جمہوریت میں میڈیا کی آزادی

تحریر:سیدافغان 6 جولائی کو کابل انتظامیہ کے چند سرکردہ افراد نے افغان میڈیا کی اکثریت کو مدعو کیا تھاـ یہ مدعو کی اصطلاح میں ان کی تعبیر استعمال کررہا ہوں ورنہ تو سب کو زور زبردستی جمع کیا گیا تھاـ میڈیا کے ذمہ داروں کے سامنے کابل انتظامیہ کے حمداللہ محب، قاسم حلیمی اور متعدد […]

تحریر:سیدافغان
6 جولائی کو کابل انتظامیہ کے چند سرکردہ افراد نے افغان میڈیا کی اکثریت کو مدعو کیا تھاـ یہ مدعو کی اصطلاح میں ان کی تعبیر استعمال کررہا ہوں ورنہ تو سب کو زور زبردستی جمع کیا گیا تھاـ میڈیا کے ذمہ داروں کے سامنے کابل انتظامیہ کے حمداللہ محب، قاسم حلیمی اور متعدد وزراء اور دیگر ذمہ داروں نے خطاب کیاـ اپنے خطابات میں ان وزراء نے حسبِ سابق دھونس دھمکی کا استعمال کرتے ہوئے میڈیا کو خبردار کیا کہ تمام تر نشریات قانون کے مطابق ہوـ قانون کی تشریح کرتے ہوئے وزیرعدلیہ نے کہا کہ ریاست یعنی کابل انتظامیہ کے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے لب ہلانے چاہیےـ ساتھ ہی انہیں بڑے سخت الفاظ میں متنبہ کیا کہ کابل انتظامیہ کے مقتولین کے لئے ملی شہید کا لفظ استعمال کیا جائےـ اور اس سے بھی سخت الفاظ میں گویا آخری وارننگ دی کہ جو لوگ کابل انتظامیہ کے مخالف ہیں ان کے بیانات اور انٹرویوز نشر کرنے کی قطعا اجازت نہیں ہےـ
جس وقت یہ پروگرام میڈیا پر چل رہا تھا میں تو حیرت سے دم بخود ہورہا تھاـ وہ کابل انتظامیہ جو بین الافغان مذاکرات کے شروع سے لے کر آج تک اظہار رائے کی آزادی پر زور دے رہی ہےـ جو اظہار رائے کی آزادی کے نام پر سیاسی مشغلہ اپنائے ہوئی ہےـ جو ہر فورم پر جا کر اس نعرے کو امارتِ اسلامیہ کے خلاف استعمال کررہی ہےـ جو اس لیبل کو اٹھا کر بین الاقوامی دنیا کو باقاعدہ خطوط لکھ رہی ہے اور اسے اس مسئلہ کی جانب متوجہ کرکے اس مسئلہ کی اہمیت دلارہی ہےـ آج جب وہ حقیقت کے میدان میں کھڑی ہوئی تو اس گھٹیا پن پر اترآئی کہ اظہارِ رائے کرنے والوں کو دھمکیاں دینے لگی ـ
اس پر مستزاد یہ کہ اس ساری صورتحال کو بین الاقوامی دنیا نے بچشمِ خود دیکھا مگر کوئی نوٹس نہیں لیاـ جبکہ ابھی گزشتہ دنوں محض بے بنیاد الزامات کی بنیاد پر کابل انتظامیہ نے امارتِ اسلامیہ کی مذمت کی اور الزام لگایا کہ امارتِ اسلامیہ نے اپنے زیرِ کنٹرول علاقوں میں میڈیا پر پابندی لگائی ہےـ اور پھر اس بے بنیاد الزام کی وجہ سے آسمان سر پر اٹھالیاـ پھر اسی بے بنیاد الزام تراشی کو لے کر امریکی سفارت خانہ نے بھی نہ صرف یہ کہ مذمت کی بلکہ اپنے تئیں خطرناک انجام کی دھمکی بھی دی ـ جس کا جواب جناب ذبیح اللہ مجاہد صاحب نے فوری طور پر دیا اور امریکی سفارت کو بتایا کہ محض جھوٹے الزامات کا سہارا لے کر ہمارے ملک میں پولیس کی ذمہ داری سے باز آجائےـ اور اپنی ذمہ داری پہچان لےـ مگر آج جبکہ حقیقت میں میڈیا کو سنسر کیا جارہا ہے تو کابل انتظامیہ تو ہے ہی شرم سے عاری البتہ اظہار رائے کی آزادی کے ٹھیکیدار امریکا اور یورپ بھی اپنی لبوں پر مہر سکوت لگائے رکھے ہیں ـ
