امن عمل سبوتاژ کرنے کی کوشش

تحریر: سید عبدالرزاق بعض دریدہ دہن ایسے ہوتے ہیں جنھیں ملکی مفادات عزیز ہوتے ہیں اور نہ ہی اجتماعی منافع-اسلامی اور دینی اقدار کی پاسداری ہوتی ہے اور نہ ہی ملکی تاریخ کی پرواہ-تہذیب وتمدن نام سے آشناہوتے ہیں اور نہ ہی اپنا کلچر اور ثقافت سے واقفیت-اپنے ذاتی مفادات کے لیے ہمیشہ وفادار ہوتے […]

تحریر: سید عبدالرزاق

بعض دریدہ دہن ایسے ہوتے ہیں جنھیں ملکی مفادات عزیز ہوتے ہیں اور نہ ہی اجتماعی منافع-اسلامی اور دینی اقدار کی پاسداری ہوتی ہے اور نہ ہی ملکی تاریخ کی پرواہ-تہذیب وتمدن نام سے آشناہوتے ہیں اور نہ ہی اپنا کلچر اور ثقافت سے واقفیت-اپنے ذاتی مفادات کے لیے ہمیشہ وفادار ہوتے ہیں چاہے اس کے لیے اہلِ وطن کو چکی میں پیسنا پڑے-نام نہاد اور دو ٹکے کااقتدار ان کا سہارا ہوتا ہے اگر چہ اس مقصد کی براری کے لیے غلامی کی بدترین حدود ہی کیوں پار نہ کرنی پڑے-وہ خود آسائشوں سے مالامال ہو اگر چہ ملک ووطن کو داو پر نہ لگانا پڑے اور اس کا پارہ پارہ کرنا نا گزیر ہوجائے-
ان خود غرض اور مفاد پرست انسانوں میں سے چند وہ غلام ذہنیت اور بیرونی ایجنڈوں کے وفادار لوگ ہیں جو وطنِ عزیز میں قول وعمل سے فساد اور انارکی پھیلانے میں گزشتہ انیس سال سے کلیدی کردار ادا کررہے ہیں-جن کاتازہ بیانیہ اس وقت ہمارے کانوں میں پڑ رہا ہے-
استعمار کی ابتداء سے لے کر آج تک یہی حلقہ اپنے اس فساد آمیز رویہ کے ساتھ ملک ووطن اور اسلام واہلِ اسلام کے خلاف برسرِ پیکار تھا-مگر سوزش انہیں اس وقت سے تیز ہوئی جب ۲۹ فروری کو طالبان اور امریکا کے درمیان امن معاہدہ دستخط ہوا-اور انہوں نے تب سے اس امن عمل کو اپنے ذاتی مفادات اور ناروا خواہشات کی بھینٹ چڑھانے کی کوششیں شروع کردی اور انتہائی پھرتی سے کام جاری رکھا-
پہلے تو قیدیوں کی رہائی میں رکاوٹ اور عامہ لوگوں پر بے دریغ بمباری سے انتہائی ظالمانہ روش اپناکر یہ جتانے کی کوشش کی کہ ہم ہی اصل سرچشمہ ہیں -ہمیں ہی اصلیت اور مرکزیت دینا نا گزیر ہے-لیکن جب قوم کے غیور اور بہادر بیٹوں نے باتوں کی بجائے ان بھوتوں کے ساتھ لاتوں والا برتاو کیا اور خوب دباو میں رکھا تو بالاخر یہ لوگ مذاکرات کے لیے تمام تمہیدی مقدمات بجا لائے اور طالبان کے سیاسی دفتر میں اپنا وفد بھیج دیا-
