے احساس کرتے ہوئے اپنے کام سرانجام دے سکے۔ خصوصا خواتین کی آزادی کے حوالے سے مغرب کے بے مُہار طرز فکر کی بنیاد پر حجاب اور نقاب کی پابندی پر جو تنقید کی جا رہی، بلاشبہ لبرل طبقوں کی طرف سے یہ تنقید افغان، خصوصا اسلام کے نکتۂ نظر سے بالکل متضاد ہے۔ جب ک دوسری جانب امارت اسلامیہ نے خواتین پر ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی، جس سے خواتین کی اپنی ضروریات کے تحت آمد و رفت اور دیگر معاملات میں رکاوٹ پیدا ہو گئی ہو۔ البتہ چھٹی کلاس سے آگے کی عصری تعلیم کے حوالے سے خصوصا میڈیکل کے شعبے میں تعلیم جاری و ساری ہے، کیوں کہ طب کے معاملے میں ہر حیادار خاتون کی ضرورت ہے کہ صنفی فرق کی وجہ سے اُسے کسی مرد کے بجائے عورت ڈاکٹر سے ہی ٹریٹمنٹ کا موقع ملے۔ اسی طرح ملکی نظام کے مختلف شعبہ جات کے جس کام میں خواتین کی ضرورت ہے، اُس شعبے کی تعلیم پر ہرگز پابندی نہیں ہے۔ دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ مغربی معاشرے میں خواتین کی آزادی کے نام پر جس طرح عورتوں کو کپڑوں تک سے آزاد کر دیا گیا ہے، اس سے مغربی مرد خود اِس احساس کا شکار ہو رہے ہیں کہ بے جا آزادی اور مرد و عورت کے لایعنی تعلقات کی وجہ سے خاندانی نظام تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ لہذا! افغان عوام اس حوالے سے اپنی حکومت کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے اوّلاً افغانستان کو غیرملکی طاقتوں کے ظلم سے نجات دلائی ہے۔ آج افغان دنیا میں ایک آزاد قوم شمار کیے جا رہے ہیں۔ صرف افغان عوام ہی غیرملکی نظام سے آزاد نہیں، بلکہ افغان معیشت بھی غیرملکی قرضوں کی غلامی سے آزاد ہے۔ اسی لیے عوام کو اپنی آزادی پر فخر ہے۔ وہ اس لیے بھی مطمئن ہیں کہ افغانستان پر وہی لوگ حکومت کر رہے ہیں، جو بذاتِ خود افغان ہیں۔ وہ کہیں سے درآمد شدہ کٹھ پتلیاں نہیں ہیں۔ افغان عوام نے گزشتہ 45 سال سے کبھی پُرامن افغانستان نہیں دیکھا تھا۔ آج کئی نسلوں کی قربانیوں کی بدولت افغانستان دنیا کے پُرامن ترین ممالک میں شمار ہو رہا ہے۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاه بسته شده است.