بدخشان جہادی امور کے معاون مولانا عبدالغنی فائق سے گفتگو

  انٹرویو: ابو عابد صوبہ بدخشان افغانستان کے شمال مشرقی جانب میں واقع ہے ۔ جس کے مغرب میں تخار اور پنج شیر کے صوبے ، جنوب میں نورستان اور پڑوسی ملک پاکستان کا ایک حصہ واقع ہے ۔ مشرق میں چین کا کچھ حصہ اور شمال میں تاجکستان ۔ بدخشان افغانستان کے بڑے صوبوں […]

 

انٹرویو: ابو عابد

صوبہ بدخشان افغانستان کے شمال مشرقی جانب میں واقع ہے ۔ جس کے مغرب میں تخار اور پنج شیر کے صوبے ، جنوب میں نورستان اور پڑوسی ملک پاکستان کا ایک حصہ واقع ہے ۔ مشرق میں چین کا کچھ حصہ اور شمال میں تاجکستان ۔ بدخشان افغانستان کے بڑے صوبوں میں سے ہے ۔جس کا رقبہ 44059مربع کلومیٹر ہے ۔ اس کی آبادی حالیہ گنتی کے مطابق 8لاکھ 23ہزار ہے ۔ بدخشان کے مرکز فیض آباد کے علاوہ اس صوبے میں 28اضلاع اور انتظامی اکائیاں ہیں ۔ بدخشان چاندی ، فیروزی ، زمرداورلاجورد کے معدنی کانوں کے باعث افغانستان اور پوری دنیا میں مشہور ہے ۔ اس صوبے میں پانی کےبڑے بڑے چشمے بھی موجود ہیں ۔ نوشاخ نامی پہاڑی چوٹی افغانستان کی سب سے اونچی چوٹی ہے ۔ بدخشان ایک پہاڑی علاقہ ہے۔ہندوکش کا پہاڑی سلسلہ اس صوبے کے درمیان سے گذرتا ہے ۔ اس کے اکثر علاقے پہاڑی ہیں ۔ اسی طرح بہت سے بڑے اور چھوٹے دریا بھی ہیں جس نے اس علاقے کو خاص قدرتی حسن عطاکیا ہے ۔ بدخشان  کے اکثر لوگ مویشی اور زمینداری پر گزر اوقات کرتے ہیں ۔ اسلامی اقداراور دینی علوم سے محبت میں اس علاقے کو خاص شہرت حاصل ہے ۔ اس لیے اس زمین نے تاریخی حوالے سے اچھے اچھے علماء ، مشائخ ،عارفان حق ، مجاہدین اور مبارزین اس امت کو دیے ہیں ۔ حالیہ کچھ عرصے سے صوبہ بدخشان میں جہادی کارروائیاں اندازوں اور قیاسات سے زیادہ وسیع ہوئیں اور بڑھ رہی ہیں  جس کے بارے میں عالمی اور ملکی ذرائع ابلاغ پر تبصرے بھی ہوتے ہیں ۔بدخشان کے ضلع وردوج میں اس سال مجاہدین کے حملوں میں دشمن کو انتہائی زیادہ نقصانات پہنچے ہیں ۔ جس سے دشمن کو سخت گبھراہٹ کا سامناہے ۔ بدخشان میں تازہ جہادی حالات کیسے ہیں اور مجاہدین کو نئی کونسی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں ۔ میڈیا ونگ کے نمائندے نے اس صوبے میں مجاہدین کے نائب مسئول مولانا عبدالغنی فائق سے گفتگو کی۔ جو نذر قارئین ہے ۔

سوال :    محترم فائق صاحب ہم چاہتے ہیں سب سے پہلے ہمارے قارئین سے اپنا تعارف کرائیں ۔

جواب :   نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد

میرا نام عبدالغنی فائق ہے ۔بدخشان کے ضلع درایم سے تعلق ہے ۔ ابھی صوبہ بدخشان کے جہادی امور کے معاون کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہا ہوں ۔

سوال :    بدخشان کے تازہ جہادی حالات کیا ہیں اس حوالے کچھ معلومات افزاء گفتگو فرمائیں؟

