تشدد کاالزام لگانے والو! اس سے بھی بڑھ کر تشدد؟

تحریر:ابومحمد الفاتح جس وقت امارتِ اسلامیہ اور امریکا کے درمیان مذاکرات چل رہے تھے تو خود امریکا اور اس کے پٹواری مسلسل شور مچارہے تھے کہ طالبان تشدد کو روکے رکھے-اور اپنی اس آواز کو صحیح اور سچی ثابت کرنے کے لیے میڈیا کو اس طور سے استعمال کیا گیا کہ سن سن کر طالبان […]

تحریر:ابومحمد الفاتح

جس وقت امارتِ اسلامیہ اور امریکا کے درمیان مذاکرات چل رہے تھے تو خود امریکا اور اس کے پٹواری مسلسل شور مچارہے تھے کہ طالبان تشدد کو روکے رکھے-اور اپنی اس آواز کو صحیح اور سچی ثابت کرنے کے لیے میڈیا کو اس طور سے استعمال کیا گیا کہ سن سن کر طالبان کو خونخوار بھیڑیا تصور کیا جاتا تھا-حقیقتِ حال سے ناواقف اور ایک خالی الذھن آدمی جب میڈیا کو دیکھتا یا سنتا تھا تو اسے طالبان کا نعرہ، ان کا مقصد اور ان کے منشور اور میڈیا کی بتائی ہوئی صورتحال کے درمیان نسبت سمجھنا دشوار ہوتی تھی-وہ لوگ جو بیٹھے بیٹھے دانشور بن جاتے ہیں اور درپردہ وہ دانشوری کے نام پر وہ حقائق کو مسخ کرجاتے ہیں اور مغربی افکار کو خوبصورت لبادہ میں مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں-اس موقع پر وہ بھی اپنی دانشوری کے توسط سے طالبان پر جی بھر کر کیچڑ اچھالتے تھے-تشدد کے لفظ کو لے کر طالبان کی ہجو کرتے تھکتے نہیں تھے-جبکہ حقیقت کو اگر مختصر ترین لفظ میں بیان کیا جائے تو یہ کہا جاسکتاہے کہ امریکا اور اس کے پٹواریوں نے جتنے مظالم دورانِ مذاکرات کیے ہیں وہ گزشتہ انیس سال میں ریکارڈ سطح کے ہیں-کوئی رات ایسی نہیں گزرتی تھی جس میں عوام کے گھروں پر بے جا چھاپے نہ مارے جاتے -بے گناہ اور معصوم افراد کا خون نہ بہایا جاتا-دن رات فضاؤوں سے بمباری اور زمین پر تخریب کاری کا ایک ناختم ہونے والا سلسلہ جاری رہتا-
مگر!
امریکا،اس کے زرخرید غلام،میڈیا اور دوٹکے کے دانشوروں کو تشدد صرف طالبان کااپنے حق کے لیے ظالموں سے نمٹنے کے لیے حق دفاع استعمال کرنے میں نظر آتا تھا-
حق جہاد، مخلصانہ کردار اور مردانہ وار قربانی کا نتیجہ تھا کہ امریکا سرنگوں ہوا اور اپنے ناجائز قبضہ کو خود ہی ناجائز قرار دے کر اس کے خاتمہ کا دستخط کردیا-جس کے نتیجہ میں افغان سیاسی جماعتوں کے ساتھ مفاہمت کے لیے ڈائیلاگ شروع ہونی تھی مگر غلام طبیعت کے لوگوں نے روڑے اٹکائے اور امن کے قیام کو ٹالنے کی بھرپور کوشش کی-مگر قدرت کو ان بے مثال اور بے لوث قربانیوں کا پاسِ خاطر تھا تو معاملات کو معمول پر رکھا اور بالآخر یہ مرحلہ بھی شروع ہوا-
یہ مرحلہ جیسے ہی شروع ہوا تو ایک دفعہ پھر جنگ بندی، تشدد کو ختم کرنے کے نعرے بلند ہوئے-کابل انتظامیہ نے اسی انداز سے بھرپور دہائی دی-میڈیا اور دانشوروں کو نئے سرے سے پھر برسرپیکار کردیا-رواں دنوں جب ھلمند میں طالبان نے کابل انتظامیہ کی مذاکرات سے بطورِ استفادہ پیش قدمیوں کو روکنے کے لیے کچھ اقدامات کیے تو کابل انتظامیہ نے میڈیا اور خود ساختہ دانشوروں کی مدد سے آسمان سر پر اٹھایا اور یہ پروپیگنڈا انتہائی شدت سے کیا کہ طالبان امن کو تباہ کررہے ہیں،تشدد کی راہ کو وسعت دے رہے ہیں وغیرہ وغیرہ-
جبکہ اصل صورتحال یہاں یہ ہے کہ امارتِ اسلامیہ کے سرفروش جہاں جہاں بھی کوئی کاروائی کرتے ہیں اگر میڈیا سچائی سے کام لے اور گہرائی میں جانے کی زحمت کیے بغیر معمولی سطح کا کوئی سروے کرلے تو انہیں نظر آئےگا کہ یہ سب کچھ کابل انتظامیہ کے غنڈوں کے جبر وستم پر مبنی کاروائیوں کے ردّعمل کے سوا کچھ نہیں-
تفصیل میں جائے بغیر ذرا کابل انتظامیہ،میڈیا اور وہ تمام افراد جو طالبان کے بارے میں صبح شام تشدد کاراگ الاپتے ہیں اس کاروائی تشدد کہنے پر آمادہ ہونگے جو ۱۶ اکتوبر کو صوبہ فراہ میں کابل انتظامیہ اور امریکا کی مشترکہ کارستانی پر مبنی ہے-طالبان کا ایک قیدی جو بگرام جیل سے رہا ہوا تھا-امریکا اور کابل انتظامیہ دونوں کی جانب سے اس کا جرم اور اس کی سزا انتہاء کو پہونچنے پر اتفاق ہوگیا تھا-لیکن اس سب کچھ کے باوجود ۱۶ اکتوبر کو بغیر کسی جرم کے دن دہاڑے برسرِ بازار شہید کردیا گیا-انتہائی تعجب خیز بات ہے کہ اس مظلوم کا آخر کیا گناہ تھا؟کیا جرم تھا؟ اس سے مستقبل میں کیاایساخطرہ متوقع تھا کہ اسے قتل کرنے کے علاوہ کسی صورت وہ ٹل نہیں سکتاتھا-
یہ ایک ہی ظلم کافی تھا مگر نہ جانے کیا حکمت سوجھی اور کونسی امن پالیسی سامنے آگئی کہ امریکا کے کارندے بھی حرکت میں آگئے اور بے دریغ بمباری کرکے ۱۲ افراد کو شہید کردیا –
یہ درندگی مذاکراتی دوران کی محض ایک چھوٹی سی مثال ہے مگر!
دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی ایک چینل پر اس عظیم الشان درندگی کی خبر تک چلائی نہیں گئی؛کیونکہ میڈیا کو تو تشدد کی نشاندہی کرادی گئی ہے اس لیے انہیں صرف وہیں نظر آتاہے-