بین الافغان مذاکرات جیسے ہی شروع ہوئے اور دوسرے تیسرے دن وہاں سے خوش ائند خبریں آنے لگی-جانبین بالاتفاق فضا کو سازگار ہونے پر اتفاق کررہی تھیں تو بغض وعناد میں جکڑے،شر وفساد کے یہ ڈیرے اپنی امیدوں کو خاک میں ڈوبتے دیکھ کر برداشت نہ کرسکے اور ایک دفعہ پھر میدان میں آئے-چونکہ ان کی زندگی اسی غلامی اور افراتفری کو وجود دینے میں گزری ہے اس لیے ان کے لیے حربے ڈھونڈنا کوئی مشکل کام نہیں تھا-اس بناء پر اشرف غنی کے نائب اول نے پے درپے منفی تبلیغات اور پرو پیگنڈے شروع کردئیے-کھلم کھلا اعلانات کرنے لگا کہ میں اب بھی طالبان کا سخت ترین دشمن ہوں اور پھر اپنے منصب کا بھی خیال جاتا رہا جو موصوف اسی انداز میں کھلم کھلا جھوٹ بولنے لگا-طالبان کو نفرت اور وحشت جیسے الفاظ سے تعبیر کیا اور قوم کا ان سے بیزاری کا شاخسانہ سنایا -اگر چہ یہ خود اس کے اور قوم کے درمیان رشتہ ہے مگر وہ طالبان پر الزام تھوپ رہا تھا-
امراللہ صالح نے قوم کے زخموں پر کوئی کم نمک نہیں چھڑکی کی تھی کہ اشرف غنی کا دوسرا معاون سرور دانش نے بھی امن عمل سے بچنے کے لیے قومیت اور وطنیت پر مبنی تعصب کو ابھارا-جس طرح امراللہ صالح اپنے بیانات میں جا بجا اسلامی تعلیمات سے جہالت کا زبردست مظاہرہ کرتا آرہاتھا-معاونِ دوم نے قومیت کوہوا دے کر، قبروں کو کھود کرید کر ایسی نازیبا زبان استعمال کردی جو ایک طرف اگر اہلِ وطن کے دلوں کو شدید ٹھیس پہنچارہی تھی اور موصوف کی قوم ووطن اور اپنی تاریخ سے بدترین جہالت کاپتہ دے رہی تھی تو دوسری جانب امن عمل کے لیے جاری مذاکرات کے لیے زہر آلود ثابت ہورہی تھی-
معاونِ اول اور معاونِ دوئم کے یہ نازیبا دلخراش اور پھوٹ ڈالنے والے بیانات کوئی محض اتفاق نہیں ہے-یہ مذاکراتی عمل کو خراب کرنے کے لیے باقاعدہ ایک پلان شدہ منصوبہ ہے جو انہیں تھمایا گیا ہے اور وہ سختی سے اس پر کاربند ہیں-ان کی اولین ترجیح ملک میں خون خرابہ کی صورتحال اور فضاء کو برقرار رکھنا ہے-کہ اس میں ایک تو ان کا نام نہاد اقتدار دوام پائے گا اور دوسرا فائدہ غلامی کی وفاداری ہے کہ آقا نے انہیں جو ایجنڈا برائے تکمیل انہیں سونپا ہے اس کو اس طرح سے یہ لوگ نافذ کرسکتے ہیں؛ اس لیے یہ لوگ مذاکرات کی ابتداء سے ناخوش ہیں اور جو ان سے ہوسکے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں-
لیکن اب ان کو یہ حقیقت بہر حال تسلیم کرنی ہوگی کہ قوم کی امنگیں جلد ہی شرمندہِ تعبیر ہونے والی ہیں اور اس مظلوم لیکن قربانی سے سرشار قوم کی قربانیاں رنگ لارہی ہیں-البتہ تسلیم نہ کرنے پر یہ یاد رکھیے! اسی قوم کے خون کے ایک ایک قطرے کاحساب کیا جائےگا اور تم سے ہی لیا جائےگا-فرزندانِ توحید کاقافلہ حق کچھ ہی دیر میں پہنچنے والا ہے ان شاءاللہ.