جواب:   ذرائع ابلاغ کے حوالے سے آپ کو معلوم ہوتا ہوگا کہ بدخشان صوبے میں جہادی کارروائیاں انتہائی جدید انداز میں جاری ہیں ۔ نئے ولولے اور جذبے سے کام آگے بڑھ رہا ہے ۔ مجاہدین بدخشان کے وردوج ، راغ ،بارک ، کشم ،جرم، یمگان ، یفتل بالا ، شہداء اور ارگو کے اضلاع میں پوری طرح فعال اور اعلانیہ قوت رکھتے ہیں ۔ مذکورہ اضلاع کے اکثر علاقے مجاہدین کے کنٹرول میں ہیں۔ ضلع وردوج جو بہت وسیع علاقے پر مشتمل ہے اور اس کی اسٹریٹجک اہمیت بھی بہت زیادہ ہے اس کے مرکز کے علاوہ تمام علاقے مجاہدین کے قبضے میں ہیں ۔ بدخشان کے دیگر اضلاع میں تشکان ، درایم ، یفتل سفلی اور شہر بزرگ وہ علاقے ہیں جہاں مجاہدین درمیانی سطح کی فعالیت رکھتے ہیں یعنی نیم علانیہ شکل میں فعال ہیں ۔ مجاہدین کے مقابلے میں خارجی اور داخلی دشمنوں نے اب جو کارروائیاں کی ہیں یا جو سازشیں کی ہیں سب ناکامی سے دوچار ہوئی ہیں ۔ بدخشان میں الحمد للہ مجاہدین کی تعداد اور بھی زیادہ ہوگئی ہے عوامی حمایت کی سطح پہلے سے بھی زیادہ ہوگئی ہے ۔

سوال :    آپ نے بدخشان میں تازہ جہادی سلسلے کے متعلق بتایا ۔ واقعتا حالیہ کچھ ہفتوں میں بدخشان میں مجاہدین کی واضح کامیابیوں کے باعث دشمن سخت بدحواس ہوچکا ہے ۔ یہاں تک کہ دشمن نے ایک مرتبہ اس خوف کا بھی اظہارکیاکہ مجاہدین سارے صوبے پر قابض ہوجائیں گے ۔ تازہ ترین واقعات اور کامیابیوں پر ذرا تفصیلی گفتگو فرمائیں ؟

جواب :  بدخشان میں ڈیڑھ ماہ قبل اس صوبے کے وردوج اور جرم کے اضلاع میں مجاہدین نے متحد ہوکر وسیع گروپ حملوں کا آغاز کیا جس کے بعد تازہ ترین کامیابیاں حاصل ہوئیں ۔ اس سلسلے میں بدخشان کے مختلف علاقوں میں مجاہدین نے بڑی کامیابیاں حاصل کیں ۔ یہاں اس کے چند اہم واقعات کی جانب اشارہ کریں گے ۔

2مارچ 2013کو مجاہدین نے ضلع وردوج کے علاقے غنیو میں مزدور فوج کی کانوائے پر حملہ کیا ۔ جس کے نتیجے میں 15فوجی ہلاک اور 12فوجی زندہ گرفتار ہوگئے ۔ اس جنگ میں مجاہدین نے دشمن کی 8رینجر گاڑیاں جلادیں جبکہ 2 کوبطورمال غنیمت صحیح سلامت ساتھ لائے  ۔ اس جنگ میں مجاہدین نے درجنوں میل ہلکا اور بھاری اسلحہ غنیمت میں حاصل کیا ۔ جو بدخشان میں دشمن پر اس سال کا سب سے بڑا حملہ تھا ۔

8مارچ کو مجاہدین نے ضلع وردوج میں پہلی مرتبہ جوابی کارروائی کا آغاز کیا ۔ مگر اسی ضلع کے علاقے یخشیرہ میں انہیں مجاہدین کی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جس میں انہیں عبرتناک شکست ہوئی ۔ دشمن نے عوامی علاقوں پر انتقامی حملہ کیا اور مارٹر کے گولے فائر کرکے 10عام افراد کو شہید کردیا جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں ۔

