اشرف غنی کی غیر قانونی تقرری اور درپیش چیلنجز

تحریر: سیف العادل احرار ایک سال کی تاخیر کے بعد افغانستان میں نام نہاد صدارتی انتخابات ہوئے جس میں 18 نامزد امیدواروں نے حصہ لیا، افغانستان کی تاریخ کے بدنام، دھاندلی زدہ اور متنازع الیکشن کے پانچ ماہ گزرنے کے بعد گزشتہ روز الیکشن کمیشنر نے صدارتی الیکشن کے نتائج کا اعلان کر دیا جس […]

تحریر: سیف العادل احرار
ایک سال کی تاخیر کے بعد افغانستان میں نام نہاد صدارتی انتخابات ہوئے جس میں 18 نامزد امیدواروں نے حصہ لیا، افغانستان کی تاریخ کے بدنام، دھاندلی زدہ اور متنازع الیکشن کے پانچ ماہ گزرنے کے بعد گزشتہ روز الیکشن کمیشنر نے صدارتی الیکشن کے نتائج کا اعلان کر دیا جس کے مطابق اشرف غنی صدر اور ڈاکٹر عبداللہ دوسرے نمبر پر رہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اشرف غنی کا دوبارہ انتخاب قانونی لحاظ سے قابل قبول ہے یا جمہوری اصولوں کے مطابق غیر قانونی ہے؟ افغانستان کی موجودہ آبادی ساڑھے تین کروڑ سے زائد ہے جس میں 90 لاکھ افراد کے نام ووٹر لسٹوں میں درج ہیں، الیکشن کمیشن نے ملک میں 28 ستمبر کو الیکشن کا اعلان کیا جبکہ امارت اسلامیہ نے نام نہاد الیکشن کو مسترد کرتے ہوئے عوام سے اپیل کی کہ وہ ملک پر قابض افواج کی موجودگی میں نام نہاد الیکشن میں حصہ نہ لیں بلکہ الیکشن سے بائیکاٹ کریں، اشرف غنی نے الیکشن مہم کے دوران بھاری رقم خرچ کرتے ہوئے اہم قومی اور سیاسی رہنماوں کو لاکھوں ڈالر اور دیگر سرکاری مراعات سے نوازا، ملک کے چند اہم اور بڑے شہروں میں جلسے کئے اور میڈیا پر بڑا پروپیگنڈہ کیا لیکن عوام نے امارت اسلامیہ کی اپیل پر عمل درآمد کرتے ہوئے جعلی اور دھاندلی زدہ الیکشن سے بائیکاٹ کیا، مجموعی طور پر 18 لاکھ افراد نے ووٹ کاسٹ کیا، سابقہ تین الیکشن کے مقابلے میں اس الیکشن کا ٹرن آوٹ انتہائی کم تھا، نوے لاکھ افراد میں سے تمام تر دھاندلی اور دھونس دھمکیوں کے باجود محض 18 لاکھ افراد کی شرکت اور 70 لاکھ رجسٹرڈ افراد کا الیکشن سے بائیکاٹ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ عوام نے الیکشن پر عدم اعتماد کا اظہار کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ عوام نے امریکی جارحیت، موجودہ فرسودہ اور جمہوری نظام اور اشرف غنی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ۔
اشرف غنی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ 9 لاکھ افراد اشرف غنی کو ووٹ دیا ہے اور وہ منتخب صدر ہیں لیکن وہ یہ بھول گئے ہیں کہ جمہوریت میں فیصلے اکثریت کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور اسی جمہوری اصولوں کے مطابق عوام کی اکثریت نے الیکشن سے بائیکاٹ کیا، تین کروڑ چالیس لاکھ افراد میں سے 18 لاکھ افراد نے الیکشن میں حصہ لیا اور دھاندلی کے باوجود محض 9 لاکھ افراد نے اشرف غنی کو ووٹ دیا جو 5 فیصد بنتا ہے جبکہ 70 لاکھ رجسٹرڈ اور مجموعی طور پر تین کروڑ بیس لاکھ افراد نے امارت اسلامیہ کی اپیل پر نام نہاد الیکشن سے بائیکاٹ کر دیا جس کا مطلب ہے کہ انہوں نے امیرالمومنین شیخ ھبۃ اللہ حفظہ اللہ کو ووٹ دیا اب جمہوری اصولوں کے مطابق پانچ فیصد ووٹ لینے والے کے بجائے 90 فیصد عوام کے حقیقی ترجمان اور ملک کے سربراہ امیرالمومنین حفظہ اللہ ہی ہیں ۔
اس کے علاوہ ملک کی تمام اہم شخصیات اور سیاسی جماعتوں نے اشرف غنی کی کامیابی کو مسترد کرتے ہوئے دوبارہ نئے انتخابات کا مطالبہ کر دیا، جبکہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے اعلان کیا کہ وہ بائیومیٹرک ووٹوں کے مطابق ملک کے نئے صدر منتخب ہو گئے ہیں اور وہ تمام افغانوں پر مشتمل نئی حکومت تشکیل دیں گے اور جلد حلف اٹھائیں گے، انہوں نے دعوی کیا کہ تین لاکھ جعلی اور مسترد شدہ ووٹوں کو شمار کر کے اشرف غنی کو ملک پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن ہم انہیں ملک پر مسلط ہونے کی اجازت نہیں دیں گے، تجزیہ کاروں نے امریکہ اور طالبان کے درمیان امن عمل کی کامیابی کے موقع پر اشرف غنی کی کامیابی کے اعلان کو سازش قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ امن عمل کی راہ میں اشرف غنی اور ان کی ٹیم واضح طور پر رکاوٹ ہے، عوام نے گزشتہ ایک سال کے دوران دیکھا کہ اشرف غنی نے متعدد بار امن عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ۔
