اے امیرالمومنین، آپ یاد آتے ہیں!

محمدفرہادجانباز ‘عجیب بات یہ ہے کہ میں حواس باختہ ہوتا ہوں اور نہ ہی بے دینوں کے ساتھ اسلام کے خلاف راستہ اختیار کرتا ہوں۔ باوجود یہ کہ میرا اقتدار خطرے میں ہے۔ میری سربراہی اور کرسی بھی خطرے میں ہے۔ میری زندگی بھی خطرے میں ہے۔ میں پھر بھی جان قربان کرنے کے لیے […]

محمدفرہادجانباز
‘عجیب بات یہ ہے کہ میں حواس باختہ ہوتا ہوں اور نہ ہی بے دینوں کے ساتھ اسلام کے خلاف راستہ اختیار کرتا ہوں۔ باوجود یہ کہ میرا اقتدار خطرے میں ہے۔ میری سربراہی اور کرسی بھی خطرے میں ہے۔ میری زندگی بھی خطرے میں ہے۔ میں پھر بھی جان قربان کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اگر میں کافروں کے مطالبے پر ایسی راہ اختیار کر لوں، جو اسلام کے خلاف ہو اور اُن کے ساتھ موافقت کر لوں اور اُن کفار کے ساتھ معاملات ٹھیک رکھوں تو میری ہر چیز مستحکم ہوگی۔ میری بادشاہی اور سلطنت بھی برقرار رہے گی۔ اسی طرح طاقت، پیسہ اور جاہ و جلال بھی خوب ہوگا، جس طرح دیگر ممالک کے سربراہوں کا ہے۔ البتہ میں اسلام کی خاطر ہر قربانی کے لیے حاضر ہوں۔ سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہوں۔ جان قربان کرتا ہوں۔ سب کچھ سے بے پروا ہو چکا ہوں۔ سلطنت، اقتدار، طاقت اور ہر چیز کی قربانی کا عزم کر چکا ہوں۔ اسلامی غیرت کرتا ہوں۔ اسلام پر فخر کرتا ہوں۔ اس پاک وطن پر غیرت کرتا ہوں۔’
یہ اُس شخص کے الفاظ ہیں، جسے دنیا ‘ملا عمر’ اور عالمِ اسلام ‘امیرالمومنین’ کے نام اور لقب سے پہچانتا ہے۔ امیرالمومنین ملاعمر رحمہ اللہ نے غیرت و حمیت سے بھرپور یہ الفاظ امریکی جنگ کے شروع میں کہے، جب امریکا مذاکرات کو اپنے غرور اور اپنی ٹیکنالوجی کی توہین سمجھ کر جنگ پر زور دے رہا تھا۔ اگر آپ دجال کی آمد اور اُس کی شعبدہ بازیوں بارے جاننا چاہتے ہوں تو امیرالمومنین ملاعمر رحمہ اللہ کے مذکورہ دوٹوک موقف کو سمجھیں۔ دجال ہُوبہ ہُو وہی کچھ کرے گا، جو آج امریکا یا دیگر کفریہ طاقتیں کر رہی ہیں۔ جو بھی امریکا یا دجال کو خدا تسلیم کر کے اُس کے سامنے جھکے گا، وہی سلامت رہے گا۔ اگر تسلیم کرنے والا ایک گھردار آدمی ہے تو اُس کا کُنبہ محفوظ رہے گا۔ اگر وہ کسی سلطنت کا سربراہ ہے تو اُس کی بادشاہی قائم رہے گی۔ اگر وہ بھوکا ہے تو امریکا اور دجال اُسے کھانا دیں گے۔ اگر اُسے رقم کی ضرورت ہے تو دجال اُسے مالامال کر دے گا۔ اگر جان کا خوف ہے تو امریکا اور دجال اُس کی زندگی کی ضمانت دیں گے۔ گویا امریکا اور دجال اپنے پیروکاروں کو وہ سب کچھ دیں گے، جو کچھ اِس دنیا میں انسان کے ذہن میں آ سکتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
دجال ایک بدّو سے کہے گا:
‘اگر میں تمہارے باپ اور ماں کو تمہارے لیے دوبارہ زندہ کر دوں تو کیا تم گواہی دو گے کہ میں تمہارا خدا ہوں!’
بدّو کہے گا:
‘ہاں!’
