اروزگان ضلع ہراوود کے معروف مجاہد ملاموسی جان سے گفتگو

اروزگان میں جہادی ودعوتی سلسلے پوری کامیابی سے جاری ہیں۔   محترم قارئین! صوبہ اروزگان کا شمار افغانستان کے مرکزی صوبوں میں ہوتا ہے ۔ اس کے مشرق میں غزنی اور صوبہ زابل کا ایک حصہ ، شمال میں صوبہ دایکندی مغرب میں ہلمند اور جنوب میں قندہار اور زابل کے مضافاتی علاقے واقع ہیں […]

اروزگان میں جہادی ودعوتی سلسلے پوری کامیابی سے جاری ہیں۔

 

محترم قارئین!

صوبہ اروزگان کا شمار افغانستان کے مرکزی صوبوں میں ہوتا ہے ۔ اس کے مشرق میں غزنی اور صوبہ زابل کا ایک حصہ ، شمال میں صوبہ دایکندی مغرب میں ہلمند اور جنوب میں قندہار اور زابل کے مضافاتی علاقے واقع ہیں ۔

صوبہ اروزگان کا مرکز ترین کوٹ کا شہر گوٹی ہے ، اس صوبے کا کل رقبہ 12640مربع کلومیٹر اور آبادی تقریبا 4لاکھ نفوس پر مشتمل ہے ۔

اس صوبے میں درجہ ذیل اضلاع شامل ہیں :

خاص اروزگان ، چورہ ، چارچینی ، دھراوود ، گیزاب

اروزگان افغانستان کا وہ صوبہ ہے جہاں سے جارحیت کے آغاز کے دنوں میں امریکیوں نے اپنے کٹھ پتلی حامد کرزئی کو اٹھا کر اقتدار تک پہنچایا تھا ۔ اس وقت سے یہ صوبہ امریکی جارحیت پسندوں اور دیگر کفری قوتوں کے زیر قبضہ آگیا تھا ۔ اب موجودہ حالات میں وہاں جہادی صورتحال کیا ہے ؟ یہ معلوم کرنے کے لیے ہم نے ضلع دہراوود کے ایک مجاہد ملاموسی جان سے تفصیلی گفتگو کی جو آپ کے نذر کی جارہی ہے ۔ ادارہ

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

سوال :جناب موسی جان صاحب آپ اروزگان دہراوود میں اپنی ذمہ داریاں نبھارہے ہیں ، کچھ دنوں سے اس صوبے سے مجاہدین کی کامیاب کارروائیوں کی اطلاعات مل رہی ہیں پہلے اس حوالے سے اگر کچھ معلومات فراہم کریں؟

جواب : ضلع دہراوود اروزگان کے ان علاقوں میں سے ہے جن پر روز اول سے دشمن کی توجہ مرکوز رہی ہے ۔ اس علاقے میں داخلی اور خارجی فوجیوں نے اپنے بہت سے اڈے بنارکھے ہیں ۔ اب حال میں یہاں جگہ جگہ اربکیوں کو بھی اٹھا یا گیا ہے مگر اس سال خالد بن ولید آپریشن کے سلسلے میں مجاہدین کی کوشش تھی کہ اس ضلع میں گھس کر اس کے علاقوں سے دشمن کا صفایا کرادیں ۔

الحمد للہ,  اللہ تعالی کی نصرت اور مدد سے مجاہدین اس سال اپنی اس کوشش میں کامیاب رہے  اور اس خطے کے کئی علاقوں میں جہادی سرگرمیاں شروع ہوگئیں ۔ دہراوود جس کے اکثر علاقوں پر پہلے دشمن کا سکہ چلتا تھا اب دشمن یہاں تقریبا بیس یا تیس فیصد علاقے تک محدود ہوگیا ہے اور بقیہ علاقوں پر جہاد کا جھنڈا لہرارہاہے ۔

