امیر المومنین مرحوم کے بارے میں جو کچھ سنا اور دیکھا

تحریر: موسٰی فرہاد آپ سورج کی مانند ہیں، غروب آفتاب کے بعد لاتعداد ستارے چمک گئے آپ نے راہ حق میں ہمارے لئے قربانی کے ستارے چھوڑ دیئے ہیں آپ کے اٹھنے بیٹھنے کے ساتھی بھی آپ کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ہر ایک منصور کی طرح دین کی خاطر آگ میں کھیلنے […]

تحریر: موسٰی فرہاد
آپ سورج کی مانند ہیں، غروب آفتاب کے بعد لاتعداد ستارے چمک گئے
آپ نے راہ حق میں ہمارے لئے قربانی کے ستارے چھوڑ دیئے ہیں
آپ کے اٹھنے بیٹھنے کے ساتھی بھی آپ کے نقش قدم پر چل رہے ہیں
ہر ایک منصور کی طرح دین کی خاطر آگ میں کھیلنے لگے ۔
آج 23 اپریل ہے، یہ دن امیر المومنین مرحوم کی ساتویں برسی ہے۔ ، آج سے سات سال قبل 23 اپریل 2013 میں ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ علیہ اس فانی دنیا سے ابدی زندگی کی طرف گامزن ہوگئے۔ اللہ پاک انہیں اپنی جوار رحمت میں اپنی خاص رحمت سے نوازے۔
عمر ثالت عالی قدر امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کے تعارف اور زندگی کے دیگر پہلوؤں کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا اور لکھا گیا ہے ، اس تحریر میں چند مختصر گزارشات اپنے تبصرے کے بغیر آپ کی نذر کرتا ہوں، باقی آپ پر منحصر ہے کہ آپ مثبت یا منفی ردعمل پیش کریں گے اور کیا فیصلہ کریں گے۔
لیکن اس سے پہلے ان کی کچھ مسلم اور متفق علیہ خصوصیات کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں، در حقیقت تاریخ کے اس مخصوص حصے میں وہ ایک انوکھی ، سچی اور متقی شخصیت تھی۔
مشہور تابعی سفیان ثوری نے فرمایا ہے کہ «من عرف نفسه لا يضره ما يقوله الناس فيه» (جس نے اپنے آپ کو پہنچانا تو اس کو لوگوں کی باتوں سے کوئی نقصان نہیں ہوتا(
ایسا لگتا ہے کہ مرحوم ملا صاحب اپنے آپ کو اور اپنے مشن کو بخوبی جانتے تھے اس لئے طاقتور دشمن کے کروز مزائل ، بی باون اور بے رحم ڈرون طیاروں کے حملے اور میڈیا کے زہر آلود پروپیگنڈے غیر موثر ثابت ہوئے۔
ملا عبدالسلام ضعیف کے مطابق چونکہ وہ عمر کہلاتے تھے ، ان میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی طرح مکمل ایمانداری کی خصوصیت تھی ، انہوں نے کسی کو دھوکہ نہیں دیا۔
امیرالمومنین واقعتا متعدد اوصاف رکھتے تھے:
انہوں نے خود کو خدا کے قانون شریعت کے حوالے کردیا تھا، وہ پاک نفس انسان تھے، ان کی کوئی اخلاقی یا لسانی کمزوری نہیں تھی ، جھوٹ بولنا پسند نہیں کرتے تھے ، دھوکے سے نفرت کرتے تھے، بے جا اور غیر ضروری بات نہیں کرتے تھے، وہ دوسروں کی باتیں غور سے سنتے تھے، دوسروں کے ساتھ گفتگو میں جھگڑا نہیں کرتے تھے، وہ وعدے کی مکمل پاسداری کرتے تھے، ان کے منہ اور دل کی بات ایک تھی، وہ نسلی ، لسانی اور علاقائی تعصبات سے بہت نفرت کرتے تھے، وہ صاف گو انسان تھے، وہ خود ظالم تھے اور نہ ہی دوسروں کے ظلم پسند کرتے تھے، وہ مضبوط عزم کے مالک اور ہر کام میں فیصلہ کن اقدامات کرتے تھے ۔
ان کے کچھ عجیب کارنامے اور دلچسپ باتیں:
1۔ بی بی سی کے ایک رپورٹر نے ملا صاحب سے پوچھا کہ کیا وہ چیچنیا کے مسلمانوں سے ہمدردی رکھتے ہیں، کیا ان کی عملی طور مدد کریں گے؟