10مارچ کو مجاہدین نے ضلع جرم کے مرکز پر بڑا حملہ کیا جس میں دشمن کا ایک بڑا اور ظالم ترین کمانڈر قربان اپنے کئی فوجیوں سمیت ہلاک ہوا۔ 12 فوجی زخمی ہوگئے ۔ مجاہدین نے ایک راکٹ لانچر اور ایک مشین گن سمیت 8میل اسلحہ غنیمت میں حاصل کیا ۔ اس بڑے حملے کےباعث اس ضلع کے مرکز کے آس پاس علاقوں میں بھی دشمن کے اختیارات کا خاتمہ ہوگیا ۔

17مارچ کو وردوج قریہ زوی کے علاقے میں مجاہدین کا دشمن کے فوجیوں سے سخت معرکہ ہوا یہاں تک کہ دشمن کے مکرر حملے شکست سے دوچار ہوگئے۔ دشمن نے ایک بارپھر حملہ کیا ۔مجاہدین کے مقابلے میں دشمن کے 20فوجی ہلاک 1ٹینک تباہ اور 2رینجر گاڑیاں تباہ ہوگئیں ۔ باقی فوجی فرارہونے میں کامیاب ہوگئے ۔ اس معرکے میں مجاہدین نے 30میل اسلحہ غنیمت میں حاصل کیا جس میں کئی M16گنیں بھی شامل تھیں ۔جبکہ مجاہدین کے گروپ سربراہ امیراللہ اور 2 دیگر مجاہدین بھی اس جنگ میں شہید ہوگئے ۔

19مارچ کو وردوج میں مجاہدین نے فرار ہوتے دشمن کا تعاقب کیا تاکہ اس ضلع سے دشمن کا مکمل خاتمہ کیا جاسکے ۔ شام 7بجے مجاہدین نے وردوج کے مرکز کے قریب واقع علاقوں غنیو اور آب جال میں دشمن کی چیک پوسٹوں اورمراکز پر حملے شروع کردیے ۔ رات 12 بجے تک دشمن کی 7چیک پوسٹیں تباہ ہوگئیں ۔ اس کارروائی میں مجاہدین نے دشمن کی 10گاڑیاں جلادیں ، اور چارپایہ دوشکوں سمیت کئی ہلکے اسلحے اور دیگر فوجی وسائل بطور غنیمت حاصل کیے ۔ اس جنگ میں دشمن کو بہت بھاری نقصان اٹھاناپڑا۔

اس واقعے کے تین روز بعد 22مارچ کو دشمن نے ایک بارپھر ضلع وردوج میں فوجی کارروائیوں کا آغاز کیا ۔ وردوج کے دو علاقوں قریہ شیدان اور آبجین میں مجاہدین کی جانب سے ان پر شدید حملے ہوئے ۔ جس میں درجنوں فوجی ہلاک ہوگئے ۔ بہت سے زخمی حالت میں میدان جنگ میں رہ گئے ۔ چند اہلکار زندہ حالت میں مجاہدین کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے ۔ وردوج کے حالیہ جنگ میں مجاہدین کو 50میل  مختلف اسلحے غنیمت میں مل گئے ۔ جن میں ایک دراز کوف اور کئی M16رائفلیں شامل ہیں جو مزدور نیشنل آرمی کے استعمال میں رہتی ہیں ۔

ان کارروائیوں کے بعد دشمن کی کارروائیاں بدخشان میں جاری ہیں ۔ خاص طورپر جرم اوروردوج کے  اضلاع میں جہادی کارروائیاں دن بدن تیز ہورہی ہیں اور تقریبا ہر دن مجاہدین کامیاب  کارروائیاں کرتے ہیں ۔

سوال :   22مارچ کو کابل انتظامیہ نے دعوی کیا کہ انہوں نے بدخشان کےضلع وردوج میں 40مجاہدین شہید کردیے ہیں ۔اور ان کے مراکز پر بمباری کی ہے ۔ اس خبر میں کہاں تک صداقت ہے اور حالیہ دنوں میں ہونے والی کامیاب کارروائیوں میں مجاہدین کے نقصانات کتنے تھے ؟