آپ نے دہراوود میں حالیہ آپریشن کے بارے میں سوال کیا ، 21اگست 2013ء کو مجاہدین نے دہراوود میں اس علاقے پر حملہ کیا جہاں سے خارجی نکل چکے تھے اور اپنی جگہ اربکیوں کو چھوڑگئے تھے ۔ الحمد للہ یہ حملہ انتہائی کامیابی سے پایہ تکمیل کو پہنچا۔ اس حوالے سے ورجان ، شورجی ، سنگ سلاخ ، بازگیر ، دہزک ، تنگی ، شنغولی ، غاڑی اور بارکی کے علاقوں پر بیک وقت آپریشن شروع کیا گیا ۔ مجاہدین ان علاقوں سے دشمن کو نکالنے میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔ دشمن  اکثر فوجی چیک پوسٹیں خالی چھوڑ کر بھاگ گئے، کچھ ہلاک ہوگئے ۔ آپریشن کے  دوسرے دن سیکزی کے علاقے میں دشمن کی ایک رینجر گاڑی اور 10فوجی ہلاک ہوگئے ۔ اسی طرح  شنغولی کے علاقے میں ایک چیک پوسٹ میں کئی فوجی ہلاک ہوگئے ۔ اس علاقے میں دشمن کے خلاف مجاہدین کے کامیاب آپریشنز کو دیکھتے ہوئے مرکزی انتظامیہ اور خارجی جارحیت پسندوں کو یہ خوف ہونے لگا کہ یہ علاقے ہمیشہ کے لیے مجاہدین کے ہاتھوں میں چلے جائیں گے ۔ اس لیے انہوں نے اروزگان کے مرکز سے  ایک بڑی کمک دہراوود بھیج دی جس میں بہت سے آسٹریلیائی فوجی بھی شامل تھے ۔ مگر خارجی فوجی ماضی کی طرح جنگ میں شریک ہونے کے بجائے صرف داخلی فوجیوں کی کمان کرتے رہے ۔

دہراوود پہنچ کر انہیں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے آگے بڑھنے کے راستے مسدود کردیے گئے ۔ اب بھی دشمن پوری قوت سے کوشش کررہا ہے کہ اپنے ہاتھوں سے نکلے ہوئے علاقوں پر ایک بارپھر قبضہ کرلے ۔ مگر علاقہ بھر میں قدم قدم پر ان کے خلاف مزاحمت ہورہی ہے ۔ جنگ ابھی اختتام پذیر نہیں ہوئی ۔

اس آپریشن کے نتیجے میں دشمن کے داخلی قوتوں اور اربکیوں کو بے انتہا جانی نقصان پہنچا ، درجنوں اہلکار ہلاک ہوگئے اور بہت سے علاقے ان کے ہاتھوں سے آزاد ہوگئے ۔ ہماری صفوں میں جنگ کے چوتھے دن تک صرف ایک مجاہد شہید اور 6زخمی ہوگئے ۔ دشمن کا ایک ٹینک اور کچھ رینجر گاڑیاں بھی تباہ ہوگئیں ۔

سوال :    آپ اس آپریشن کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟نیز بتایئے کہ  یہ آپریشن کتنا اہم ہے ؟

جواب :   ہمارے خیال میں یہ آپریشن اس لیے زیادہ اہم ہے کہ دہراوود کا وہ علاقہ جہاں جارحیت پسندوں نے بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے ، وہاں اربکیوں کو پیدا کیا اور کیمپ بنائے یہاں تک کہ دشمن کی یہاں زیادہ موجودگی کی وجہ سے گذشتہ چند سالوں میں یہاں مجاہدین کوئی موثر کارروائی نہ کرسکے تھے مگر اب جب مجاہدین یہاں اتنی بڑی سطح کا آپریشن کررہے ہیں ، علاقے فتح کررہے ہیں یہ ایک بڑی تبدیلی اور فتح ہے ۔ دوسری بات یہ کہ آسٹریلیائی اور امریکی فوج کو  اس علاقے میں داخلی فوجیوں اور اربکیوں پر پورا اعتماد تھا کہ ان کی انخلاء کے بعد یہ لوگ علاقے پر کنٹرول قائم رکھ سکیں گے مگر ان کارروائیوں نے یہ بات واضح کردی کہ داخلی فوجی اور اربکی مجاہدین کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔

سوال :    اروزگان کے دیگر علاقوں میں امسال جہادی حالات اور مجاہدین کی کارروائیاں کیا اہمیت رکھتی ہیں ، کیا  ماضی کی بہ نسبت کوئی پیش رفت ہوئی ہے ؟

جواب:   جی ہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ماضی کی بہ نسبت واضح پیش رفت سامنے آئی ہے ۔پہلے دشمن کے کیمپ زیادہ تھے ، بہت سے علاقوں پر مجاہدین کا قبضہ مستحکم نہیں تھا ۔ مجاہدین اگر کہیں حملہ کرتے تو بہت جلد وہاں فضائی قوت پہنچ جاتی جس سے مجاہدین کی پیش رفت مسائل کا شکار تھی ۔ مجھے یاد ہے چند سال قبل جب ہم کسی چیک پوسٹ پر حملہ کرتے تو گنتی کے دس یا پندرہ منٹوں میں خارجی فوجیوں کے ہیلی کاپٹرز وہاں پہنچ جاتے ۔ مگر اب الحمد للہ خارجی شکست کے بعد بہت سے علاقوں سے بھاگ گئے ہیں ، مجاہدین کی تعداد ماضی کی بنسبت بہت زیادہ ہوگئی ہے ۔ چارچینو ، خاص اروزگان ، چینارتو ، چوری اور گیزاب کے علاقوں میں بہت سے علاقے مجاہدین کے زیر کنٹرول ہیں ۔ روزگان کا وہ ضلع جہاں دشمن کی قوت سب سے زیادہ مضبوط تھی وہ یہی ضلع دہراوود ہے مگر اب یہاں مجاہدین گروپوں کی شکل میں گھوم رہے ہیں بہت سے علاقے ان کے زیر کنٹرول ہیں ۔

اروزگان کے مرکز میں کچھ عرصہ قبل دشمن کے بڑے مرکز پر فدائی حملہ ہوا جہاں دشمن کے بہت سے کمانڈروں سمیت امریکیوں کے خاص ساتھی مطیع اللہ عسکر کے درجنوں فوجی ہلاک ہوگئے ۔ اس کامیاب حملے سے دشمن کی قوت اور بھی کمزور ہوگئی ۔

سوال :   افغانستان میں جہادی کارروائیوں کے ساتھ دعوت وارشاد کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ امارت اسلامیہ کی کوشش ہوتی ہے دشمن کے افراد کو دعوت کے ذریعے دشمنی اور مخالفت سے دستبردار ہونے پر آمادہ کردیں۔ اروزگان میں یہ سلسلہ کس طرح چل رہا ہے ؟

جواب :   میں  پورے اطمینان سے کہہ سکتا  ہوں کہ صوبہ اروزگان ان صوبوں میں سے ہے جس میں دعوت وارشاد پروگرام بہت کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے ۔ ہمارے علاقے میں صرف ایک سال پہلے اس بات پر کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں تھا کہ دشمن کی صف میں  کھڑے لوگ بھی مخالفت سے دستبردار ہوجائیں گے ۔ مگر جس دن دعوت وارشاد کے کام کا آغاز ہوا گذشتہ چند مہینوں میں دشمن کے بڑے بڑے کمانڈر اپنے ساتھیوں سمیت دشمن کی صفوں سے باہر آرہے ہیں اور اپنے وسائل اور اسلحے مجاہدین کے حوالے کررہے ہیں ۔

اس دعوتی تحریک نے دشمن کو بھی بہت زیادہ گھبراہٹ کا شکار کردیا ہے ، اس لیے کہ یہاں کئی بار ایسا ہوا ہے کہ دشمن کی مکمل چیک پوسٹیں ہتھیار ڈال چکی ہیں ۔ اسی طرح اروزگان کے دیگر اضلاع میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے جس میں دشمن کے افراد گروپوں کی شکل میں ہتھیار ڈال رہے ہیں

میرے انداز ے کے مطابق گذشتہ ایک سال میں اروزگان میں دشمن  کے 400سے زائد افراد ہتھیار ڈال چکے ہیں جو یقیناًمجاہدین کی بڑی کامیابی ہے ۔

