اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی سیکریٹری امینہ محمد کی سربراہی میں اقوام متحدہ کے اعلی سطحی وفد سے افغان وزیر خارجہ مولوی امیرخان متقی کی گفتگو

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی سیکریٹری امینہ محمد کی سربراہی میں اقوام متحدہ کے اعلی سطحی وفد سے افغان وزیر خارجہ مولوی امیرخان متقی کی گفتگو: ایک وزیر خارجہ کی حیثیت سے میری ذمہ داری ہے کہ مختلف امور پر آپ کو بھی اطمینان دلاؤں اور اپنی حکومت اور عوام کو بھی قائل کروں۔ […]

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی سیکریٹری امینہ محمد کی سربراہی میں اقوام متحدہ کے اعلی سطحی وفد سے افغان وزیر خارجہ مولوی امیرخان متقی کی گفتگو:
ایک وزیر خارجہ کی حیثیت سے میری ذمہ داری ہے کہ مختلف امور پر آپ کو بھی اطمینان دلاؤں اور اپنی حکومت اور عوام کو بھی قائل کروں۔
آپ ہی اقوام متحدہ یا عالمی برادری کے ایسے اقدامات کی نشاندہی کرکے دیجیے جن سے میں اپنی حکومت اور عوام کو اطمینان دلاسکوں۔
افغانستان پر پابندیاں عائد ہیں، بینکنگ سیکٹر منجمد ہے، ہمارے تاجروں کو کئی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے۔ یہاں تک کہ غذائی اجناس اور ایندھن جیسی بنیادی اشیائے ضرورت کی خریداری کے رقوم کی منتقلی نہیں کی جاسکتی۔
ایک مسئلہ تعلیم کا ہے۔ یہاں اگر ایک ملین افراد کے لیے تعلیم کے دروازے بند ہیں تو 9 ملین جو تعلیم حاصل کررہے ہیں ان سے کیوں تعاون نہیں کیا جارہا ہے۔ یہ بھی تو انسان ہیں، تعلیم ان کی بھی ضرورت ہے۔ اس میں بھی تو طلبہ و طالبات شامل ہیں۔ افغان حکومت کو تسلیم کرنے مسئلہ ہے۔ اقوام متحدہ میں افغانستان کا مستقل مندوب اب تک ایسا شخص ہے جو نہ عوام کا نمائندہ ہے، نہ حکومت کا نمائندہ ہے نہ اور کسی فریق کا نمائندہ ہے۔
یہاں (افغانستان میں )بہت سے مثبت اقدامات کیے گئے ہیں۔ یہاں امریکہ اور ناٹو موجود تھے لیکن امن و امان قائم کرنے میں ناکام رہے۔ آج ہم اکیلے امن و امان قائم کیے ہوئے ہیں۔ ان تمام گروپوں کا راستہ روک دیا گیا جو کبھی عالمی دنیا کے لیے خطرہ اور چیلنج بنے ہوئے تھے۔ اس کی نہ پذیرائی ہوئی اور نہ کسی نے اس حوالے سے تعاون کیا۔
منشیات جس کی پیداوار میں افغانستان دنیا بھر میں پہلے نمبر پر تھا اب اس کی پیداوار کا گراف صفر تک پہنچا دیا گیا ہے۔ کسی نے اس حوالے سے ہمارے کسانوں سے تعاون نہیں کیا۔
گذشتہ بیس سالوں میں چالیس لاکھ افراد منشیات کے عادی بن چکے ہیں، ان کے علاج معالجے کی کوششیں جاری ہیں۔ انہیں جمع کرکے مراکز میں زیر نگرانی رکھا جارہا ہے۔ لیکن اس حوالے سے کوئی تعاون نہیں ہورہا۔
دوحہ معاہدے میں یہ اتفاق ہوا تھا کہ امارت اسلامیہ کے رہنماؤں کے نام بلیک لسٹ سے نکالے جائیں گے، اب تک نہیں نکالے گئے۔ جب تک ہمارے رہنما باہر ممالک نہیں جاسکیں گے، وہاں ملاقاتیں اور مذاکرات نہیں ہوں گے، اقوام متحدہ اور عالمی دنیا سے بات چیت نہیں ہوگی تو تعلقات میں بہتری کیسے آئے گی۔
انسانی بنیادوں پر ملنے والی امداد کی تقسیم میں ہم نے گذشتہ ڈیڑھ سال میں کتنا بہترین تعاون کیا۔ ان علاقوں میں بھی امداد پہنچادی گئی جہاں پچھلے بیس سال میں نہیں پہنچی۔ اب اگر اس میں کچھ رکاوٹیں آتی ہیں تو اس کو برداشت کرکے، اس میں کو مل کر حل کریں۔