بین الافغان مذاکرات اور کشیدگی کے بڑھتے واقعات

ترتیب وترجمہ: سیدافغان اس وقت ایک طرف قطر کے دارالحکومت دوحا میں انٹراافغان ڈائیلاگ جاری ہے تو دوسری جانب افغانستان کے اندر کشیدگی کے بڑھتے واقعات کی خبریں گردش کررہی ہیں-مذاکرات آگے کیوں نہیں بڑھتے؟ تشدد کی فضا کب رکے گی؟ حقیقی امن کب قائم ہوگا؟ اس حوالہ سے امارتِ اسلامیہ کے ترجمان جناب ذبیح […]

ترتیب وترجمہ: سیدافغان

اس وقت ایک طرف قطر کے دارالحکومت دوحا میں انٹراافغان ڈائیلاگ جاری ہے تو دوسری جانب افغانستان کے اندر کشیدگی کے بڑھتے واقعات کی خبریں گردش کررہی ہیں-مذاکرات آگے کیوں نہیں بڑھتے؟ تشدد کی فضا کب رکے گی؟ حقیقی امن کب قائم ہوگا؟ اس حوالہ سے امارتِ اسلامیہ کے ترجمان جناب ذبیح اللہ مجاہد صاحب نے ایک پر مغز گفتگو کی ہے جس میں ان سوالات کا جواب موجود ہے-اپنے قارئین کو اس گفتگو کے چند اہم نکات سے آگاہ کرتے ہیں:

رواں مذاکرات ایک دوطرفہ شاہراہ ہے جسے سنبھال رکھنے کی ذمہ داری دونوں طرف سے آنے والوں پر عائد ہوتی ہے-تنہا ایک جانب کو پیش قدمی اور پسپائی کا ذمہ دار نہیں ٹھرایا جاسکتا-اس بارے میں امارتِ اسلامیہ پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے تو اس کے لیے عرض یہ ہے کہ امارت اسلامیہ نے مذاکرات کے لیے ایک طاقتور اور مضبوط ٹیم بھیجی ہے جو بات کرنے اور مسائل سلجھانے کے گر جانتی ہے اور کافی باریک بینی سے ہر چیز کا جائزہ لیتی ہے-اس ٹیم کے بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ تمام مسائل جن کو حل کرنا ملک اور قوم کے لیے ضروری ہے وہ حل کیے جاسکے-ہمیں امید ہے کہ ان شاءاللہ یہ بہر حال حل ہونگے؛ کیونکہ اب جانب مقابل کو بھی سنجیدگی اور حالات سمجھنے کاادراک کرلینا ہی چاہیے –

اس وقت تک کسی کو ثالث بنانے کی ضرورت پڑی ہے اور نہ ہی ہم کسی کو ثالث بنانے کی اجازت دیتے ہیں-البتہ مملکت قطر آسانیاں پیدا کرنے میں اور فضا ہموار بنانے میں معاونت کرتی رہتی ہے-جس پر ہم ان کاشکریہ اداء کرتے ہیں-لیکن وہ اس انداز سے ہیں  کہ اسے ثالثی نہیں کہا جاسکتا-

مذاکرات میں اس نیت سے کوئی داخل ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کو یہ نیت رکھنی چاہیے کہ وہاں پر ہماری ہی بات مانی جائے گی-دوسری بات یہ ہے کہ ان مذاکرات میں نہ ہماری کوئی فرمائش قابل اعتبار ہے اور نہ جانبِ مقابل کی-مذاکرات کا مقصد بنیادی طور پر یہ ہے کہ افغانستان کے بحیثیت مملکت اور افغان قوم کے مفادات کو برقرار رکھا جاسکے اور جن سے اب تک محرومی ہے وہ حاصل کیے جاسکے-پھر ہمارے جو مشترک اقدار ہیں انہیں تحفظ فراہم کیا جاسکے-اسلامی اقدار اور ملی مفادات ہم سب کو مد نظر رکھنا چاہیے-

مذاکرات ابھی شروع نہیں ہوئے ہیں البتہ مذاکرات کے لیے طریقہ کار اور اصول وضع کرنے کے لیے بحثیں جاری ہیں جن میں بیس تک کے اصول پر اتفاق ہوچکا ہے اور ایک دو پر جو اختلاف برقرار ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جانبِ مقابل میں جو ٹیم ہے اس کے پاس اختیارات کا فقدان ہے-اختیارات دراصل کابل میں بیٹھے ان افراد کے ہاتھ میں ہے جو اقتدار کی کرسیوں پر مسلط ہیں جبکہ ہماری ٹیم مکمل اطمینان اور اختیار کے ساتھ موجود ہے-

