بربریت کی انتہا اور میڈیا کی خاموشی

ہفتہ وار تبصرہ حالیہ دنوں میں مسلسل طور پر چند ایسی ویڈیو سوشل میڈیا میں وائرل ہورہی ہیں،جس میں  امارت اسلامیہ کے گرفتار ہونے والے مجاہدین کو کابل انتظامیہ کی فوجی نہایت سفاکیت اور ظلم سے شہید کر رہے ہیں۔ ویڈیو میں صاف طور پر  نظر آرہا ہے کہ زخمی حالت میں گرفتار ہونے والے […]

ہفتہ وار تبصرہ

حالیہ دنوں میں مسلسل طور پر چند ایسی ویڈیو سوشل میڈیا میں وائرل ہورہی ہیں،جس میں  امارت اسلامیہ کے گرفتار ہونے والے مجاہدین کو کابل انتظامیہ کی فوجی نہایت سفاکیت اور ظلم سے شہید کر رہے ہیں۔ ویڈیو میں صاف طور پر  نظر آرہا ہے کہ زخمی حالت میں گرفتار ہونے والے مجاہد کو نہایت درندگی سے شہید کیا جارہا ہے ۔ ایک اور ویڈیو میں وحشی درندے خون میں لت پت مجاہد کو نشانہ بازی کا ہدف بنا رہا ہے، جس پر  اپنی بندوقوں کی  نشانے کو پختہ کررہی ہے۔ کٹھ پتلی مزدوروں کی وحشت اورظلم پر مبنی  مصدقہ ویڈیو اتنا دل خراش ہے، یہاں تک کہ کچھ سوشل میڈیا  میں اسے نشر کرنے کی سکت و اہلیت نہیں ہے اور نشر ہونے کے بعد دوبارہ سے اسے حذف کردی گئی۔

مگر مصدقہ اور ناقابل تردید ہونے کے باوجود ملکی اور غیرملکی مقبول ذرائع ابلاغ نے ایک بار پھر اس مسئلے میں اپنی منافقت ثابت کردی اور کسی بھی مقبول میڈیا نے مظالم کے اس دستاویزی ثبوت پر کوئی رپورٹ یا  خبر شائع نہیں کی۔

ہم روز دیکھ رہے ہیں کہ یہی ذرائع ابلاغ اس جعلی تصاویر اور خودساختہ دستاویز کی بنیاد پر طویل طویل رپورٹیں شائع کررہے ہیں، جو امارت اسلامیہ کو بدنام کرنے کی خاطر کابل انتظامیہ کی اینٹلی جنس ایجنسی کی جانب سے نشر ہورہے ہیں۔

سڑک کی تباہی کی ایسی تصویر جس کے بارے میں ہمیں معلوم نہیں کہ یہ کہاں اور کونسی جگہ ہے،معتبر میڈیا میں لگاتار نشر ہورہے ہیں۔کبھی کہتے ہیں کہ طالبان نے روزگان میں سڑک کو تباہ کردیا اور کبھی غزنی میں سڑک کی تباہی طالبان سے منسوب کررہا ہے۔ ایک میڈیا نیٹ ورک میں سڑک کی لمبائی 600 میٹر اور دوسری 600 کلومیٹر  بیان کی جارہی ہیں۔ یہی متضاد تفصیل خود ہی دستاویز کی جعلسازی اور جعلی پن کی علامت ہے۔

لیکن جب غاصبوں  اور کٹھ پتلیوں کے ظلم و بربریت کی دستاویزی اور ناقابل تردید ثبوت  منظر عام پر آجاتے ہیں، تب یہی میڈیا منافقت کی خاموشی اختیار کرتی ہے۔یہاں انسانی حقوق اور وقار کا کوئی مسئلہ ہے اور نہ ہی واقعات او رحوادث کے متعلق اطلاع دینے کی ذمہ داری اور فریضہ ان کی ضمیر کو بیدار کرتا ہے۔

یہ صرف میڈیا نہیں ہے، بلکہ انسانی حقوق کے دعویدار تنظیمیں اور گروہوں نے بھی مذکورہ وحشت کے متعلق کچھ نہیں کہا ہے۔ ایسی صورتحال سے دنیا اور خاص کر ہمارے ہموطن بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں، کہ  موجودہ وقت میں آزاد اور غیرجانبدار میڈیا کے نام سے کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ آزادی کے دعویدار میڈیا صرف ان فریق کے مفاد میں مصروف ہیں، جو انہیں تنحواہیں دیتی ہیں اور ان کی تشکیل سے منسلک ہیں۔

اسی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ میڈیا کی خبریں، فیصلے اور تجزیے کسی طرح بھی حقیقی صورتحال کے لیے معیار نہیں سمجھا جاسکتا ہے۔ چوں کہ میڈیا میں امارت اسلامیہ پر بیشتراوقات منفی الزامات لگائے جاتے ہیں،کبھی اسے امن مخالف متعارف، کبھی ملک کی آبادی، ترقی اور قومی منافع سے دشمنی  اس کی جانب نسبت کی جاتی ہے۔ یہ سب جھوٹ اور دشمن کے پروپیگنڈے کی جنگ کا ایک حصہ ہے۔

امارت اسلامیہ کے اعمال، مواقف بلکہ تمام صورتحال کو میڈیا کی نظر سے اہل وطن نہ دیکھے۔موجودہ میڈیا گمراہ کن اور منافق ہے۔ان کی ذمہ داری حقائق کا انعاس نہیں، بلکہ حقائق کی تحریف اور اسے اپنے مفاد میں تعبیر کرنا ہے۔ لہذا اگر چاہتے ہو کہ آپ کی عقل و سمجھ دھوکہ و فریب میں نہ پڑ جائے، تو تحقیق سے پہلے میڈیا پر اعتماد مت کرو۔