افغانستان نومبر 2020 میں 

تحریر: احمد فارسی نوٹ: یہ تحریر ان واقعات اور نقصانات پر مشتمل ہے جن کا دشمن نے بھی اعتراف کیا ہے۔ مزید اعداد و شمار دیکھنے کے لئے امارت اسلامیہ کی آفیشل ویب سائٹ کا وزٹ کیجئے۔ ماہ نومبر میں اضلاع اور دشمن کے فوجی اڈوں کی فتوحات، فوجیوں اور پولیس اہل کاروں کی امارت […]

تحریر: احمد فارسی

نوٹ: یہ تحریر ان واقعات اور نقصانات پر مشتمل ہے جن کا دشمن نے بھی اعتراف کیا ہے۔ مزید اعداد و شمار دیکھنے کے لئے امارت اسلامیہ کی آفیشل ویب سائٹ کا وزٹ کیجئے۔
ماہ نومبر میں اضلاع اور دشمن کے فوجی اڈوں کی فتوحات، فوجیوں اور پولیس اہل کاروں کی امارت اسلامیہ میں شمولیت اور دشمن کو ہونے والے نقصانات اور دیگر واقعات درج ذیل سطور میں ملاحظہ فرمائیں۔
افغان فورسز کے نقصانات اور اموات:
یکم نومبر کو کابل میں صوبہ تخار کا کمانڈر اور دو نومبر کو صوبہ میدان وردگ کا سرکاری جج مارے گئے، 5 نومبر کو کابل میں ایک کمانڈو کمانڈر کو مارا گیا، 7 نومبر کو شمالی صوبے بلخ میں ایک اربکی کمانڈر کو ہلاک کیا گیا، اگلے روز کابل میں وزارت دفاع کا ایک افسر ، صوبہ ہرات میں ایک کمانڈر اور پکتیکا میں ایک پولیس افسر ہلاک ہوئے، اسی دن صوبہ فراہ میں ضلع پشترود کے پولیس چیف بھی مارا گیا۔
افغان فورسز کی ہلاکتوں کے سلسلے میں 14 نومبر کو کابل میں صوبہ فاریاب کا ایک کمانڈر اور کمانڈو کمانڈر مارے گئے، 18 نومبر کو صوبہ فاریاب میں جنرل دوستم کا جنگجو کمانڈر ہلاک ہوگیا، اگلے روز صوبہ بدخشاں کے علاقے درواز میں ایک کمانڈر اپنے 21 اہل کاروں سمیت ہلاک ہوگیا، 20 نومبر کو صوبہ بغلان میں ایک کمانڈر اپنے کئی ساتھیوں سمیت ہلاک ہوگیا۔ 26 نومبر کو صوبہ بلخ کے شہر مزار شریف میں ایک اربکی کمانڈر مارا گیا، 28 نومبر کو کابل میں دو موجودہ ججوں کو ہلاک کردیا گیا۔ 30 نومبر کو افغان فوج کا سینئر افسر اور ہرات کے ضلع اوبی کے پولیس چیف ہلاک ہوگئے۔
11 نومبر کو ننگرہار میں دشمن کے دو ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہوئے اور ہرات میں ایک لڑاکا طیارہ گر کر تباہ ہوا، دشمن کے جانی نقصان کی صحیح تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔
نہتے شہریوں پر تشدد اور ان کے نقصانات:
نہتے شہریوں کا جانی و مالی نقصان نومبر میں بھی جاری رہا، 2 نومبر کو صوبہ خوست میں سفاک فوجیوں نے ایک چھاپے کے دوران چار شہریوں کو شہید کر دیا، 3 نومبر کو افغان فورسز کی فائرنگ سے قندوز میں ایک خاندان کے پانچ افراد شہید ہوئے، اسی روز صوبہ پکتیکا میں بھی پولیس کی فائرنگ سے تین شہری جان سے گئے، 8 نومبر کو صوبہ غزنی میں افغان فورسز کے مارٹر حملے میں ایک خاندان کے پانچ افراد شہید ہوگئے، 18 نومبر کو صوبہ قندوز میں افغان فورسز کے بھاری ہتھیاروں کے نتیجے میں 12 شہری شہید ہوگئے۔
22 نومبر کو صوبہ دایکندی میں افغان فورسز کے ایک فضائی حملے میں خواتین اور بچوں سمیت 5 افراد جاں بحق ہوگئے۔ 27 نومبر کو صوبہ بادغیس میں افغان فوج کی بمباری سے ایک خاندان کے 13 افراد شہید ہوگئے۔
مذکورہ بالا واقعات مظلوم اور غریب لوگوں کے خلاف کابل انتظامیہ کے مظالم کی چند مثالیں ہیں۔ شہری اموات کی صحیح تعداد اور واقعات کی تفصیلات امارت اسلامیہ کی آفیشل ویب سائٹ پر شائع ہونے والی خصوصی رپورٹ میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
