امن اور امریکہ کا مشکوک کردار

آج کی بات   کابل انتظامیہ کے سربراہ اشرف غنی نے مشاورتی لویہ جرگہ سے قیدیوں کی رہائی کی منظوری لینے کے بعد صدارتی فرمان جاری کیا لیکن اب ایک بار پھر انہوں نے افغان عوام کی امنگوں کے خلاف امن عمل کو سبوتاژ کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور لابنگ کے لئے […]

آج کی بات

 

کابل انتظامیہ کے سربراہ اشرف غنی نے مشاورتی لویہ جرگہ سے قیدیوں کی رہائی کی منظوری لینے کے بعد صدارتی فرمان جاری کیا لیکن اب ایک بار پھر انہوں نے افغان عوام کی امنگوں کے خلاف امن عمل کو سبوتاژ کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور لابنگ کے لئے کچھ مغربی میڈیا اور کچھ سفارت خانوں کو خطوط اور پیغامات بھیج رہے ہیں تاکہ باقی قیدیوں کی رہائی کا عمل روکا جاسکے اور اس طرح امن عمل میں رکاوٹ پیدا ہو، ان تمام کوششوں کا مقصد اپنے ناجائز اقتدار کو دوام بخشنا ہے۔

کابل میں آسٹریلیائی اور فرانسیسی سفیروں کی طرف سے ٹویٹس میں طالبان قیدیوں کی عدم رہائی پر زور دینا اور پھر واشنگٹن پوسٹ اور اب ٹائم میگزین میں اشرف غنی کی جانب سے بقیہ قیدیوں کی رہائی سے دنیا کو ڈرانا دراصل اشرف غنی کے وہ آخری حربے ہیں جو بین الافغان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لئے وہ استعمال کررہے ہیں۔

اس کے علاوہ کابل انتظامیہ کی انٹیلی جنس ادارے نے ملک میں امن کارکنوں کے قتل کا ایک پراسرار سلسلہ شروع کیا ہے، اس سلسلے میں گزشتہ روز کابل میں ایک امن کارکن ڈاکٹر عبدالباقی امین کو شہید کرنے اور اس سے قبل صوبہ فاریاب میں اسداللہ کاکڑ کے گھر پر بمباری کرنے اور کچھ عرصہ قبل کابل میں اہم علما اور امن کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ اس کی واضح مثال ہیں کہ کس طرح امن کے بارے میں اندرون اور بیرون ملک لوگوں کی آوازوں کو خاموش کیا جائے۔ امن عمل کو روکیں ، غیر ملکیوں کے انخلا کے عمل میں تاخیر پیدا کریں اور جنگ میں اپنے ناجائز اقتدار کو دوام بخشنے کی کوشش کریں۔

دوحہ معاہدے کے چھ ماہ مکمل ہوگئے لیکن اشرف غنی اور ان کی ٹیم نے امن عمل کے خلاف واضح موقف اختیار کیا ہے۔ ایسے وقت میں جب افغان عوام پہلے کے مقابلے میں امن کے بارے میں زیادہ پر امید ہیں، امارت اسلامیہ ملک کو آزاد کرانے ، امریکہ اور افغانوں کو جنگ سے چڑانے اور ملک میں پائیدار امن و استحکام لانے کے لئے پوری کوشش کر رہی ہے۔

لیکن کابل کٹھ پتلی انتظامیہ کا سربراہ اور ان کے ارد گرد جمع لوگ جو بڑی بے شرمی سے افغانوں اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی بنیاد پر امارت اسلامیہ اور افغان عوام نے امریکہ کے کردار پر شک کیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ امریکی حکام کی رضامندی سے ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کابل انتظامیہ افغان عوام کی امنگوں کے خلاف تمام حدود پار کر سکتی ہے اور نام نہاد لویہ جرگہ کے مطالبات کو پس پشت ڈال سکتی ہے لیکن امریکہ کے خلاف اس کو جرات ہی نہیں کہ اس کی رضامندی کے بغیر ایسا کرنے کا تصور بھی کرے۔

یہی وجہ ہے کہ افغان عوام کو امریکہ کے کردار پر شک ہے، جس نے ہمیشہ دوحہ معاہدے کے نتیجے میں اپنے آپ کو ثالث بالخیر اور افغان امن عمل کا حامی ظاہر کیا ہے۔

امریکہ کو چاہئے کہ وہ مزید اپنا کردار مشکوک نہ کرے، وہ کابل انتظامیہ کے سربراہ کو امن کے خلاف منفی سرگرمیوں سے روکنے کے لئے واضح اقدام کرے۔ بصورت دیگر امن عمل کو ناکام بنانے اور اس کے تمام منفی نتائج کے امریکہ اور عالمی برادری بھی ذمہ دار ہوں گے۔