سوال :   آپ کے خیال میں دشمن کے افراد ہتھیار کیوں ڈال رہے ہیں ؟ اور اگر یہ سلسلہ مزید جاری رہا تو دونوں جانب اس کے اثرات کیا ہوں گے ؟

جواب :   جہاں تک میرا خیال ہے پہلی مرتبہ جب خارجی دشمن افغانستان آیا تو اس کا پروپیگنڈہ انتہائی مضبوط اور متاثر کن تھا جس سے بہت سے کوتاہ نظر لوگ ان کے دھوکے میں آکر ان سے مل گئے ۔ مگر وقت گذرنے کے ساتھ بہت سے حقائق لوگوں پر واضح ہوگئے ، یہاں تک کہ دشمن کی صفوں میں کھڑے افغان بھی یہ جان گئے کہ یہ خارجی دشمن افغانستان پر جارحیت کرکے یہاں آئے ہیں ، یہ لوگ افغانستان کی تعمیر نو یا خوشحالی کے لیے نہیں آئے بلکہ یہ ان کے اپنے شیطانی اہداف ہیں ۔

کرزئی حکومت کے پاس کوئی اختیار نہیں بلکہ یہ ایک کٹھ پتلی ہے اور اس کے مقابلے میں لڑنے والے مجاہدین راہ حق کے وفادار اور سچے جنگجو ہیں ۔ اب لوگوں پر حق وباطل خوب واضح ہوگیا ہے اس لیے یہ لوگ نہیں چاہتے کہ کفر کی صف میں کھڑے ہوجائیں ۔

ہمارے خیال میں اگر یہ سلسلہ اختیارات اور اقتدار کی منتقلی کے دوران جاری رہاتو آخر میں اسلامی تحریک  کے لیے بہت اچھے اور جارحیت پسندوں کے لیے انتہائی نقصان دہ نتائج دے گا ۔ اسی لیے اب جارحیت پسندوں نے افغانستان سے انخلاء کا سلسلہ شروع کردیا ہے ۔ انہیں اس بات کا یقین  ہے کہ ان کی ذمہ داریاں کرائے کے افغان فوجی نبھائیں گے ، اگر افغان فوجی اپنا رخ اسی طرح بدلتے رہے اور مجاہدین کی صفوں میں شامل ہوتے رہے تو مغرب کا سارا منصوبہ تباہی کا شکار ہوجائے گا ۔

سوال :   آخرمیں آپ افغان بھائیوں کو  ایک مجاہد کی حیثیت سے کیا پیغام دینا چاہیں گے ؟

جواب :  ایک مجاہد کی حیثیت سے میرا پیغام دشمن کی صف میں کھڑے لوگوں کے لیے یہ ہے کہ وہ اپنے کردار پر ایک بار پھر نظر ثانی کریں ۔ یہ لوگ جو کفر کی صف میں کھڑے ہیں اور کفار کی خدمت کررہے ہیں انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ یہ دنیا اور آخرت میں ان کی تباہی کا راستہ ہے اس لیے بہتر یہ ہے کہ وہ اپنے نجات کی فکر کریں اور اپنے آپ کو تباہی سے بچائیں ۔

یہ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ مغربی جارحیت پسند افغانستان سے نکلنے لگے ہیں ، تو اس سے قبل کہ اپنے عوام کے انتقام کا شکار ہوجائیں اور خدانخواستہ باطل کی راہ میں اپنی زندگی ہارجائیں انہیں چاہیے اپنے برے اعمال سے تائب  ہوکر عملی طورپر کافروں کی صف سے نکل آئیں ۔اگر انہیں خدشہ ہے کہ مجاہدین انہیں نقصان پہنچائیں گے تو انہیں اطمینان ہونا چاہیے جس طرح ان کے دوسرے ساتھی جو ان سے قبل دعوت وارشاد کمیشن کے ذریعے مجاہدین سے مل گئے اب ان کی جان ومال محفوظ ہے ان کی بھی جان ،مال اور عزت کی حفاظت کی ضمانت دی جائے گی۔