افغانستان اب حملہ آوروں کے کھیل کا میدان نہیں ہے

آج کی بات نیٹو کے رکن ممالک نے گزشتہ روز ایک اجلاس میں ایک بار پھر افغانستان پر 20 سالہ قبضہ جاری رکھنے کے اپنے یکطرفہ فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ وہ فوج کے انخلا کے بعد بھی کابل ایئرپورٹ کو اپنے کنٹرول میں رکھیں گے اور اس طرح وہ افغانستان کے ساتھ […]

آج کی بات
نیٹو کے رکن ممالک نے گزشتہ روز ایک اجلاس میں ایک بار پھر افغانستان پر 20 سالہ قبضہ جاری رکھنے کے اپنے یکطرفہ فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ وہ فوج کے انخلا کے بعد بھی کابل ایئرپورٹ کو اپنے کنٹرول میں رکھیں گے اور اس طرح وہ افغانستان کے ساتھ انسانی اور سفارتی تعلقات قائم رکھیں گے۔
ترکی نیٹو اتحاد کا ممبر ہے، اس نے کابل ایئر پورٹ پر سیکیورٹی فراہم کرنے اور افغانستان میں اپنی فوج برقرار رکھنے کے لئے اپنی تیاری کا عندیہ دیا۔
ایک طرف امریکہ کی سربراہی میں نیٹو اتحاد میں شامل ممالک نے دوحہ میں افغانستان پر 20 سالہ غیر قانونی قبضے کو ختم کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں اور دوسری طرف وقتا فوقتا ایسے من پسند فیصلوں کا اعلان کرتے ہیں جو افغان عوام کی مرضی اور خودمختاری کی صریح خلاف ورزی ہے۔
افغانوں کے ساتھ سفارتی اور دوستانہ تعلقات کو قائم رکھنے کے لئے فوج کی تعیناتی اور افغانستان کے ہوائی اڈوں پر کنٹرول حاصل کرنا غیر معقول کوشش ہے جو افغان عوام کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔
نیٹو اتحاد اگر واقعی افغان عوام کے ساتھ دوستانہ سفارتی تعلقات کو برقرار رکھنا چاہتا ہے تو مالی اور سفارتی ذرائع استعمال کرنا چاہئے، نہ کہ فوج کو یہاں برقرار رکھے۔
شاید نیٹو اس عنوان کے تحت اپنے علاقائی حریفوں کا مقابلہ کرنے کے لئے افغانستان کو نیابتی جنگ کا میدان بنانا چاہتا ہے جس کو افغانستان نہ تو برداشت کرتا ہے اور نہ ہی اس میں دلچسپی رکھتا ہے۔
امارت اسلامیہ افغانستان نے بار بار قابض افواج پر یہ بات واضح کردی ہے کہ افغان سرزمین میں کسی ایک غیر ملکی فوجی کو بھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔
البتہ افغانستان دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ بہتر سفارتی اور دوستانہ تعلقات کا خواہاں ہے اور اس میں دلچسپی رکھتا ہے تاہم غیر ملکی افواج کی موجودگی ناقابل برداشت ہے اگرچہ ایک ہی فوجی کیوں نہ ہو۔
جس مقصد کے لئے بھی غیر ملکی فوجی یہاں موجود رہنے کی کوشش کریں گے، افغان عوام اپنے خون کی قیمت پر ان کا مقابلہ کریں گے۔
ترکی جیسے اسلامی ملک کو بھی اتنی بڑی غلطی نہیں کرنی چاہئے، جو ترکی کے مفاد میں ہے اور نہ ہی افغان عوام کے مستقبل کے لئے اچھا ہے، کسی اسلامی ملک کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ کافر حملہ آوروں کی نمائندگی سے کسی دوسرے مسلمان برادر ملک کے ساتھ دشمنی کا راستہ اختیار کرے۔
امارت اسلامیہ نے یہ عہد کیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال ہوگی اور نہ ہی وہ کسی اور کو ہماری سرزمین میں فوج رکھنے کی اجازت دے گی یا افغان سرزمین کو دوسروں کے ساتھ رقابت کا میدان بنائے گی۔