ہتھیار ڈالنے کا سلسلہ:
16 نومبر کو امارت اسلامیہ نے ایک خبر شائع کی کہ پچھلے ایک مہینے کے دوران دشمن کے 1500 فوجی اور پولیس اہل کار ان کے ساتھ شامل ہوئے ہیں، مجاہدین کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے سلسلے میں یکم نومبر کو قندھار کے ضلع پنجوائی میں دشمن کے 50 اہل کاروں نے مجاہدین کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا اعلان کیا، 3 نومبر کو صوبہ روزگان کے ضلع دہرادون میں 27 فوجی سرنڈر ہوگئے، 6 نومبر کو صوبہ بلخ میں 65 اہل کاروں نے مجاہدین کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور 18 نومبر کو صوبہ روزگان میں کابل انتظامیہ کے 82 فوجیوں اور پولیس اہل کاروں نے مجاہدین کے سامنے سرنڈر ہونے کا اعلان کیا
11 نومبر کو صوبہ ہلمند میں کابل انتظامیہ کے 20 اہل کار مجاہدین کے سامنے سرنڈر ہوئے، 15 نومبر کو صوبہ لغمان میں دشمن کے 10 اہل کار مجاہدین میں شامل ہوئے، 18 نومبر کو قندھار میں 70 فوجیوں نے مجاہدین کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا اعلان کیا، 29 نومبر کو ​​ننگرہار میں 15 اہل کاروں، روزگان میں 22 اور بلخ میں درجنوں اہل کاروں نے مجاہدین کے سامنے ہتھیار ڈا دیئے۔
تقریبا ہر ماہ اوسط طریقے سے کابل انتظامیہ کے 1500 سے زائد اہل کار اور ملازمین مجاہدین میں شامل ہوجاتے ہیں جن کی مکمل فہرست امارت اسلامیہ کے متعلقہ کمیشن کی جانب سے مہینے کے آخر میں شائع کی جاتی ہے۔
الفتح آپریشن:
یکم نومبر کو مجاہدین نے تخار میں کمانڈوز پر ہلاکت خیز حملہ کیا جس میں متعدد کمانڈوز ہلاک اور زخمی ہوگئے، 3 نومبر کو قندوز میں مجاہدین نے سرحدی فورس پر حملہ کیا جس میں دشمن کے درجنوں اہل کار ہلاک اور زخمی ہوئے، اگلے روز امارت اسلامیہ کے مجاہدین نے قندوز میں دشمن کے ایک اہم فوجی اڈے کو تباہ کرنے کا اعلان کیا جو عام شہریوں کو ہراساں کرنے کا باعث بنا ہوا تھا۔ 9 نومبر کو قندھار میں بارڈر پولیس پر کار بم دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں 50 پولیس اہلکار ہلاک اور زخمی ہوگئے۔ 13 نومبر کو مجاہدین نے صوبہ قندوز میں دشمن کا ایک اور فوجی اڈہ تباہ کردیا، اسی روز صوبہ روزگان کے ضلع دہراود کو مجاہدین نے فتح کرنے کا اعلان کیا، 16 نومبر کو قندوز کے ضلع دشت ارچی کا بازار مجاہدین کے زیر کنٹرول آیا اور 29 نومبر کو صوبہ غزنی میں ایک فدائی مجاہد نے دشمن کے فوجی اڈے پر حملہ کیا جس میں 50 کے قریب فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے۔
غیر ملکی فوجیوں کی واپسی:
17 نومبر کو نیٹو نے ایک بار پھر افغانستان سے اپنی فوجوں کے انخلا کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ “کوئی بھی ملک زیادہ عرصہ تک افغانستان میں نہیں رہنا چاہتا ہے،” بیان میں کہا گیا ہے۔ اگلے روز پینٹاگون نے بھی ایک بیان میں اعلان کیا کہ وہ آئندہ سال کے جنوری تک اپنی فوج کی تعداد کو کم کرکے 2500 کردی جائے گی۔ 19 نومبر کو برطانیہ نے بھی اعلان کیا کہ وہ افغانستان سے فوجی واپس بلائیں گے، 25 نومبر کو جرمنی نے بھی قندوز سے اپنی فوج واپس بلانے کا اعلان کیا، 28 نومبر کو قابض افواج نے ملک کے مختلف حصوں اور صوبوں میں پانچ اڈوں کو بند کرنے کا اعلان کیا۔