اس کے جواب میں انہوں نے ایک مختصر، آسان، سادہ فہم لہجے میں مگر جامع اور معنی خیز جملہ استعمال کیا: “ہمارے اپنے پاؤں پانچے میں بند ہیں۔” یعنی ہمارے اپنے گھر میں بہت مشکلات ہیں، ہم اپنی پریشانیوں میں مبتلا ہیں، دوسرے مسلمانوں خصوصا چیچن کی مدد کے لئے کیا کیا جاسکتا ہے؟
2۔ امیرالمومنین کے ایک پرانے دوست کہتے ہیں: ایک بار ملا صاحب قندھار میں اپنے دفتر میں تھے جب انہیں دوپہر کے کھانے کے لئے دنبے کا گوشت لایا گیا جب ملا صاحب نے کھانا دیکھا تو گہرے فکر میں غوطہ زن ہوئے، “میں نے ان سے پوچھا، کیوں سوچ میں ڈوب گئے؟ تو کہنے لگے کہ یہ کیسا ہوگا؟ مجاہدین اور دوسرے عام لوگوں میں سے شاید بہت کم لوگوں کو اس طرح کا کھانا مل جاتا ہے اور ہم اسے کھاتے ہیں۔
ان کے دوست کے مطابق میں انہیں نے بتایا کہ: مشہور ہندوستانی عالم دین مولانا اشرف علی تھانوی جو سو سال پہلے گزرے ہیں، ان کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ صبح کے ناشتے کے لئے ایسا کھانا تیار کیا جاتا تھا جس پر اس وقت کے پچاس روپے خرچہ آتا تھا، چونکہ وہ مسلمانوں کی خدمت کررہے تھے اس لئے وہ اس کھانے کو اپنے لئے مناسب سمجھتے تھے۔ آپ بھی یہ کھانا کھا سکتے ہیں کیونکہ بہت زیادہ تھکاوٹ آپ کو کمزور کرتی ہے اور اپنے کام انجام دینے میں آپ کو نقصان پہنچاتی ہے۔ پھر انہیں تسلی ہوگئی ۔
3۔ ملا صاحب کا ڈرائیور کہتا ہے: ایک دن ہم میوند کے شہداء کے تاریخی مقبرے پر گئے، جب واپس آرہے تھے تو سورج غروب ہونے والا تھا، اس دوران موسلا دھار بارش شروع ہوئی، دور دراز صحرا میں ایک شخص چل رہا تھا، ملا صاحب نے جب اس کو دیکھا تو کہنے لگے کہ وہ تو ایک آدمی جارہا ہے وہ اس تیز بارش میں کیا کرنے جا رہا ہے؟ اس نے فورا مجھے گاڑی اس کی طرف موڑنے کا کہا، جب ہم اس کے پاس گئے اور اس سے پوچھا کہ کون ہو اور کہاں جارہے ہو؟ تو اس نے کہا کہ میں خانہ بدوش ہوں اور اس پہاڑ کے دامن میں ہمارا تمبو ہے، وہاں جارہا ہوں، ملا صاحب نے کہا آو سواری ہوجاو، اس تیز بارش میں ہم پہاڑ کے کنارے پہنچ گئے، اس کو اپنی منزل تک پہنچایا، کیچڑ اور بارش کی وجہ سے ہمیں واپس آنے میں ایک گھنٹہ لگا۔ آدھی رات کا وقت تھا جب ہم پہنچے۔
4۔ امارت اسلامیہ کے دور حکومت میں جب مسافروں سے بھرا ایک ہندوستانی طیارہ اغوا کیا گیا، قندھار اور کابل کے ہوائی اڈوں پر وہ محو پرواز تھا اور اترنے کی اجازت طلب کی، امارت کے اعلی حکام نے امیر المومنین سے بات کی، چونکہ اس کی حقیقت سے سب بے خبر تھے اس لئے اس بارے میں کوئی فیصلہ کرنا بھی مشکل کام تھا، ملا صاحب نے رہنماوں سے مشورہ کرتے ہوئے کہا کہ: “آئیں اس کی اجازت دیں، ہم اپنے ارادوں کو صاف کریں گے۔ اگر وہ مسلمان ہوں گے تو ہم اسلامی اخوت اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ان کی مدد کریں گے۔” اور اگر وہ غیر مسلم ہوں گے تو ہم اپنی انسانی ذمہ داری پوری کریں گے اور ہم نیک نیت سے یہ کام انجام دیتے ہیں تو اللہ تعالی ہمیں نقصان کے بجائے وقار اور کامیابی سے سرخرو کرے گا۔ جب اس کو اجازت دی گئی تو وہ معاملہ افغانوں کی نیک نامی کا باعث بنا۔
