اتفاق کس بات پر ہوا؟

سیدعبدالرزاق کابل انتظامیہ اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے درمیان اختلافی صورت حال ختم ہوگئی ہے۔ صدارتی محل سے جاری ایک بیان میں میڈیا کو بتایا گیا ہے کہ اشرف غنی نے ڈاکٹر عبداللہ کو نام نہاد حکومت میں پچاس فیصدی حصہ دے دیا ہے۔ اس میں اہم وزارتیں، گورنرشپ اور مختلف کمیشنز اور کمیٹیوں کی […]

سیدعبدالرزاق

کابل انتظامیہ اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے درمیان اختلافی صورت حال ختم ہوگئی ہے۔ صدارتی محل سے جاری ایک بیان میں میڈیا کو بتایا گیا ہے کہ اشرف غنی نے ڈاکٹر عبداللہ کو نام نہاد حکومت میں پچاس فیصدی حصہ دے دیا ہے۔ اس میں اہم وزارتیں، گورنرشپ اور مختلف کمیشنز اور کمیٹیوں کی سربراہی شامل ہے۔ عبداللہ عبداللہ کو اشرف غنی کے بعد دوسرا اہم عہدہ دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی عبداللہ کے دستِ راست اور انتخابات میں اس کے ہَرَاوَل دستے کے کمانڈر رشیددوستم کو فیلڈمارشل کا عہدہ دیا گیا ہے۔ عبداللہ عبداللہ کی جانب سے بیان جاری ہوا ہے کہ ان کے لیے یہ مرحلہ انتہائی صبرآزما اور کٹھن تھا۔ انتخابات میں ریکارڈ دھاندلی ایک ایسا معاملہ تھا، جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ صرف خداوندقدوس کی رضا کے حصول اور ملک و ملت کے اجتماعی مفادات کی خاطر اپنے مطالبات سے پسپائی اختیار کر کے اشرف غنی کے ساتھ شراکتِ اقتدار پر راضی ہوئے ہیں۔

یاد رہے اس ڈھونگ اور جعلی انتخابات کے نتائج آتے ساتھ دونوں سربراہوں نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر اپنے طور پر افغانستان کی سربراہی کا شرف بٹورنے کا عزم کیا تھا۔ دونوں نے ملک و ملت سے وفاداری، اخلاص اور ہمدردی کا حلف لیا اٹھایا۔ انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ وہ آخری دم تک اپنے عہد کو نبھاتے رہیں گے۔ وہ کسی صورت اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

عبداللہ عبداللہ کی پارٹی تو بڑے تزک و احتشام سے یہ بات دہراتی تھی کہ انہوں نے سازباز کو تصور میں بھی نہیں لانا۔ میڈیا کو بتایا گیا تھا کہ سازباز کے لیے آئے ہوئے امریکی وزیرِخارجہ مائیک پومپیو کو ان کی جوڑتوڑ کی کوشش سمیت مسترد کر دیا گیا ہے۔ اب حکمرانی کا حق صرف عبداللہ کا ہے۔وہ اس سے ہٹ کر کوئی بات سنیں گے اور نہ قبول کریں گے۔ اشرف غنی ٹھنڈے دماغ سے سوچیں اورہوش کے ناخن لے کر عبداللہ کا حق تسلیم کر لیں۔ ورنہ ان کی ناک میں دم کر کے چھوڑیں گے۔ دوسری جانب اشرف غنی کے فالورز دندناتے پھرتے تھے کہ ہمارا لیڈر عوام کے مینڈیٹ سے آیا ہے۔ اسے گرانے یا اس کے خلاف سازش یا پھر اس کے مخالفین کاکوئی اقدام سختی سے کچلا جائے گا۔ اسے ملت دشمن تصور کیا جائے گا۔

ان سب باتوں کے باوجود آج ان دونوں کا اتفاق ہو گیا ہے۔ بین السطور ان کا اتفاق اس پر ہوا ہے کہ ان دونوں کا کوئی وعدہ، کوئی حلف اور کوئی عہد سچائی پر مبنی نہیں ہے۔ اس بات پر کہ وہ دونوں ملک و ملت سے کسی قسم کی ہمدردی نہیں رکھتے۔ اس بات پر کہ جس رشید دوستم کو گزشتہ پانچ سال عبداللہ ‘ملت کاقاتل’ کہتے آئے تھے، دوسال اشرف غنی انہیں غدارِ ملت سمجھتے رہے، آج وہ اسی مقتول ملت کا محافظ تعینات ہو گیا ہے۔ ان کا اتفاق اس بات پر ہوا ہے کہ وہ اپنے اقتدار کی خاطر شرم و حیا کی دھجیاں اڑائیں گے۔ ان کا اتفاق اس بات پر ہوا ہے کہ وہ عوام کے مینڈیٹ کے جو نعرے اور دعوے بلند کرتے ہیں، وہ محض فراڈ ہیں۔

دونوں کا یہ اَکٹھ اس لیے ممکن ہو سکا ہے کہ امریکی انخلا کی صورت میں امن و امان کی جو کرن نظر آنے لگی ہے، وہ اپنی موت آپ مر جائے۔ یہ اتفاق کی فضا اس لیے ہموار ہوئی ہے کہ بین الافغان مذاکرات کو ناکام کیا جا سکے۔ ملت کے یہ غدار جتنا مرضی عوام کے ساتھ دھوکا کر لیں، وہ دن دور نہیں، جب یہی غدار اپنے جرائم کی سزا پائیں گے۔ ان شاء اللہ