امریکی جنرل کا نقطہ نظر

تحریر: موسی فریاد اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی میڈیا نے امریکی حکام کو یہ بات سمجھانے میں بہت اہم کردار ادا کیا کہ وہ افغان جنگ میں مکمل طور پر شکست کھا چکے ہیں، ایک ناکام اور بے مقصد جنگ جاری رکھنے سے امریکی فوجیوں کی ہلاکتوں اور مالی نقصان میں مزید اضافہ […]

تحریر: موسی فریاد

اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی میڈیا نے امریکی حکام کو یہ بات سمجھانے میں بہت اہم کردار ادا کیا کہ وہ افغان جنگ میں مکمل طور پر شکست کھا چکے ہیں، ایک ناکام اور بے مقصد جنگ جاری رکھنے سے امریکی فوجیوں کی ہلاکتوں اور مالی نقصان میں مزید اضافہ ہوگا جس پر امریکی حکمرانوں نے بھی غور کیا اور جارحیت کے خاتمے کے لئے داعیان حریت (طالبان) کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لئے گھٹنے ڈیک دیئے ۔

اگرچہ اس معاہدے پر بتدریج عمل درآمد ہوتا رہے گا اور ایک طریقہ کار کے مطابق 14 مہینوں میں یہ پایہ تکمیل تک پہنچے گا، لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کی حمایت یافتہ کابل انتظامیہ معاہدے کی تعمیل کے پہلے مرحلے میں رکاوٹیں اور مشکلات ایجاد کرنے کی کوشش کررہی ہے جو امریکہ کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے کیوں کہ وہ امن عمل میں طالبان کے سامنے ناکام ثابت ہوا ۔

اگرچہ امریکہ بظاہر اس کا اظہار نہیں کرتا، لیکن پومپیو کی آمد اور مایوسی کے اظہار سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے سامنے بھی چیلنجز موجود ہیں، اس حوالے سے واشنگٹن ایگزامینر اخبار نے ایک کالم شائع کیا ہے جس کے چیدہ چیدہ نکات قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ۔

امریکی فوج کے ایک ریٹائرڈ کرنل ، ڈینیئل ڈیوس(Daniel Davis)  نے مذکورہ کالم میں لکھا ہے کہ “افغان جنگ کے خاتمے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ٹرمپ اپنی فوج واپس بلانے کے لئے فوری حکم جاری کریں ۔”

ڈیوس کا کہنا ہے کہ حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے افغانستان کا دورہ کیا اور کابل میں جان کیری فارمولے کے تحت ڈاکٹر عبداللہ اور ڈاکٹر اشرف غنی کے مابین غیر قانونی Extra-constitutional آئینی اختیار کو بانٹنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوا ۔

امریکہ پہنچنے پر اس نے اعلان کیا کہ امریکہ افغان حکومت کے لئے اپنی 1 بلین ڈالر کی امداد کو کم کردے گا ، کچھ دن بعد این بی سی ٹی وی نے اس حوالے سے ایک ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی جس کے مطابق مائک پومپیو نے ٹرمپ کا اہم پیغام کابل حکام کو پہنچایا، وہ یہ تھا کہ ڈاکٹر عبد اللہ اور اشرف غنی کو متنبہ کیا گیا کہ اگر آپ اپنے سیاسی اختلافات حل نہیں کرتے ہیں اور طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع نہیں کریں گے، اور امریکہ اور طالبان کے مابین معاہدے کا احترام نہیں کریں گے تو امریکہ بھی امدادی رقم میں کٹوتی کرنے کے علاوہ اپنی تمام فوجیوں کا فوری اور مکمل انخلا کرے گا۔

ڈیوس نے کہا، یہ کہنا مشکل ہے کہ پومپیو کی دھمکی پر افغان حریف اپنے اختلافات ختم کریں گے اور طالبان کے ساتھ جنگ کے خاتمے کے لئے مذاکرات شروع کریں گے ۔

ان کے مطابق، 2001 سے اب تک امریکہ کے تین صدور، ایک درجن سے زیادہ جنگی جرنیلوں ، مختلف حکمت عملیوں اور ہزاروں فوجوں کی تبدیلی اور بھرتی کے باوجود ہم افغانستان میں جنگ جیتنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اب بھی کابل میں حریف حکام کے اختلافات کو ختم کرانے میں ناکام رہا ہے، اس لئے بہتر یہ ہے کہ ٹرمپ نیٹو اور دیگر اتحادیوں کی مشاورت اور ہم آہنگی سے اپنی افواج کے انخلا کے لئے ایگزیکٹو آرڈر جاری کریں۔

