افغانستان کے مسئلے میں امارت اسلامیہ کی مرکزی حیثیت

ہفتہ وار تبصرہ افغان مسئلہ ایک نازک موڑ پر ہے۔ اگر ایک طرف مسئلہ کا بیرونی جہت کافی حد تک حل ہوچکا ہے۔ دوحہ معاہدے کی بنیاد پر بیرونی افواج کی اکثریت ملک سے چلی گئی اور دیگر انخلا کی حالت میں ہے۔ دوسری جانب ملکی سطح پر فوجی تبدیلیوں کیساتھ ساتھ امن عمل میں […]

ہفتہ وار تبصرہ
افغان مسئلہ ایک نازک موڑ پر ہے۔ اگر ایک طرف مسئلہ کا بیرونی جہت کافی حد تک حل ہوچکا ہے۔ دوحہ معاہدے کی بنیاد پر بیرونی افواج کی اکثریت ملک سے چلی گئی اور دیگر انخلا کی حالت میں ہے۔ دوسری جانب ملکی سطح پر فوجی تبدیلیوں کیساتھ ساتھ امن عمل میں ایک بار پھر جان آگئی ہے اور طویل عرصے کے بعد مملکت قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امارت اسلامیہ کے سیاسی نمائندوں نے ایک مرتبہ پھر مخالف فریق کے مذاکراتی ٹیم سے بات چیت اور اجلاسوں کا آغاز کیا ہے۔
مذاکرات کا یہ سلسلہ ایسے وقت میں شروع ہورہا ہے، جب امارت اسلامیہ افغان مسئلہ کے اہم ترین اور مرکزی قوت کی حیثیت سے ابھر ی ۔کیونکہ اس وقت افغانستان کی اکثریت تقریبا 85 فیصد رقبے پر امارت اسلامیہ کے مجاہدین مکمل طور پر حاکم ہیں۔ ملک کے بیشتر تجارتی گزرگاہیں مثلا طورغونڈی، اسلام قلعہ، سپین بولدک، ابونصر فراہی، ڈنڈ پھٹان، آئی خانم، شیرخان وغیرہ پر امارت اسلامیہ کے مجاہدین کا مکمل کنٹرول ہے۔ قومی شاہراہوں پر امارت اسلامیہ کے مجاہدین کا قبضہ ہے، اسی طرح اکثر صوبوں کے مراکز مجاہدین کے شدید محاصرے میں ہے اور اگر مجاہدین اس پر قبضہ کرنا چاہتا ہے، تو بہت ہی آسانی سے اس پر کنٹرول حاصل کرسکتا ہے۔
چونکہ افغانستان کی اکثریت آبادی امارت اسلامیہ کے ماتحت علاقوں میں زندگی بسر کررہا ہے اور مجاہدین عوام کو امن اور سلامتی کے محفوظ ماحول مہیا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔اس کے علاوہ امارت اسلامیہ تشکیل کے لحاظ سے بھی ایک فعال حکومت کے مؤقف میں ہے، پڑوسی اور خطے کے ممالک بھی امارت اسلامیہ کو افغانستان اور افغان قوم کے نمائندہ قوت کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ حالیہ فتوحات کے بعد عالمی اور علاقائی سطح پر امارت اسلامیہ کی وقار مضبوط تر ہوئی ہے اوریہ حقائق کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔
اس کو مدنظر رکھتے ہوئے حالات یہ مطالبہ کررہا ہے کہ کابل انتظامیہ اپنے اس دعوے اور بات کو فراموش کردیں،کہ خود کو افغانستان کی قانونی حکومت اور امارت اسلامیہ کو ایک گروہ سمجھتی ہے۔ پھر اسی بنیاد پر امارت اسلامیہ سے مطالبہ کرتی ہے کہ ان کے سامنے سرنڈر اور اپنی تشکیل کو کابل انتظامیہ میں مدغم کردیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت کابل انتظامیہ سے امارت اسلامیہ ہر لحاظ سے بہتر پوزیشن میں ہے۔جیسا کہ افغانستان کے اکثریت علاقوں پر امارت اسلامیہ کی حکمرانی ہے، اسی طرح عوام میں اس کی حمایت اور اعتماد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ خطے اور دنیا کے ممالک بھی امارت اسلامیہ کو ایک حقیقی، ناقابل شکست اور آزمائشوں سے کامیاب نکلنے والی قوت کی نگاہ دیکھ رہا ہے۔ اسی لیے مخالف ممالک مجبور ہوئے کہ ماضی کی دشمنی کو پس پشت ڈال دیں اور امارت اسلامیہ کیساتھ افہام وتفہیم اور مثبت تعامل کے طریقے کو اختیار کریں۔
مذاکرات کا جاری عمل تب کامیاب ہوسکتا ہے،جب تمام مخالف فریق حقائق کے سامنے جھک جائے۔ غیرضروری قوت آزمانے اور اجنبی کے گلابی الفاظ اور باتوں سے دستبردار ہوجائیں۔ جیسا کہ امارت اسلامیہ کا افغان تنازعہ میں مرکزی کردار اور حیثیت ہے،اسی سطح پر اپنی ذمہ داری کو بھاری اور اہم ترین سمجھتی ہے۔ اسی لیے ایک طرف جنگ کے میدان میں دعوت اور پرامن وابستگی کی پالیسی کو اپنا رکھی ہے، تاکہ خونریزی کی روک تھام ہوجائے، دوسری جانب پوری سنجیدگی اور خلوص کیساتھ مذاکراتی میز کی طرف بڑھ رہے ہیں،تاکہ اگر اللہ چاہے اور یہ مسئلہ بات چیت اور افہام وتفہیم کے ذریعے حل ہوجائے۔