آزادی ہماری قوم کی مشترکہ آرزو اور قدر ہے

ہفتہ وار تبصرہ چند روز قبل ہماری قوم نے انگریز استعمار سے آزادی کے حصول کی 101 ویں سالگرہ منائی۔انیسویں صدی میں دنیا کے سب سے وسیع اور عالمگیر استعمار برطانیہ نے ہمارے ملک افغانستان میں 1839ء سے استعماری دخل اندازی کا  آغاز کیا۔ اس تاریخ سے لیکر آزادی کے حصول کے سال (1919ء) تک […]

ہفتہ وار تبصرہ

چند روز قبل ہماری قوم نے انگریز استعمار سے آزادی کے حصول کی 101 ویں سالگرہ منائی۔انیسویں صدی میں دنیا کے سب سے وسیع اور عالمگیر استعمار برطانیہ نے ہمارے ملک افغانستان میں 1839ء سے استعماری دخل اندازی کا  آغاز کیا۔ اس تاریخ سے لیکر آزادی کے حصول کے سال (1919ء) تک انگریز استعمار مسلسل کوشش کرتےرہے۔ کہ زر، زور اور فریب کو بروئےکار لاکر ہمارے تاریخی ملک کو اپنے نوآبادیوں کی فہرست میں شامل کریں۔

مگر ہماری مؤمن قوم اور غیور اسلاف نے بےمثال ثابت قدمی اور استقامت کا مظاہرہ کیا۔  انہوں نے 80 سال تک انگریزوں کی عالمگیر طاقت کا مقالبہ کیا ، دشمن کے ہرطرح  حملے اور سازشوں کو ناکارہ بنادیا۔ یہاں تک آخرکار فی سبیل اللہ جہاد کی برکت سے دشمن سے مکمل آزادی حاصل کرلی۔

موجودہ  وقت میں ہمارا ملک اور قوم ایک بار پھر اسی صورت حال سے روبرو ہے۔ عالمی استعمار اور اس کے مقامی کٹھ پتلی کوشش کررہےہیں کہ ہماری قوم کو خودمختاری کی دعوت سے روک دیں۔ کھبی فوجی حکمت عملی، بمباری اور  دہشت پھیلانے سے کوششیں کررہے ہیں کہ ہماری مجاہد قوم پر دباؤ ڈال دیں اور کبھی تعمیرنو، جمہوریت، ترقی  اور دیگر  پرکشش نعروں کےذریعے ملت کو  لالچ دے رہا ہے،تاکہ ہمارے اباواجداد سے وراثت میں ملنے والی آزادی پر استعمار کیساتھ معاملہ کریں۔

مگر استعمار اور اشرف غنی کی طرح ان کے کاسہ لیس ہمیشہ استعمار کو ٹہرنے کرنے کی دعوت دے رہاہے، انہیں ایک بار پھر ہماری قوم کی تاریخ، ثقافت، اور جذبات کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ انہیں سمجھنا چاہیے کہ ہماری قوم استقلال کو بہت عظیم اور ناقابل معاملہ اثاثہ کی نگاہ دیکھ رہی ہے  اور کسی صورت میں بھی خودمختاری کے حصول کی دعوت سے دستبردار نہیں ہوسکتی ۔

اگر ہماری قوم استقلال پر معاملہ کرتی، تو ایک صدی قبل انگریز کیساتھ سودا کرتی۔ اب دیگر استعمار زدہ ممالک کی طرح اپنی شناخت اور استقلال کھونے کی غرض سے مادیت پسندی ترقی کرتی اور انگریز ثقافت کے اثر کو قبول کرتی۔

مگر ہماری دیندار قوم نے ہمیشہ ثابت کردیا ہے کہ مادی مفادات کی نسبت معنوی اقدار، مثلا اسلامی حاکمیت، اسلامی ثقافت، استقلال اور خودارادیت کو بہت اہمیت دیتی ہے۔ کیونکہ اصل میں یہی معنوی اقدار ہے، جو انسانوں کے شرف اور عزت کا سبب سمجھا جاتا ہے۔

ہمیں یقین ہے کہ آزادی ہماری مذہبی اور فطری حق اور پوری قوم کی مشترکہ آرزو ہے۔استعمار کے وہ کٹھ پتلی جو جارحیت کے توسیع کی جدوجہد کررہی ہے اور بیرونی افواج کو افغانستان میں ٹہرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ انہیں سمجھنا چاہیے کہ ان کا یہ مؤقف عوام کے نظریہ اور آزادی سے متصادم ہے  اور ان کو افغان عوام اور تاریخ اجنبیوں کے غلاموں کے طور پر متعارف کروائیں گے۔لہذا انہیں اس گھناؤنے مؤقف سے دستبردار ہونا چاہیے  اور اپنے آپ کو اس سے زیادہ تاریخ کا مذاق نہ بنائیں۔

آخر میں ہموطنوں کو خوشخبری سناتے ہیں کہ وہ دن قریب تر ہے کہ ہمارا ایک بار پھر مکمل آزادی اور اسلامی حاکمیت کا حامل بن جائے گا۔ ان شاءاللہ تعالی