آقاؤوں کی جدائی

تحریر: سیدافغان امریکا اور طالبان کے درمیان باقاعدہ مذاکرات شروع ہونے کے بعد جو نرالی بات ہمیں نظر آئی ہے اور جس چیز کا مشاہدہ آئے روز دیکھنے کو ملتا ہے وہ داخلی غلاموں کا بیرونی آقاؤوں کے جانے پر شدید غم و دکھ کا اظہار ہےـ یہ چیز اس سے پہلے دیکھنے میں نہیں […]

تحریر: سیدافغان
امریکا اور طالبان کے درمیان باقاعدہ مذاکرات شروع ہونے کے بعد جو نرالی بات ہمیں نظر آئی ہے اور جس چیز کا مشاہدہ آئے روز دیکھنے کو ملتا ہے وہ داخلی غلاموں کا بیرونی آقاؤوں کے جانے پر شدید غم و دکھ کا اظہار ہےـ یہ چیز اس سے پہلے دیکھنے میں نہیں آئی تھی ـ
یہ تماشا دوسال قبل اس وقت پوری دنیا نے دیکھا جب صوبہ قندز کے لئے کابل انتظامیہ کا نامزد گورنر امریکی فوجیوں کے فراق میں دھاڑے مار مار رورہاتھا اور قندز ائیربیس پر قابض امریکی افسر کو سینے سے چمٹا چمٹا کر اپنے دل کو تسلی دے رہا تھاـ ان کے جانے سے اپنے غم کے بے تحاشا ہونے کا احساس خود اس امریکی اور پوری دنیا کو دے رہا تھاـ
صرف گورنر بیچارے کی کیا بات؟ کابل انتظامیہ کے چھوٹے بڑے سب اس وارفتگی کا اظہار کرتے نظر آئےـ بذات خود کابل انتظامیہ کاسربراہ تو اس حوالہ سے کافی شہرت رکھتا ہےـ اس کی یہ بات تقریبا ضرب المثل بن چکی ہے کہ امریکا کے جانے سے سخت دلی کوفت ہوتی ہے” چنانچہ اس کوفت کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے اشرف غنی کے حربے بھی بے شمار ہیں ـ چونکہ وہ بزعمِ خویش بڑا ماہر اور زیرک انسان ہے اس لئے اس نے بجائے رونے کی تدبیر یہ سوچی کہ کسی طرح آقاؤوں کو یہاں بہرحال ٹھرایا جائےـ چنانچہ اس کے لئے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ،برطانوی حکام اور نیٹو سربراہان کے نام مختلف خطوط لکھے جن میں اشرف غنی نے ان کے افغانستان میں موجود رہنے کے فوائد اور جانے کے نقصانات بارہا لکھے تھےـ اور جب اپنی محبت کا زیادہ ہی اظہار کرنے کی ضرورت ہوتی تو اشرف غنی انہیں ان خطرات سے آگاہ کرتے جو ان کے جانے کی وجہ سے خود آقاؤوں کو ان کے گمان کے مطابق لاحق ہونے تھےـ
اسی فراق کو برداشت نہ کرنے کی وجہ تھی کہ کابل انتظامیہ کے ہر عہدیدار نے دوحا معاہدہ میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش کی اور ہر ہر مرحلہ پر کوئی نہ کوئی رکاوٹ کھڑی کر ڈالی ـ
یہی فراق ہی تو کابل انتظامیہ کے دوسرے بڑے فرد اور اشرف غنی کے معاونِ اول امراللہ صالح کو سٹھیا بنا گیا تھا کہ اس احساس کے بعد سے پھر امراللہ صالح اپنے قول وفعل میں وہ تیزی لے کر آیا اور ایسا انداز اختیار کرگیا جو ہر قدم پر نہ صرف یہ کہ افغان امن کے لئے شدید مضر تھا بلکہ خود امراللہ صالح کے حواس باختہ ہونے کا پتہ دے رہا تھاـ
امریکی انتخابات میں جب ٹرمپ کی بجائے نیا صدر جوبائڈن برسراقتدار آیا تو کابل انتظامیہ کو فراق میں ہلکی سی حرکت محسوس ہوئی اور فراق کو وصال میں تبدیل ہوتے دیکھاـ چنانچہ اسی دن سے کابل انتظامیہ کے مایوس کن افراد نے خوشیاں منانی شروع کردیں اور بغلیں بجانا شروع ہوگئےـ لیکن ان کی یہ خوشیاں تب اکارت ہوگئیں جب جوبائڈن نے یہ اعلان کیا کہ میں افغانستان میں اپنی افواج کی سربراہی کسی پانچویں صدر کے لئے نہیں چھوڑونگا اور بہرحال افغانستان سے نکلوں گاـ اتنا ٹھوس اعلان کابل انتظامیہ کے لئے کسی قیامت ٹوٹنے سے کم نہیں تھا اس لئے وہ پھر سے اپنے غم کا اظہار کرنا شروع کرگئے اور اس دفعہ امریکا کے عزمِ مصمم کو دیکھ کر انہوں نے بھی پینترا بدل لیا اور اپنے آقاؤوں کو درخواست دی کہ تم جارہے ہو تو جاو لیکن ہمیں بھی اپنے ساتھ لے چلوـ اس پر آقاؤوں کو بھی رحم آیا اور امریکی صدر کو باقاعدہ درخواست دی کہ ان وفادار غلاموں کو امریکی شہریت سے سرفراز کیا جائےـ
بیچارے غلام لوگوں پر ایک اور بجلی تب گری جب ابھی 25 اپریل کو افغانستان میں امریکی افواج کے سربراہ اسکاٹ میلر نے بھی اعلان کیا کہ ہم کسی صورت افغانستان میں مزید نہیں رہیں گے اور بہرحال جائیں گےـ خدا جانے اس اعلان میں ایسی کیا خاص بات تھی کہ کابل انتظامیہ کے مشیر برائے قومی سلامتی حمداللہ محب نے اپنے گہرے غم کا اظہار کیا اور امریکی افواج کے انخلاء کو ایک خلاء قرار دے دیاـ مایوسی کی شدت میں مبتلا حمداللہ محب نے انتہائی بے بسی کے عالم میں امریکی افواج کو افغانستان کے لئے یعنی اپنے آپ کے لئے ایک قیمتی سرمایہ قراردے دیا اور زور دیا کہ ان کا یہاں سے انخلاء نقصان سے خالی نہیں ہوگاـ
آقا اور غلام کا یہ رشتہ ایک بات کو واضح کرتا ہے کہ کابل انتظامیہ کبھی بھی قوم کی خیرخواہ نہیں رہی ہےـ بلکہ ان کے پیش نظر جو مقصد تھا وہ بیرونی آقاؤوں کی حفاظت اور ان کے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا تھاـ تب ہی تو انہیں اپنے آقاؤوں کے جانے سے اس قدر کوفت ہوتی ہےـ باوجود یہ کہ ان کے انخلا سے اس پوری قوم کی کامیابی اور آزادی جڑی ہےـ