نام کاربری یا نشانی ایمیل
رمز عبور
مرا به خاطر بسپار
مستنصر حجازی
ہم ہر رات شہریوں کی حفاظت کے لیے پہرہ دیتے ہیں۔ صوبہ بامیان کے گورنر بتاتے ہیں۔ یہ افغانستان کے عین وسط میں واقع صوبہ بامیان کے مرکزی شہر بامیان کا گورنر ہاوس ہے۔ دو منزلہ عمارت ، جس کے مرکزی دروازہ پر امارت اسلامیہ افغانستان کا سفید پرچم لہرا رہا ہے۔ گورنر ہاوس کے مرکزی دروازے پر مامور سکیورٹی گارڈ نے ضروری پوچھ تاچھ اور تفتیش کے بعد ہمیں گورنر ہاوس جانے کی اجازت دے دی۔ سطح زمین سے تین فٹ کی اونچائی پر واقع گورنر ہاوس کی عمارت کے دروازے کے اوپر جلی حروف میں لکھا تھا: “امارت اسلامی افغانستان، وزارت امور داخلہ، مقام ولایت بامیان” دفتر میں سنا ٹا تھا، کیوں کہ یہ وقت ہی سناٹے کا تھا، ہم عشا پڑھ کر بامیان کے گورنر ہاوس پہنچے تھے۔ ظاہر ہے اس وقت دفتر میں ملازمین اور سکیورٹی گارڈ کے علاوہ کوئی نہیں ہوتا۔ خوش گوار حیرت تب ہوئی جب ہم گورنر ہاوس کی عمارت میں داخل ہوئے اور گورنر صاحب دفتر میں موجود تھے۔ سر پر سادہ ٹوپی سجائے دراز قامت ، سفید ریش بزرگ یہ گورنر بامیان مولوی عبد اللہ سرحدی تھے جو دفتر سے نکلنے ہی والے ہی تھے۔ ہم نے پوچھا: ” گورنر صاحب! اس وقت دفتر میں؟ ” کہنے لگے: “میں روزانہ کی بنیاد پر اس وقت تک دفتر ہی میں ہوتا ہوں، عشا اور کھانے سے فارغ ہوکر ہم چند ساتھی لوگوں کے حال احوال دریافت کرنے کے لیے شہر میں گشت کرتے ہیں اور دور افتادہ علاقوں میں پہرہ دیتے ہیں۔ ” مجھ سے مخاطب ہوئے : “آپ ساتھ چلتے ہیں تو چلیں” یہ دیکھنے کے لیے کہ شہر کی صورت حال کیا ہے؟ سکیورٹی کی کیا پوزیشن ہے، شہری کس حال میں ہیں؟ گورنر صاحب کے ساتھ ان کی گاڑی میں بیٹھ گیا۔ گورنر ہاوس سے نکل کر گاڑی ایک وسیع اور کشادہ سڑک پر دوڑتی چلی جار ہی تھی، سڑک کے دونوں جانب اسٹریٹ لائٹس روشن تھے۔ کچھ آگے جاکر شش پل کے ایک چیک پوائنٹ پر رُکے، گورنر صاحب اور ہم سب گاڑی سے اتر گئے تو سکیورٹی اہل کار بھی ہاتھ ملانے کے لیے آگے بڑھے۔ گورنر صاحب نے ان کا حال احوال دریافت کیا۔ ہمیں ان کا تعارف کروایا۔ یہاں سے کسی گاڑی یا شخص کو پولیس ہیڈ کوارٹر کی اجازت کے بغیر جانے کی اجازت نہیں تھی، یہ سکیورٹی اہل کار اسی کلئیرنسی پر مامور تھا۔ میں نے ان سے پوچھا : “رات کے اس پہر گورنر خود شہر اور اطراف شہر میں پہرہ دیتے ہیں ، آپ کیا محسوس کرتے ہیں؟ نہایت اطمینان سے بولے : “ہمیں انرجی ملتی ہے، حوصلہ ملتا ہے۔” اس کے بعد گورنر صاحب سکیورٹی پر مامور دیگر اہل کاروں کا حال احوال لیتے رہے، میں نے ایک عام شخص کی نظر اور مسئلہ دریافت کرنے کے لیے تفتیش کی غرض سے چیک پوسٹ پر رکنے والی چھوٹی بڑی گاڑیوں کے ڈرائیور اور مسافروں سے کچھ باتیں کیں اور سوالات کیے۔ دایکندی سے بامیان آنے والے ایک ویگن ڈرائیور سے پوچھا : “رات اتنی دیر سے سفر کر رہے ہیں، کہیں کوئی چوری وغیرہ کا ڈر نہیں ہے؟ ” بولے: “نہ چوری کا خوف ہے اور نہ کسی دوسری پریشانی کا، یہ تو رات پہلا پہر ہے، رات کے آخری پہر بھی ہم سفر کرتے ہیں مگر پچھلے دو سالوں میں کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ایک اور بزرگ جو بامیان سے کابل جار ہے تھے ، ان سے پوچھا بامیان اور کابل میں نو گھنٹے کی مسافت ہے، آپ رات میں کابل تک سفر کرتے ہیں خوف محسوس نہیں کرتے؟ کہنے لگے: “داڑھی کے بال سفید ہوگئے ہیں، کئی حکومتیں بنتی بگڑتی دیکھیں، مگر موجودہ حکومت کی طرح امن کسی حکومت میں نہیں دیکھا۔ ” دراصل حکومت اور عوام کے درمیان فاصلے اسی وقت گھٹتے ہیں جب حکام عوام کی خبر گیری کریں، ان کے مشکلات کے حل کے لیے اپنی راحت قربان کرے۔ اس کے بعد شش پل سے دوبارہ شہر کی طرف روانہ ہوئے یہاں مختلف دکان داروں سے ملے۔ گورنر صاحب خود ہی ان کا حال احوال دریافت کرتے رہے۔ میں نے ایک دکان دار سے پوچھا: ” اس سفید ریش بزرگ کو جانتے ہو؟ [ گورنر صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے] کہنے لگے: “عالم دین ہے اس سے زیادہ نہیں جانتا، مگر یہ ہمارے حال احوال لینے کے لیے آتے رہتے ہیں۔ ” میں نے پوچھا زیادہ تر انہیں دن کے وقت دیکھتے ہو یا رات میں؟ کہنے لگے “رات میں اکثر دیکھتا رہتا ہوں۔” میں نے پوچھا: “جمہوریت کے دور میں بھی کوئی شخص دن یا رات کے کسی حصے میں حال احوال پوچھنے کی غرض سے آتا تھا؟ کہا: “کبھی نہیں دیکھا کہ رات میں کوئی سرکاری شخص حال احوال لینے کے لیے آیا ہو۔ ” ہم آگے بڑھے اور گورنر صاحب خود ہی مختلف چیزوں کے ریٹس پوچھتے رہے اور دکان داروں کو درپیش مشکلات کے بارے میں دریافت کرتے رہے۔ اس دوران میں نے یہ عجیب بات محسوس کی کہ کئی دکان دار اس بات سے لاعلم تھے کہ ہر رات ہمارا حال احوال لینے والا یہ شخص صوبہ بامیان کا گورنر ہے۔ انہیں اتنا پتہ تھا کہ کوئی سرکاری ذمہ دار شخص ہے جو ریٹس معلوم کرنے یا کسی دوسری وجہ سے آتے ہیں۔ کیوں کہ گورنر کے آگے پیچھے پروٹوکول گاڑیاں نہیں ہوتی تھیں۔ ایک گورنر صاحب کی اپنی گاڑی، دوسری پیچھے ایک گاڑی ہوتی تھی جس میں دد تین گن مین ہوتے تھے۔ اب رات کا یک بج چکا تھا، میں نے گورنر صاحب سے پوچھا ہر رات شہر ہی کا دورہ کرتے ہیں؟ کہا: “بامیان کے اطراف میں کوئی علاقہ، گاوں، قصبہ یا گلی ایسی نہیں جہاں ہم نہ گئےہو۔ کبھی پجلی، کبھی فولادی درہ اور کبھی شہر سے باہر سید آباد میں پہرہ دیتے ہیں۔ یہ ہم شہریوں پر کوئی احسان نہیں کر رہے، یہ ہمارا دینی اور سرکاری فریضہ ہے۔ کہ ہم لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کریں۔ ہم دور افتادہ گاوں بھی جاتے ہیں لوگوں کی زرعی زمینوں میں جاتے ہیں ، ان کو درپیش مشکلات سے خود کو باخبر رکھتے ہیں۔ راستے میں کہیں کوئی ایکسیڈنٹ ہوجائے تو زخمیوں کو ریسکیو کرتے ہیں۔ زیادہ سیریس مریضوں کو کابل ریفر کرتے ہیں۔ راستے میں کوئی گاڑی خراب ہو تو اسے بنیادی ضرورت کی چیزیں فراہم کرتے ہیں۔ ” گورنر صاحب ہمیں یہ تفصیلات بتا رہے تھے اور ہم اونگھتے ہوئے سن رہے تھے۔ میں گورنر صاحب سے از راہ تفنن کہا جب لوگ سوتے ہیں تب آپ جاگتے ہیں ، ہم تو سونے کے وقت سو جاتے ہیں۔” نہایت شفقت سے بولے: “ہم آپ کے آرام کے لیے ہی جاگتے ہیں، آپ ضرور جائیے اور آرام کریں۔” میں اپنا متاع قلم اور کاغذ سمیٹتے ہوئے گورنر صاحب سے اجازت لی اور آرام گاہ چل دیا۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاه بسته شده است.