امارتِ اسلامیہ کے ترجمان جناب مجاہد صاحب کی گفتگو کے چندنکات

تحریر:سید عبدالرزاق رواں دنوں قطر میں بین الافغان مذاکرات کی دونوں ٹیمیں ایک بیس روزہ وقفے پر اتفاق کرچکی ہے-امارتِ اسلامیہ قطر دفتر کے سربراہ اپنے وفد سمیت کا پاکستان کا سہ روزہ دورہ-کابل انتظامیہ نے بین الافغان مذاکرات کی باقی کارروائی کے لیے افغانستان کو انتخاب کرنے کے لیے طالبان کو دعوت دی ہے-امارتِ […]

تحریر:سید عبدالرزاق

رواں دنوں قطر میں بین الافغان مذاکرات کی دونوں ٹیمیں ایک بیس روزہ وقفے پر اتفاق کرچکی ہے-امارتِ اسلامیہ قطر دفتر کے سربراہ اپنے وفد سمیت کا پاکستان کا سہ روزہ دورہ-کابل انتظامیہ نے بین الافغان مذاکرات کی باقی کارروائی کے لیے افغانستان کو انتخاب کرنے کے لیے طالبان کو دعوت دی ہے-امارتِ اسلامیہ کا ان تینوں معاملات پر موقف کیا ہے اس بارے میں امارتِ اسلامیہ کے ترجمان جناب ذبیح اللہ مجاہد صاحب نے زبردست گفتگو کی ہے-اہمیت کے پیش نظر چند نکات پیش خدمت ہیں:

رواں بین الافغان مذاکرات میں وقفہ اس لیے آیا کہ دونوں فریق اپنی قیادت سے ابھی تک کے حالات شریک کرنے اور آئندہ کے لیے رہنمائی لینے اور مشورہ کرنے کی ضرورت رکھتے ہیں-یہ مشورے دونوں فریق کے لیے بے حد ضروری ہیں-اس لیے ہم اس وقفہ کو مذاکرات کے لیے معاون اور مددگار سمجھتے ہیں-

امارتِ اسلامیہ دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتی ہے-امارتِ اسلامیہ نے ایک سیاسی قوت اور ایک ملک کی نمائندگی کی حیثیت سے مختلف ممالک کے اسفار کیے ہیں-اور آئندہ بھی یہ اسفار جاری رہیں گے-ان اسفار کا مقصد ملک میں امن کا قیام،امن کے استحکام کے لیے باہمی تبادلہ خیال اور دوطرفہ احترام پر مبنی اچھے تعلقات کا قیام ہے-اس سلسلہ میں حالیہ دنوں الحاج ملابرادر اخند اور ان کے ساتھ وفد کا دورہ پاکستان بھی ہے جو عرصہ سے ہمیں رسمی دعوت دئیے ہوئے تھے اور اب مذاکرات میں وقفہ سے اسےفادہ کرتے ہوئے اس دعوت کو قبول کیا گیا-اور اس میں پاکستان کی خصوصیت نہیں کہ اس پر کسی کو الزام تراشی کا موقع مل جائے بلکہ بہت سارے ممالک کے دورے ہم نے کیے ہیں اور آئندہ بھی ہونگے-

پاکستان میں ہماری ایک بہت بڑی تعداد مہاجرین کی آباد ہے-ان کے مشکلات، تجارتی معاملات اور دیگر مسائل کے بارے میں پاکستانی حکام سے بات کرنا ایک اہم ضرورت ہے-اس ضرورت کے پیشِ نظر امارتِ اسلامیہ کے سیاسی دفتر کے ارکان نے پاکستان کا سفر کیا ہے اور یہ سفر پاکستان کی باقاعدہ دعوت پر ہوا ہے-مگر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ پاکستان ہو یا کوئی اور ملک، اس کا سفر ہماری آزادی اور حریت کو متاثر نہیں کرسکتا -ہمارا موقف اپنی قوم اور ملت کے مطالبات پر مبنی ہے-اور ہمارا موقف اپنی قوم کے بنیادی حقوق کو حاصل کرے گا وبس-