ڈیوس کا کہنا ہے کہ 29 فروری کو ٹرمپ نے اس معاہدے کا خیرمقدم کیا تھا جو امریکہ اور طالبان کے مابین طے ہوا تھا تاکہ امریکہ کا سخت سفر اور طویل جنگ کا خاتمہ ہو۔ ٹرمپ نے کہا: اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی فوج کو واپس بلائیں۔

واشنگٹن ایگزامینر کے مضمون میں کہا گیا ہے کہ افسوس سے بہت سارے ملکی اور غیر ملکی کھلاڑیوں نے کوششیں شروع کی ہیں کہ معاہدہ کامیاب نہ ہو۔

کالم نگار کرنل ڈینیئل ڈیوس نے مزید کہا کہ یہ واضح ہے کہ افغان حکام نے پومپیو کی انتباہ پر توجہ نہیں دی. انہوں نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا بلکہ اس کو نظرانداز کر دیا، جس کا مطلب ہے کہ وہ سیاسی معاملات حل کرنا نہیں چاہتے جس طرح وہ جنگ کا خاتمہ نہیں چاہتے جو سن 2001 سے جاری ہے ۔

کالم نگار کے مطابق، ٹرمپ کو آخر کار یہ سمجھنا چاہئے کہ انہیں اس امر کی ضرورت نہیں ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات ہوتے ہیں یا نہیں؟ اور بالآخر ایک کامیاب معاہدہ طے پا جاتا ہے یا نہیں۔

ٹرمپ اپنی اہلیت کو بروئے کار لاکر یہ حکم جاری کرسکتے ہیں کہ امریکہ اور نیٹو کی شرائط پر جنگ کا خاتمہ کیا جائے۔ اور اسی طرح وہ وزیر دفاع اور وزیر خارجہ کو اپنے دونوں اتحادیوں (نیٹو اور افغان حکومت) کو مطلع کرنے کی ہدایت کرسکتے ہیں کہ غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا کا وقت بہت کم ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ انتہائی افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ افغان رہنما اب بھی اس بات پر یقین نہیں رکھتے ہیں کہ امریکی فوج کا واقعتا مکمل انخلا ہوگا۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ اپنا کام کر رہے ہیں اور یہاں تک کہ وہ اس بات پر بھی آمادہ نہیں ہیں کہ آپس میں کچھ لو کچھ دو کے فارمولے پر ابتدائی اقدامات کریں۔

جب دو اعلی حکومتی عہدیدار منصب صدارت پر اتنی شدت سے مقابلہ کرتے ہیں ، اور وہ آپس میں مصالحت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں تو ان سے کیسے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ کل اپنے دشمن کے ساتھ جیت یا مصالحت کریں گے؟

ٹرمپ کے لئے امریکہ اور اپنی افواج کی سلامتی کا واحد راستہ یہ ہے کہ انخلا کا مکمل حکم جاری کیا جائے۔ افغان حکام تب سمجھ جائیں گے کہ اپنے مخالفین کے ساتھ مصالحت کیا ہے اور وہ اسے کیسے انجام دے سکتے ہیں۔

واشنگٹن ایگزامینر کے اخبار میں ایک ریٹائرڈ امریکی جنرل ڈینیل ڈیوس کے خیالات سے ثابت ہوتا ہے کہ انہیں امن عمل میں امریکہ کی ناکامی کا بھی خدشہ ہے ، اسی وجہ سے وہ دوحہ معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے تجاویز دے رہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ امریکی افواج ناکام جنگ سے دستبردار ہوجائیں اور انہیں اس عمل میں انتقامی کارروائی کے مقام سے بھی بچائیں۔

بلاشبہ امریکہ کے لئے بہترین چانس ہے کہ وہ معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے اپنے وعدوں کی پاسداری کرے، فوجی انخلا کے ساتھ دیگر معاملات کو بھی وقت مقررہ پر حل کرنے کے لئے اقدامات کریں، کابل حکام ذاتی مفادات کی وجہ سے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں، قوم ان رہبر نما رہزوں سے تنگ آچکی ہے، ملک میں بدامنی اور جنگ سے لوگ بیزار ہو چکے ہیں، قیام امن کے لئے کوشش کرنا ہر فرد کی ذمہ داری ہے، امارت اسلامیہ نے جو معاہدہ کیا ہے اس پر عمل درآمد کے لئے پرعزم ہے جس کا اعتراف امریکہ نے بھی کیا ہے، امریکی کالم نگار کی رائے حقیقت پر مبنی ہے جس کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے ۔