جواب :  اتنا کہہ سکتا ہوں کہ بدخشان میں دشمن کو سخت شکست کا سامنا ہے ۔ اس لیے دشمن کی کوشش ہے کہ پروپیگنڈے کا کھیل گرم رہے ۔ جس تاریخ کو دشمن نے مجاہدین پر بمباری اور نقصانات کے دعوے کیے اسی روز وردوج میں مجاہدین کے ہاتھوں دشمن کو سخت نقصانات پہنچے ۔ دشمن اس طرح کے پروپیگنڈے سے اپنی ناکامی چھپانا چاہتا ہے ۔

سوال :    کہا جاتاہے بدخشان میں تازہ لڑائیوں میں عوام کو بھی نقصان پہنچاہے  اس حوالے سے اگرمعلومات دے سکیں  توممنون ہوں گے۔

جواب :  انتہائی افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ پورے افغانستان کی طرح بدخشان میں بھی دشمن اپنی شکست کا بدلہ عام لوگوں سے لیتاہے۔ دشمن نے اس سے قبل ایک مرتبہ یخشیر کے علاقے میں گاؤں کے عام لوگوں پر مارٹر کے گولے گراکر کئی لوگوں کو شہید کردیا ۔ پھر 15مارچ کو اسی علاقے 300خاندانوں کو سخت سردی میں ہجرت پر مجبور کیا ۔ انہیں گھر سے بے گھر کردیا ۔ یہ دشمن کا ایک اور ایسا جنگی جرم تھا جس کا مشاہدہ سب نے کھلے عام کیا ۔

اسی طرح جب دشمن  کو وردوج کے مختلف علاقوں میں سخت شکست کا سامنا ہوا تو اسی ضلع کے مختلف علاقوں میں اندھی بمباری کرکے بڑاس نکالنے کی کوشش کی ۔ 27 ، 28مارچ کو وردوج کے ضلع میں 10افراد جن میں ضعیف العمر افراد بھی شامل تھے دشمن نے انتہائی بے رحمی سے انہیں شہید کردیا جبکہ کئی افراد زخمی ہوگئے ۔

سوال : دشمن پروپیگنڈا کرتا رہتا ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ جہاد کو کوئی اور رنگ دیا جائے کبھی کہتا ہے کہ یہاں امارت اسلامیہ کے مجاہدین نہیں بلکہ وسطی ایشیا کے مہاجرین نے یہاں مورچے بنائے ہوئے ہیں ۔ کبھی کہتے ہیں منشیات کے سمگلروں نے یہاں مسلح مقابلے شروع کیے ہیں اور کبھی دوسرے طریقے سے پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ اگرآپ بتائیں کہ دشمن بدخشان کے واقعات پر اتنا حساس کیوں ہے اور اتنا پروپیگنڈا کیوں کرتا ہے؟

جواب:   صوبہ بدخشان افغانستان کے شمال مشرق میں واقع انتہائی اہم علاقہ ہے ۔ اس صوبے کی افغانستان کے تین پڑوسی ممالک کے ساتھ سرحدیں ملتی ہیں ۔ سٹریٹجک حوالے سے یہ انتہائی پیچیدہ اور پہاڑی علاقہ ہے ۔ دشمن کو خطرہ ہے کہ اگر ایک مرتبہ اس علاقے میں جہادی بیداری عام ہوجائے اور اس کے اضلاع مجاہدین کے ہاتھ میں آجائیں پھر کبھی واپس ہاتھ نہیں آئیں گے اس لیے کہ حالیہ معرکوں میں دشمن کواس بات کاتجربہ ہوچکا ہے کہ مناسب اراضی کی وجہ سے مجاہدین کے خلاف داخلی اور خارجی فوجیوں کی کارروائیاں انتہائی ناکامی سے دوچار ہوگئیں ۔ انہوں نے ہرطرح سے زور آزمائی کرلی مگر مجاہدین کو وردوج جیسے ایک محدود علاقے سے بھی پیچھے ہٹا نہ سکے ۔