ہمارے ارکان کا یہ سفر رسمی طور پر تین روزہ ہے-اس کے بعد ممکن ہے کہ امارتِ اسلامیہ کے دیگر اعلی ذمہ داروں کے ساتھ مشورے کے لیے یہ وفد افغانستان بھی چلا جائے-کیونکہ قطر سے افغانستان جانے کے لیے ہمارے پاس فضائی راستہ صرف پاکستان کا ہے-جس سے ہمارے ارکان ملک جاسکتے ہیں اس لیے اگر یہ وفد اسی راستے سے افغانستان جائے تو کوئی بعید بات نہیں ہے-

ہم بین الافغان مذاکرات کے حوالہ سے کسی بیرونی قوت اور بیرونی ملک کو داخل کرنا یا اس سے اس بارے میں کوئی رہنمائی لینے کو کبھی برداشت نہیں کرتے -لوگ ہماری طرف سے یہ یقین اور اطمینان رکھیں کہ امارتِ اسلامیہ ملک کے بلند ترین مفادات، اسلامی اقدار اور آئندہ اسلامی نظام کے بارے میں کسی بیرونی دباو کو قبول نہیں کرے گی-اور نہ کسی بیرونی ایجنڈے کو تکمیل ہونے دے گی-

کابل انتظامیہ کی یہ بات کہ آئندہ مذاکراتی سلسلہ کو افغانستان میں آگے بڑھایا جائے ایک تو اس لیے بیجا ہے کہ مذاکرات کے لیے مقام کا تعین مذاکراتی ٹیمیں کریں گی -یہ اختیار صرف انہیں کو ہے کسی اور کو ہم اس کی اجازت نہیں دیتے-
دوسری بات یہ ہے کہ افغانستان میں ہمیں کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے -یہ ٹھیک ہے کہ ہم زمینی طاقت رکھتے ہیں اور 70 فیصد علاقہ ہمارے کنٹرول میں ہے مگر فضاء مکمل دشمن کے پاس ہے جس سے ہمیں بالکل اطمینان نہیں ہے اور ایسی فضاء میں ہم اپنی قیادت کے بود وباش اور رہنے سہنے کا اعلان نہیں کرسکتے-پھر جب مذاکرات میں نشیب وفراز آتے ہیں اور مذاکرات کی ناکامی کا احتمال بھی ہو-
ہماری بھی یہ دیرینہ خواہش ہے کہ مذاکرات ملک کے اندر ہی ہو اور ہوسکتا ہے کہ کچھ سیشن ملک کے اندر ہوبھی جائیں مگر مذاکرات جس طرح کا امن اور اعتماد کا تقاضا کرتے ہیں اور جس طرح اعتماد کی ضرورت ہے وہ فی الحال نہیں ہے-جب یہ اطمینان اور اعتماد بلند سطح پر پہنچے گا تب یہ آرزو بھی پوری ہوگی-

اگر محض اتنی بات سے کہ “مذاکرات ضرور ملک کے اندر ہونے چاہیے” مذاکراتی سلسلہ میں کوئی رخنہ آئے گا تو اس کی ذمہ داری انہیں پر عائد ہوگی جو اس طرح کے بے معنی مطالبات کرتے ہیں-لگتا ہے کابل انتظامیہ اس طرح کی باتوں سے ایک دفعہ پھر مذاکرات میں رخنے ڈالنے کی کوشش کررہی ہے اور امارتِ اسلامیہ کے خلاف عامہ ذھنیت کو ابھارنے کے لیے یہ اقدام کررہی ہے-
کابل انتظامیہ کے عہدیدار ہم سے زیادہ محب وطن تھے اور نہ ہیں-ہم ہی اس ملک کے سب سے زیادہ محبین اور وفادار ہیں اور ہم نے ہی اس ملک کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں-

جانبِ مقابل کسی نہ کسی طرح اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتی ہے اور اقتدار کی بقاء کے لیے انہون نے عوامی املاک اور عوام کے قتل کو مقصد بنا رکھا ہے اور آئے روز اس میں شدت آرہی ہے-عالمی سطح پر اس جانب توجہ اور ان اقدامات کی سنجیدگی سے مذمت اور حوصلہ شکنی کرنی چاہیے-