جنگ ہمارے پاس ایک آپشن ہے مگر جنگ سے پہلے ہم نے ہر وقت ڈائیلاگ کی دعوت دی ہے-امریکی حملے سے پہلے آج سے بیس سال قبل بھی ہم نے امریکا کو مذاکرات سے مسئلہ حل کرنے کی دعوت دی تھی جو انہوں نے طاقت کے نشہ میں چور ہونے کی وجہ سے رد کردی اور حملہ کردیا مگر بالاخر مذاکرات پر آمادہ ہوگئے اور اس کا نتیجہ بھی سامنے آیا-اسی طرح ہم افغان سیاسی جماعتوں کو بھی ڈائیلاگ سے گتھیاں سلجھانے کی دعوت دیتے ہیں لیکن جب ہمیں معلوم ہو کہ مذاکرات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا تو پھر جنگ کے ہی آپشن کو استعمال کریں گے-

ہمیں امید ہے کہ ہماری دوعشروں پر محیط جدوجہد اور جہاد فی سبیل اللہ اپنی منزل پر پہنچے گی-یہ جہاد جس مقصد کے لیے شروع ہوا تھا اور جس کے لیے افغان قوم نے قربانیاں دی تھی وہ مقصد اسلامی نظام کی حاکمیت اور اسلام کی بالادستی تھی چنانچہ اس امید پر ہم ڈائیلاگ میں داخل ہوئے ہیں کہ جلد ہی یہ مقصد ہمیں حاصل ہوجائے گا-

یہ کہنا کہ ملک میں کشیدگی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے مطلق درست نہیں ہے-اگر آپ پچھلے سالوں سے اس سال کا موازنہ کریں گے تو بہت صاف نظر آئے گا کہ جنگ کی کیفیت میں ریکارڈ کمی آئی ہے-بڑے شہروں میں ہم نے کاروائیاں بالکل روکے رکھی ہیں-اور دیہی علاقوں میں کاروائی کی کچھ وجوہات ہیں :ایک یہ کہ کابل انتظامیہ بار بار دیہی علاقوں پر تجاوز کررہی ہے-جلال آباد میں آپریشنز کیے-صوبہ تخار کے ضلع طالقان کی طرف پیش قدمی کی اس طرح دیگر شہروں میں-اس پر ہم مجبور ہوتے ہیں کہ ان کی راہیں مسدود کردیں اور ان کے تجاوز سے اپنے حریم کادفاع کریں-بہر حال اس ساری صورتحال میں بنیادی بات یہ ہے کہ جنگ کی پہل ہم نے نہیں کی ہے بلکہ ہمیں نشانہ بنانے کے بعد ہم نے دفاعی مورچہ سنبھالا ہیں جس کا ہم حق رکھتے ہیں-ان کاروائیوں کے علاوہ ایک چیز اور ہے جنھیں ہم جرائم کہتے ہیں اور وہ ہیں بھی جرائم-جیسے مسجد پر بمباری،تعلیمی سینٹر پر حملہ اور عوام کو نشانہ بنانا یہ سب کچھ کابل انتظامیہ اور اس کی پروردہ داعش کی کارستانیاں ہیں جو محض جرائم ہیں اور انہیں جنگ سے نہیں جوڑا جاسکتا-اسی طرح چوروں اور ڈاکوؤں کا راج ہے جسے انتظامیہ کی سرپرستی حاصل ہے -کابل انتظامیہ جو اس وقت سیاسی اور عسکری سطح پر پسپائی کے عالم میں ہے-آقاؤوں کے سایہ سے بھی محروم ہوگئی ہے اس لیے تبلیغاتی جنگ میں مصروف ہے اور نفرتیں پیدا کرنے پر تلی ہے-اپنی ناپاک حرکات کو اسی لیے ہمیں منسوب کررہی ہے تاکہ ہمیں بدنام کیا جاسکے-

 

 

امریکی انتخابات میں کسی کی جیت اور ہار سے ہمیں کوئی سروکار نہیں اور نہ اس سے ہمارے معاہدہ پر کوئی اثر پڑے گا-کیونکہ ہم نے معاہدہ کسی امریکی سے اس کی ذاتی حیثیت سے نہیں کیا ہے-ہمارا معاہدہ امریکی ریاست سے امریکی مفادات کے روبرو ہوا ہے-اسی بنیاد پر مذاکرات میں ہمارے ساتھ امریکا کے تمام بنیادی ادارے سی آئی اے اور پینٹاگون سمیت سب شامل تھے اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ معاہدہ امریکا کی اسٹریٹیجی کا ایک حصہ تھا-

دوسری بات یہاں یہ ہے کہ امریکا کی خیر اسی میں ہے کہ اس معاہدہ پر عملدرآمد کرلے-ورنہ یوں تو جنگ وہ بیس سال آزماچکا جو الٹا ان کے گلے کا ہار بنا اور اگر مزید وہ اس غلطی کا اعادہ کرے گا تو نقصان میں بھی مزید اضافہ ہوگا-