افغانستان میں ترک افواج کی جارحیت کے تسلسل کے بارے میں امارت اسلامیہ کا اعلامیہ

سب کو معلوم ہے کہ دوحہ معاہدے کی بنیاد پر وطن عزیز سے تمام بیرونی افواج کے انخلا کا فیصلہ ہوا ہے، اقوام متحدہ اور دنیا نے توثیق کی ہے،معاہدے پر دستخط کی تقریب کے وقت ترک وزیرخارجہ سمیت اکثر ممالک نے فیصلے کی حمایت اور خیرمقدم کیا۔ چونکہ اب ترکی کے حکمرانوں نے امریکی […]

سب کو معلوم ہے کہ دوحہ معاہدے کی بنیاد پر وطن عزیز سے تمام بیرونی افواج کے انخلا کا فیصلہ ہوا ہے، اقوام متحدہ اور دنیا نے توثیق کی ہے،معاہدے پر دستخط کی تقریب کے وقت ترک وزیرخارجہ سمیت اکثر ممالک نے فیصلے کی حمایت اور خیرمقدم کیا۔
چونکہ اب ترکی کے حکمرانوں نے امریکی مطالبے اور فیصلے پر ہمارے ملک میں اپنی افواج کی تعیناتی اور جارحیت کے تسلسل کا اعلان کیا،اس سے حوالے سے درج ذیل نکات قابل توجہ ہے ؛
۱- ترکی مسلمان عوام کیساتھ امارت اسلامیہ افغانستان اور افغان قوم کی تاریخی، ثقافتی اور مذہبی روابط ہیں، جارحیت جاری رکھنے سے ترک حکمرانوں کے بارے میں ہمارے ملک میں نفرت اور دشمنی کے جذبے کو بھڑکا دے، جس سے دو طرفہ تعلقات کو نقصان پہنچے گا۔
۲- ترک حکام کا یہ فیصلہ ایک غیرسنجیدہ اقدام ہے اور ہماری قوم ، ملک کی خودمختاری، علاقائی سلامتی اور قومی مفادات کےمنافی عمل ہے، امارت اسلامیہ افغانستان اس منحوس فیصلے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔ کیونکہ اس طرح فیصلے ترک اور افغان اقوام کے درمیان مسائل اور مشکلات کو جنم دیتے ہیں، ہم ترک حکام سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں، کہ فیصلے کو واپس لے،کیونکہ دونوں ممالک کے نقصان میں ہے۔
۳- ہمارے ملک میں غیرملکی افواج کی موجودگی چاہے کسی بھی ملک اور ہر نام سے ہو، وہ جارحیت ہے اور غاصوبوں کیساتھ افغانستان کے پندرہ سو علماء کرام کے اس فتوی کی بنیاد پر سلوک کیا جائےگا، جسے ۱۴۲۲ھ ق بمطابق ۲۰۰۱ء میں جاری کیا تھا۔ جس فتوی کی وجہ سے گذشتہ ۲۰ سالوں سے جہاد جاری ہے۔
۴- ہم ترک مسلمان قوم اور دانشمند سیاستدانوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس فیصلے کے بابت اپنی آواز بلند کریں،کیونکہ یہ فیصلہ ترکی اور افغانستان کسی کے مفاد میں نہیں ہے،بلکہ دونوں مسلمان اقوام کے درمیان مسائل اور مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔
۵- ہماری پالیسی یہ ہے کہ تمام ممالک کیساتھ باہمی تعاون کی بنیاد پر بہتر اور مثبت تعلقات کے خواہاں ہیں، کسی کے امور میں ہم مداخلت کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کو ہمارے امور میں مداخلت کی اجازت دیتے ہیں۔
۶- ہم ترک حکام کو بتاتے ہیں کہ اس طرح غیرسنجیدہ فیصلے کی بجائے بہتر یہ ہے کہ تسلیم شدہ اصولوں کی روشنی میں ایک دوسرے کیساتھ مثبت اور خوشگوار تعلقات استوار کریں، ایک دوسرے کیساتھ تعاون کریں، مشترکہ مسائل اور مفادات کے بارے میں ہمارا سوچ اور مؤقف مشترک ہو۔
۷- ہم کچھ عرصہ سے ترکی حکام سے رابطے میں رہے، ہمارے درمیان متعدد ملاقاتیں ہوئیں، انہوں نے ہمیں یقین دلایا کہ وہ ہماری رضامندی کے بغیر خود ایسا فیصلہ نہیں کرے گا۔چونکہ اب یہ فیصلہ کیا ، تویہ ان کے وعدے منافی عمل ہے۔
۸- اگر ترک حکام اس بارے میں نظرثانی نہ کریں اور ہمارے ملک کی جارحیت کو جاری رکھتا ہے، تو امارت اسلامیہ اور افغان قوم اپنے ایمانی اور قومی ذمہ داری کی رو سے اس کے خلاف اس طرح ڈٹ جائیگی، جس طرح ۲۰ سال تک جارحیت کے مقابلے میں کھڑے تھے اور نتائج کی ذمہ داری اس پر عائد ہوگی، جو دوسروں کے امور میں مداخلت کرتے ہیں اور اس طرح غیرسنجیدہ فیصلے کرتے ہیں۔
امارت اسلامیہ افغانستان
۰۳ ذی الحجہ ۱۴۴۲ ھ ق
۲۲ سرطان ۱۴۰۰ ھ ش
۱۴ جولائی ۲۰۲۱ ء