چناں چہ دو شیاطین اس بدّو کے ماں اور باپ کے رُوپ میں اُس کے سامنے آ جائیں گے۔ وہ اُسے کہیں گے:
‘ہمارے بیٹے! اِس کا حکم مانو، یہ تمہارا خدا ہے۔’ (ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب فتنہ دجال، حدیث نمبر : 4077)
ایک اَور حدیث ملاحظہ فرمائیں:
دجال مدینہ کے مضافات میں کسی بنجر علاقے میں خیمہ زن ہوگا۔ اُس دن (مسلمانوں میں سے بہترین آدمی یا بہترین لوگوں میں سے ایک شخص دجال کے پاس آ کر کہے گا:
‘میں تصدیق کرتا ہوں تم وہی دجال ہو، جس کا حلیہ ہمیں اللہ کے نبی ﷺ نے بتایا تھا۔’
دجال لوگوں سے کہے گا:
‘اگر میں اِسے قتل کر دوں اور پھر زندہ کر دوں تو کیا تمہیں میرے دعوے میں کوئی شبہ رہے گا؟’
لوگ کہیں گے کہ ‘نہیں!’ لہذا دجال اس شخص کو قتل کر دے گا اور پھر اسے دوبارہ زندہ کر دے گا۔ چناں چہ وہ آدمی کہے گا:
‘اَب میں تمہاری حقیقت کو پہلے سے زیادہ بہتر طریقے سے جان گیا ہوں۔’ (یعنی تم ہی وہ شعبدہ باز دجال ہو!)
چناں چہ دجال (اپنی اس توہین کے بعد) کہے گا:
‘میں اسے قتل کرنا چاہتا ہوں، لیکن اَب ایسا نہیں ہو سکتا۔’ (یعنی اللہ تعالی دجال سے دوبارہ مارنے کا اختیار واپس لے لیں گے)
درج بالا احادیث کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ دجال کا قبضہ زندگی بخش تمام وسائل مثلاً پانی، آگ اور غذا پر ہوگا۔ اُس کے پاس بے تحاشہ دولت اور زمین کے خزانے ہوں گے۔ اس کی دسترس تمام قدرتی وسائل پر ہوگی۔ مثلاً بارش، فصلیں، قحط اور خشک سالی وغیرہ۔ اُس کے پاس ایک نقلی جنت اور دوزخ ہوگی۔ اس کی شعبدہ بازیوں اور دجل کو مؤثر بنانے کے لے شیاطین اُس کی مدد کریں گے۔ وہ شیاطین مُردہ لوگوں کی شکل میں بھی ظاہر ہوں گے اور لوگوں سے گفتگو کریں گے۔ دجال زندگی اور موت پر (ظاہری طور پر) قدرت رکھے گا۔ یعنی جسے چاہے گا، مار دے گا اور جسے چاہے گا، زندہ کر دے گا۔ البتہ زندگی اور موت پر اس کا اختیار محدود ہوگا۔ کیوں کہ وہ اُس مومن کو دوبارہ نہیں مار سکے گا، جس کا اوپر تذکرہ ہوا ہے۔
اگر امیرالمومنین ملامحمدعمر رحمہ اللہ بھی امریکا کی بات مان لیتے۔ امریکا امیرالمومنین کو جو عالی شان پیش کش کر رہا تھا، وہ تسلیم کر لیتے، مجدّدِجہاد اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کر دیا جاتا تو امیرالمومنین گم نامی کی موت کی نذر نہ ہوتے۔ وہ بھی اُسی طرح کرّوفر کے ساتھ حکومت کرتے، جس طرح آج کل مسلم ممالک کے حکمران ہیں۔چناں چہ امریکا افغانستان کو اپنے جیسا ترقی یافتہ بنا دیتا۔ یہاں غربت کے بجائے مال داری کا راج ہوتا۔ یہاں زندگی آباد ہوتی اور خون کی ندیاں نہ بہتیں۔ یہاں داعش بھی نہ ہوتی اور حامدکرزئی اور اشرف غنی جیسے بکاؤ لوگ بھی نہ ہوتے۔ کیوں کہ (میرے منہ میں خاک) ملاعمر امریکا کی ویسی تابع داری کر چکے ہوتے، جیسی آج کل اشرف غنی جیسے لوگ کر رہے ہیں۔ کیوں کہ دجال اور اُس کے موجودہ چیلوں کو اپنی تابع داری ہی سے غرض ہے۔ جو بھی امریکا یا دجال کو خدا تسلیم کرے گا، وہی دنیا میں ‘کامیاب’ سمجھا جائے گا۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَ لَنۡ تَرۡضٰی عَنۡکَ الۡیَہُوۡدُ وَ لَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمۡ ؕ(البقرۃ-120)
اور تم سے نہ تو یہودی کبھی خوش ہوں گے اور نہ عیسائی، حتی کہ تم اُن کے مذہب کی پیروی اختیار کر لو۔
دجال اور امریکا کو خوش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے سب سے قیمتی سرمائے ‘ایمان’ سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ایک سچے مسلمان کے لیے اپنا ایمان بیچ دینا ایسے ہی ہے، جیسے اُس کی دنیا اور آخرت، دونوں لُٹ جائیں۔ امریکا اپنے پیروکاروں کو جو کچھ دے رہا ہے اور دجال جو کچھ دے گا، اُس سب کا ایک ظاہری رُخ ہے اور ایک پوشیدہ پہلو ہے۔ اس بات کو نبی کریم ﷺ کے مبارک الفاظ میں سمجھا جا سکتا ہے:
دجال کے پاس آگ اور پانی ہوں گے۔ جو آگ نظر آئے گی، وہ درحقیقت ٹھنڈا پانی ہوگا۔ جو پانی نظر آئے گا، وہ درحقیقت آگ ہوگی۔ (صحیح البخاری، کتاب الانبیاء، باب ما ذکر عن بنی اسرائیل، حدیث نمبر : 3266)
دجال کے پاس روٹیوں کا پہاڑ اور پانی کا دریا ہوگا۔ (یعنی اس کے پاس پانی اور غذا وافر مقدار میں ہوں گے)نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ اِن باتوں کے لیے وہ نہایت حقیر ہے، (یعنی درحقیقت رزق کے اِن خزانوں کا حقیقی مالک صرف اللہ ہے) لیکن اللہ دجال اس کی اجازت دیں گے،تاکہ لوگوں کو آزمایا جا سکے کہ وہ اللہ پر یقین رکھتے ہیں یا دجال پر ایمان رکھتے ہیں۔ (صحیح المسلم، کتاب الآداب، باب جواز قولہ لغیر ابنہ، حدیث نمبر: 2152 /صحیح بخاری، کتاب الفتن، باب ذکر الدجال، حدیث نمبر: 6705)
دجال اپنے ساتھ ایک دریا اور آگ لے کر آئے گا، جو دجال کو جھوٹا کہنے پر آگ میں ڈالا جائے گا، اُس کو یقناً اللہ تعالی کی جانب سے اس کا بہترین انعام ملے گا۔ اُس کے گناہوں کا بوجھ کم کر دیا جائے گا۔ البتہ جو آدمی دجال کو خدا مان کر پانی کے لیے اُس کے دریا میں اُترے گا، اُس کے گناہوں کا بوجھ برقرار رہے گا۔ اُسے اپنے ایمان کی وجہ سے اللہ تعالی کی جانب سے جو انعام ملنا تھا، وہ انعام ایمان باقی نہ رہنے کی وجہ سے اَب نہیں ملے گا۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
قُلۡ اِنَّ ہُدَی اللّٰہِ ہُوَ الۡہُدٰی ؕوَ لَئِنِ اتَّبَعۡتَ اَہۡوَآءَہُمۡ بَعۡدَ الَّذِیۡ جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ ۙ مَا لَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیۡرٍ۔ (البقرۃ-120)
(ان سے) کہہ دو کہ خدا کی ہدایت (یعنی دینِ اسلام) ہی ہدایت ہے۔ اور (اے پیغمبر) اگر تم اپنے پاس علم (یعنی وحی) کے آ جانے کے بعد بھی اُن (کفار) کی خواہشوں پر چلو گے تو تم کو (عذابِِ) خدا سے (بچانے والا) نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی مددگار!
امیرالمومنین رحمہ اللہ نے امریکی دجال کے مقابل جس راستے کا انتخاب کیا تھا، وہی درحقیقت غیرت و عزت کا راستہ تھا۔ ملاعمر رحمہ اللہ نے عالمِ اسلام کی خاطر جہاد کا راستہ اختیار کیا۔ آپ رحمہ اللہ عالمِ اسلام کے لیے امید کی کرن تھے۔ آپ کا لگایا ہوا اسلامی نظام کا پودا آج تناوَر درخت بن چکا ہے۔ اُس کی چھاؤں پوری دنیا میں پھیل رہی ہیں۔ اگر موجودہ اسلامی دنیا عزت کی زندگی گزارنا چاہتی ہے تو اُسے بھی ملاعمر رحمہ اللہ کے قافلے کا سپاہی بننا ہوگا۔
جُز ترے کوئی بھی دن رات نہ جانے میرے
تو کہاں ہے مگر اے دوست پرانے میرے
تو بھی خوشبو ہے مگر میرا تجسس بے کار
برگ آوارہ کی مانند ٹھکانے میرے
شمع کی لو تھی کہ وہ تو تھا مگر ہجر کی رات
دیر تک روتا رہا کوئی سرہانے میرے
خلق کی بے خبری ہے کہ مری رسوائی
لوگ مجھ کو ہی سناتے ہیں فسانے میرے
لٹ کے بھی خوش ہوں کہ اشکوں سے بھرا ہے دامن
دیکھ غارت گر دل یہ بھی خزانے میرے
آج اک اور برس بیت گیا اس کے بغیر
جس کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے
کاش تو بھی میری آواز کہیں سنتا ہو
پھر پکارا ہے تجھے دل کی صدا نے میرے
کاش تو بھی کبھی آ جائے مسیحائی کو
لوگ آتے ہیں بہت دل کو دکھانے میرے
کاش اوروں کی طرح میں بھی کبھی کہہ سکتا
بات سن لی ہے مری آج خدا نے میرے
تو ہے کس حال میں اے زود فراموش مرے
مجھ کو تو چھین لیا عہد وفا نے میرے
چارہ گر یوں تو بہت ہیں مگر اے جان فرازؔ
جز ترے اور کوئی زخم نہ جانے میرے