اشرف غنی کی گزشتہ پانچ سالہ مدت اور اٹھارہ سال کی نام نہاد کامیابیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔
پانچ سال قبل جب امریکہ کے سابق وزیر خارجہ جان کیری نے اشرف غنی کو کابل انتظامیہ کا سربراہ مقرر کیا اس وقت سے آج تک ملک میں حملہ آوروں اور کابل انتظامیہ کی جانب سے قتل عام، کرپشن اور تباہی کا سلسلہ جاری ہے، تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق صرف پچھلے 2019 میں جب اشرف غنی کابل انتظامیہ کے سربراہ تھے ، 2291 واقعات رونما ہوئے، جن میں سے 2079 واقعات قابض امریکی فوج اور افغان فورسز کی جانب سے پیش آئے ۔
یہ صرف گذشتہ سال کے واقعات ہیں جو اشرف غنی کے ایک سال کے دور حکومت کے عرصے میں رونما ہوئے، اگر غنی کے دور کے تمام واقعات اور ہلاکتوں سے متعلق درست اعداد و شمار کو قلم بند کیا جائے تو اس مختصر تحریر میں ان کو زیر قرطاس لانا ممکن نہیں ہے ۔
اشرف غنی کے پانچ سالہ دور اقتدار میں ہزاروں نہتے شہری شہید ہوئے اور کئی دلخراش واقعات رونما ہوئے یہاں تک کہ قابض امریکہ نے مادر بم کا تجربہ بھی افغانستان میں کیا لیکن اشرف غنی نے کسی ایک واقعہ کی مذمت نہیں کی، کیا ملک کے منتخب صدر عوام کے قتل عام پر اس طرح خاموش ہوتے ہیں وہ افغانستان کے نمائندہ ہیں یا امریکہ کے جو ہر معاملے میں امریکہ کے وکیل بن کر اس کے مفادات کے تحفظ کے لئے سامنے آتے ہیں، بلکہ انہوں نے تو ایک بار واضح کہا کہ چار سال کے دوران ہمارے 45 ہزار فوجی اور پولیس اہل کار واشنگٹن اور نیویارک کے تحفظ کے لئے ہلاک ہوئے، ہماری فورسز کی قربانیوں کی وجہ سے امریکہ میں دھماکے نہیں ہورہے ہیں اس کا مطلب ہے کہ وہ امریکہ کی جنگ لڑرہے ہیں اور امریکہ کا نمائندہ ہے لہذا انہیں ملک کا سربراہ نہیں کہلایا جا سکتا ۔
گزشتہ پانچ سال کے دوران حملہ آوروں اور کابل انتظامیہ نے ہزاروں نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا جن میں خواتین ، بچے ، بزرگ ، علماء کرام، قبائلی عمائدین ، نوجوان ، حفاظ کرام ، اسکول کے طلباء و طالبات شامل ہیں، مجموعی طور پر انہوں نے شادی کی تقریبات اور جنازوں کو بھی معاف نہیں کیا، بازاروں ، بستیوں، شہری مکانات ، نجی املاک ، سرکاری اداروں ، اسپتالوں ، دینی مدارس ، مساجد اور اسکولوں پر فضائی حملے کئے اور ہر جگہ بڑی تباہی مچا دی ہے ۔
ان کے دور اقتدار میں ملک میں بدامنی، جرائم، کرپشن، لوٹ مار، منشیات کی پیداوار اور غربت میں کئی گنا اضافہ ہوا، ملک میں نئے ترقیاتی منصوبے شروع نہیں ہوئے، ملک میں فرقہ وارانہ سرگرمیاں اور داعش جیسے فتنے سامنے آئے، سیکورٹی معاہدے کے نام پر ملک کو نیلام کرنے کا معاہدہ کیا گیا ۔
چوری ، قتل وغارت گری اور فحاشی اتنی عام ہوگئی ہے کہ ایوان صدر سے بھی جنسی تشدد کی اطلاعات آرہی ہیں، ملک میں سیاسی کشیدگی اور بحران جنم لے رہے ہیں ۔ بدعنوانی اور کرپشن کی وجہ سے افغانستان نے عالمی سطح پر ریکارڈ قائم کیا ۔
اشرف غنی کی کامیابی کا اعلان اس وقت سامنے آیا جب امریکہ کے ساتھ طالبان کے مذاکرات آخری مراحل سے گزر رہے ہیں اور امکان ہے کہ جلد ہی ان کے مابین ایک معاہدہ ہو جائے گا جس کے نتیجے میں امریکیوں کو افغانستان چھوڑنا ہوگا ۔
ایسے نازک وقت پر اشرف غنی کی کامیابی کے اعلان کا مطلب جنگ کا دوام ہے اور امریکی حکام جنگ کے میدان کو ایک بار پھر گرم رکھنا چاہتے ہیں جس کے نتیجے میں امریکیوں اور ان کے عوام کو بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا، اشرف غنی کی کامیابی کا اعلان محض امت مسلمہ اور افغان قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش ہے ۔
میں افغان مجاہد عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اشرف غنی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور امن کے دشمن اور افغانوں کے قاتل کو ملک پر مسلط ہونے کے خلاف احتجاج کریں ۔