دوسرا یہ کہ دشمن غلط پروپیگنڈا کرتا ہے، وہ چاہتا ہے اس طرح سے بدخشان کے جہاد کی صورت مسخ کرکے پیش کرے اور اس جہاد کے بارے رائے عامہ خراب کرے ۔ مگر بدخشان کی جہادی تحریک نے دشمن کے ان تمام پروپیگنڈوں پر خط تنسیخ پھیر دیا ہے ۔ مثلا ان کا کہنا تھا کہ غاصب جارحیت پسندوں کے خلاف جاری جہادی تحریک صرف افغانستان کے پشتونوں کی قومی جنگ ہے ۔ یہ افغانستان کے سارے عوام کی مذہبی جنگ نہیں ۔ مگر بدخشان کا علاقہ جہاں کوئی پشتون نہیں رہتاوہاں عوام کی جانب سے جہادی تحریک کا اٹھنا یہ ثابت کرتا ہے کہ موجودہ جہادی تحریک ایک خاص قوم کی جہادی تحریک نہیں بلکہ یہ کفری یلغار کے خلاف اسلامی نظام کے قیام کے لیے تمام افغان عوام کی مشترکہ دینی ومذہبی ذمہ داری ہے ۔ جس کی بنیاد صرف اور صرف عقیدے پر استوار ہے ۔

ایک اور بات یہ کہ پہلے غاصب قوتیں اور ان کے مزدور کہتے تھے کہ افغانستان میں لڑنے والے مجاہدین کے پاکستان سے تعلقات ہیں اورپاکستان سے افغانستان آتے ہیں۔ مگر بدخشان جیسے ایک شمالی صوبے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔جس کے پاکستان سے روابط اور راستے ناممکن سےہیں    ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سے جہادی تحریک کے تسلسل کے ساتھ جاری رہنے سے سارے پروپیگنڈے بیک قلم باطل ہوجاتے ہیں ۔

ایک بارپھر کہتا ہوں صوبہ بدخشان کی جہادی تحریک کا منبع صرف اور صرف عوام ہیں ۔ اس صوبے کے علم دوست اور جہاد پرور لوگ انتہائی مضبوطی سے مجاہدین کے کندھوں سے کندھا ملائے کھڑے ہیں ۔ ہمارے حالیہ اندازے اورسروے کے مطابق بدخشان کے عام لوگ 80فیصد مجاہدین کے ساتھ ہیں ،عملی طورپر کھڑے ہیں اور یاہمدردی رکھتے ہیں اورکچھ لوگ  ہیں جو صرف تعاون کرتے ہیں۔

.سوال:  محترم مولوی صاحب آخر میں صوبہ بدخشان کے مجاہدین کے نمائندہ کی حیثیت سے کیاپیغام رکھتے ہیں جسے ہم اپنے قارئین اور مخا طبین تک پہنچائیں ؟

جواب:   افغانستان کے عام لوگوں کے حوالے سے کہتا ہوں کہ حال میں دشمن نے سردجنگ یا پروپیگنڈے پر خاص توجہ مرکوز کررکھی ہے ۔ مختلف ذرائع اور طریقوں سے امارت اسلامیہ کے مجاہدین کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان کی کوشش ہوتی ہے مجاہدین کے موقف اور دعوی کو کمزور ثابت کرے اور افغانستان کے برادر اقوام کے درمیان نفاق کی آگ بھڑکائے ۔

افغانستان کے مجاہد عوام متوجہ رہیں، امارت اسلامیہ اورمجاہدین کو دشمن کے پروپیگنڈے کی عینک کی بجائے اپنی آنکھ سے دیکھیں ۔ اس بات پر نظر رکھیں کہ کیا واقعی مجاہدین غیروں کے لیے اتنی بڑی بڑی قربانیاں دے رہے ہیں یا انہیں اپنے مذہب اوراسلام کی فکر ہے ۔انشاء اللہ اگر افغان عوام دشمن کے پروپیگنڈے پر توجہ نہ دیں اور صرف زمینی حقائق کو دیکھیں مجاہدین کے متعلق ان کے پاس کوئی اعتراض باقی نہیں رہے گا ۔ کیوں کہ مجاہدین کوئی خفیہ یا پیچیدہ موقف اور داعیہ نہیں رکھتے۔ صرف اور صرف اسلامی نظام کی حاکمیت ، جہاد کے مقاصدکی تکمیل ، شہداء کی امیدیں برلانے اور اپنے اسلامی مملکت کی آزادی کے حصول کے لیے اٹھے ہیں ۔