اتحاد اور اخوت امتِ مسلمہ کے لیے نجات کا ذریعہ ہے

اللہ تعالی جو انسانوں کا خالق اور مربی ہے، ایمان والوں کو مختلف آیتوں میں تقوی اور وحدت کی جانب بلاتے  ہیں۔مؤمنوں کا اخوت اور وحدت نہ صرف اللہ تعالی کا عظیم نعمت ہے، بلکہ مسلم امت کے نجات کا ذریعہ ہے، اتحاد میں دنیا و آخرت کا سعادت  موجود ہے : وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ […]

اللہ تعالی جو انسانوں کا خالق اور مربی ہے، ایمان والوں کو مختلف آیتوں میں تقوی اور وحدت کی جانب بلاتے  ہیں۔مؤمنوں کا اخوت اور وحدت نہ صرف اللہ تعالی کا عظیم نعمت ہے، بلکہ مسلم امت کے نجات کا ذریعہ ہے، اتحاد میں دنیا و آخرت کا سعادت  موجود ہے :

وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ.. آل عمران- ۱۰۳

ترجمہ :اور سب مل کر اللہ کی ہدایت کی  رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور فرقے فرقے میں نہ ہوجانا۔

دوسری جانب باہمی تنازعات مؤمنوں کی قوت کو ختم کرتی ہے، اللہ تعالی کی نصرت سے محروم ہوتے ہیں، اگر تاریخ اسلام  کے اوراق کی روگردانی کی جائے، تو سب سے بڑے المیے باہمی اختلافات کی وجہ سے رونما ہوئے ہیں، اسی لیے متعدد شرعی نصوص میں باہمی اصلاح، تفرق اور فتنوں سے بچنے ، صبر، تحمل اور درگزر کی سفارشات کی گئی ہیں :۔

وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُواْ إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ ۔۔الأنفال- ۴۶.

ترجمہ : اور آپس میں جھگڑا نہ  کرنا کہ ایسا کروگے  تو تم بزدل ہوجاؤگے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائیگی اور صبر سے کام لو کہ اللہ صبر کرنے والوں کا مدد گار ہے۔

اگر صرف غزوہ احد  میں اختلاف کے نتائج کو دیکھے جائے، تو سب سے پہلے ہمیں باہمی تنازعات کو ختم کرنے چاہئيں، کیونکہ اس غزوہ میں رسول اللہ ﷺ نے اپنی جنگی مہارت کے مطابق عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کی قیادت میں 500 افراد پر مشتمل لشکر کو  حکم دیا کہ جبل رماۃ پر مورچہ زن رہے، کسی حالت میں اپنے مورچہ کو نہ چھوڑے، جب عبداللہ بن جبیر اور اکثر ساتھیوں کے درمیان اختلاف کی وجہ سے مورچہ خالی کروائی گئی،  تو دشمن نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے  مجاہدین پر پیچھے کی جانب سے اچانک حملہ کردیا اور جنگی حالت دشمن کے مفاد میں بدل گیا۔

اس چھوٹے اختلاف کے نتیجے میں مؤمن عظیم مصائب سے روبرو ہوئے، رسول اللہ ﷺ کا مبارک چہرہ زخمی اور دانت مبارک شہید ہوا۔ اسداللہ و اسد رسول حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ سمیت 70 صحابہ کرام شہید ہوئے، مدینہ منورہ میں صف ماتم مچ گيا، مسلمانوں کے ہیبت اور شہرت کو نقصان پہنچا اور اللہ تعالی کے دشمن خوش ہوئے۔

باہمی اختلاف کو دور کرنے کے لیے سب سے بہترین طریقہ اللہ تعالی کی رضا اور مسلمانوں کی وحدت کی خاطر اپنے حقوق سے دستبردار ہونا ہے۔ خلافت کے حق سے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا دستبردار ہونا، ہزاروں مسلمانوں کے خون بہانے، مال اور عزت کا تحفظ اور رسول اللہ ﷺ کے اس پیش گوئی کو ثابت کردی کہ :

إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ المُسْلِمِينَ). رواه البخاري.

ترجمہ : بیشک میرا بچہ (حضرت حسن رضی اللہ عنہ) سردار ہیں! ہوسکتا ہے اللہ تعالی ان کے واسطے مسلمانوں کے دو بڑے جماعتوں کے درمیان صلح قائم کریں۔

نبی کریم ﷺ کی اس مبارک حدیث میں اشارہ ہے کہ حقیقی سردار وہ حضرات ہیں،  جو اسلامی صف کے وحدت اور باہمی اصلاح کے لیے قربانی دے سکتے ہیں۔

جب کوئی مظلومیت کا احساس کرتا ہے اور اس فکر میں مبتلا ہو کہ ان کی حق تلفی ہوئی ہے، یا اہم مسائل میں ان کی رائے کی جانب توجہ نہیں دی گئی ہے، ایسے حالت میں مسلم امہ کی وحدت کی خاطر صبر اور تحمل مؤمنوں کو حوض کوثر تک پہنچاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ فرما تے ہیں :

إنكم ستلقون بعدي أثرة فاصبروا حتى تلقوني على الحوض). متفق عليه.

ترجمہ: میرے بعد تم خودخواہی اور حق تلفی سے روبرو ہونگے، لیکن تحمل سے کام لو، تاکہ میرے ساتھ حوض کوثر میں مل جاؤ۔

نبی کریم ﷺ کیساتھ حوض کوثر میں ملاقات دنیا اور مافیھا  سے بہتر ہے۔

اختلاف ایک فطری پدیدہ ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اختلافات کے موضوع کو قرآن کریم اور مبارک احادیث میں فوری توجہ  دی گئی ہے، اس کے حل کے لیے ہدایات ہیں،  صرف اسلامی شریعت کو رجوع کرنے سے اختلافات کے جراثیم مؤثرین طور پر ناکارہ ہوتے ہیں، کیونکہ  اللہ تعالی کے حکم کو ماننا ہر جماعت اسے دنیا و آخرت کی سعادت سمجھتے ہیں۔

فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ (النساء- ۵۹).

ترجمہ : پھر اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو  تو اگر اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں اللہ اور  اس کے رسول کے حکم کی طرف رجوع کرو۔

رسول اللہ ﷺ باہمی تنازعات کی اصلاح میں عجلت فرماتے، بذات خود  ان میں مداخلہ کرتے اور اختلاف ختم کرنے کی کوشش فرماتے، اس مبارک سنت میں مسلم امہ کے قائدین کو رہنمائی ہے کہ امن اور اصلاح کے ابتکار کو اپنے ہاتھ میں لے ، تاکہ مسلمانوں کی وحدت  برقرار ہو جائے۔

یہی وجہ ہے امارت اسلامیہ کے نئے زعیم جناب ملا اختر محمد منصور حفظہ اللہ نے اپنے پہلے خطاب میں عوام کو اسلامی شریعت کی پیروی، صف کے وحدت، اتحاد و اتفاق اور اختلاف کو ختم کرنے کا وصیت فرمایا  اور ساتھیوں کو تفرق اور تشتت کی خطرے کی جانب متوجہ کی ہے۔ واللہ الموفق