5۔ اسفند یار ولی کی ایک بات بہت مشہور ہے جو کہتے ہیں کہ سابقہ وزیر داخلہ نصیراللہ بابر نے خود مجھے بتایا کہ میں قندھار گیا اور (ملا عمر) سے ملا، میں نے لنچ کے موقع پر ان سے کہا کہ ملا صاحب اگر آپ ڈیورنڈ کا مسئلہ حل کرلیں تو سب مسائل حل ہوجائیں گے۔ کہتے ہیں کہ ملا صاحب نے بلا توقف فورا سخت لہجے میں کہا: اٹھو، فورا یہاں سے اٹھو، پھر میں آپ سے یہ بات نہ سنوں۔
6۔ عبدالحکیم مجاہد کے مطابق، میں نیویارک سے اسامہ بن لادن کے بارے میں کچھ تجاویز لے کر آیا تھا، ملا صاحب کے سامنے پیش کیا، اور ان سے کہا کہ امریکی دباؤ بڑھتا جارہا ہے اور ہمیں کوئی راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا، “ہم اللہ کے سامنے ذمہ دار ہیں، امریکہ کے نہیں۔ کابل جاکر دوسرے رہنماؤں کے ساتھ مل کر ایسی راہ تلاش کریں جس سے ہمارے مذہب اور ہمارے قومی وقار کو نقصان نہ پہنچے۔” میں آپ سے متفق ہوں۔ ”
7۔ مزار شرف کو فتح کرنے کے دوران ایرانی قونصلیٹ میں ملا صاحب کے علم کے بغیر 8 ایرانی سفارتکار مارے گئے، جس پر امیر المومنین نے ایران سے معذرت کی لیکن ایران کے حکمران قبول نہیں کرتے تھے بلکہ جنگ کی دھمکی دیتے تھے، ملا صاحب نے ریڈیو پر انہیں مخاطب کیا کہ: “ایرانی اخوندوں کو مسلمان اسلام میں شامل کرتے ہیں اور نہ ہی کفار انہیں اپنے کفر میں شمار کرتے ہیں، اگر ہم پر ایران نے حملہ کیا تو ہماری افواج 30 کلومیٹر کے فاصلے پر ایرانی حدود میں داخل ہوں گی۔”
8۔ ایک محافظ نے عجیب واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ ایک سال قحط سالی کی وجہ سے خانہ بدوش لوگ اور ان کی مال مویشیاں قندھار اور ہلمند کے ریگستانی علاقوں میں پھنس گئیں اور پیاس کی وجہ سے وہ شدید مشکلات کا شکار ہیں، جب ملا صاحب کو پتہ چلا تو انہوں نے فورا اپنے دوستوں سے کہا چلیں وہاں جا کر خود صورتحال کا جائزہ لیں گے، جب وہاں ان لوگوں کی صورتحال کو قریب سے دیکھا تو ان کا حال بہت پریشان کن تھا۔ ملا صاحب خود کچھ خیموں پر گئے اور ان سے بات کی لیکن انہوں نے نہیں پہچانا، انہوں نے قندھار کے گورنر اور ہوائی اڈے کے اعلی عہدیداروں کو حکم دیا کہ وہ ان لوگوں کی دیکھ بھال کریں، ایک انسانی تباہی آرہی ہے، اور انہیں ہوائی جہاز اور گاڑیوں کے ذریعے ایسی جگہ لے جائیں جہاں پانی کی سہولیت میسر ہو اور ٹینکروں میں جانوروں کو پانی پہنچائیں۔ اس کے بعد ان لوگوں کی اچھی طرح سے خدمت کی گئی، انہیں اور ان کے جانوروں کو بچایا گیا۔
9۔ متوکل صاحب کہتے ہیں: مرحوم ملا صاحب کو بار بار جہاد میں شہید دائیں آنکھ کے بجائے مصنوعی آنکھ رکھنے کی پیش کش کی گئی تھی لیکن ان کا جواب یہ تھا کہ آخرت میں جب میں اللہ کے حضور ایک آنکھ سے سامنا کروں گا تو کوئی بات نہیں کہ دنیا میں اس کی مخلوق کے سامنے بھی ایک آنکھ سے ملتا رہوں۔
مذکورہ واقعات مشت نمونہ یی خروار است ۔
اللہ مرحوم رہنما ملا صاحب کو اپنی خصوصی رحمت سے نوازے۔ ان کے اہل خانہ، رشتہ داروں، جانشینوں اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے مجاہدین پر اپنا خصوصی کرم فرمائے۔ آمین