میڈیا کے سامنے کابل انتظامیہ کے ذمہ داروں کی یہ بریفنگ اس وقت حقیقت کے سامنے نمودار ہوئی جب بعض میڈیا ذمہ داروں اور اینکر پرسن نے دبے لفظوں کچھ کچھ باتیں باہر نکالی ـ واقعہ یہ ہوا تھا کہ اسی دن شام کو امارتِ اسلامیہ کے کمیشن برائے دعوت وارشاد کے سربراہ جناب امیرخان متقی صاحب کا انٹریو ایک افغان چینل پر نشر ہونا تھا جو پہلے سے ریکارڈ ہوا تھاـ مگر عین نشر کے وقت اعلان ہوا کہ وہ انٹرویو مؤخر کردیا گیاـ کیوں مؤخر کردیا گیا؟ اس کی وجہ سامنے نہیں آئی ـ بعد میں جب امارتِ اسلامیہ نے سوشل میڈیا پر احتجاج کیا تو دباو میں آکر اس چینل نے وضاحتی بیان جاری کردیا کہ کابل انتظامیہ کی پوری مشینری اس بارے میں ہمیں دھکمیاں دے رہی تھی کہ کسی صورت یہ انٹرویو نشر نہیں ہوگاـ چینل نے بعد میں ایک تفصیلی رپورٹ بھی جاری کردی جس میں بتایا گیا کہ کابل انتظامیہ نے تمام میڈیا ذمہ داروں کو انتظامیہ کی منشا کے مطابق چلنے کو کہاـ اور مزید بتایا کہ جو سرِ موانحراف کرے گا اسے عواقب بھگتنے پڑیں گےـ اسی رپورٹ میں میڈیا ذمہ داروں نے بھی کابل انتظامیہ کی اس سنسر شپ کے حوالہ سے خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا تھاـ اور اس اقدام کو اظہار رائے کی آزادی پر قدغن قرار دے دیاـ
یہاں یہ نکتہ بھی قابلِ غور ہے کہ افغان میڈیا نے گزشتہ بیس سال مسلسل کابل انتظامیہ اور امریکی جارحیت پسندوں کے ہاں میں ہاں ملاتا رہا اور اس پورے عرصہ میں وہ امارتِ اسلامیہ سے ڈنکے کی چوٹ پر اپنی دشمنی کا اظہار کرتا رہاـ امارتِ اسلامیہ جو ملک وملت کی فلاح وبہبود اور آزادی واستقلال کے لئے جان ومال اور گھر بار سمیت ہر چیز کی قربانی دیتی رہی اور تاریخ ساز فدا کاری سے پیش آتی رہی ـ اپنے عوام کی مظلومیت کو آشکار کرنے کے لئے چیخ وپکار کرتی رہی مگر یہ غلام میڈیا کبھی بھی اس کی معاونت نہ کرسکا معاونت کیا ہمیشہ حد سے زیادہ اس کے خلاف زہر بھی اگلتا رہاـ اس کے برعکس امریکی جارحیت پسندوں اور اس کے غلاموں اور کرایہ کے قاتلوں کے مظالم کے لئے ہمیشہ تاویلات ڈھونڈتا رہاـ
اللہ کی نصرت جب آئی اور کامیابی امارتِ اسلامیہ کے ہمکنار ہوئی تو یہ میڈیا شور کرتا ہوا دکھائی دیاـ مدعا یہ تھا کہ مبادا کل کو طالبان ہماری آزادی سلب نہ کرلےـ حالانکہ وہ آج تک جس حالت میں تھا وہ بذاتِ خود غلامی کی بدترین شکل تھی ـ امارتِ اسلامیہ لاکھ صفائی دیتی کہ امارتِ اسلامیہ تو آپ کے حقوق کے لئے بھی لڑ رہی ہے اور تمھاری آزادی کے لئے ہی جد وجہد کررہی ہے لیکن اس غلام میڈیا کو چونکہ پہلے سے منصوبہ کے تحت حکم دیا گیا تھا اس لئے وہ مسلسل ڈھنڈورا پیٹتا رہاـ اب طالبان نے تو کبھی اس کی آزادی کو چیلنج کیا تھا اور نہ ہی آئندہ کوئی ایسا ارادہ ہے لیکن جس نام نہاد جمہوریت کے لئے وہ صبح شام چیختے رہتے تھے اس جمہوریت نے ان کا گلا ضرور گھونٹ لیاـ جس کا ایک مظہر جناب متقی صاحب کے انٹرویو کے حوالہ سے سامنے آیاـ
جمہوریت کا لبادہ اڑے ہوئے بیرونی ایجنڈے کے پیروکار اور کابل انتظامیہ یہ شوشا جس زور سے چھوڑتے ہیں کہ اظہار رائے کی آزادی جمہوریت کا حسن ہے تو آج وہ یہ حسن کھو گئے ہیں؟ کیا جو لوگ ملک کے اسی فیصد حصہ پر کنٹرول رکھتے ہیں اور باشندوں کو تو چھوڑئیے سردست جو ان کے دشمن ہیں ان سے بھی ان کارویہ انتہائی ہمدردانہ ہوتا ہےـ پوری دنیا ان کے کنٹرول کا اعتراف کررہی ہے انہیں یہ حق نہیں ہے کہ اپنا موقف دنیا تک پہنچادے؟
جمہوریت کے لبادے میں گزشتہ بیس سال سے یہی کچھ ہوتا رہا کہ اظہارِ رائے کی آزادی کو آڑ بنا کر دوسروں پر کیچڑ اچھالتے رہےـ دوسروں کی عزت وآبرو پر حملہ آور ہوتے رہےـ اپنے مخالف کے خلاف ہر حد تک جاتے اور جھوٹ،پروپیگنڈا، بہتان اور الزام تراشی میں کوئی کسر نہ چھوڑتےـ حالانکہ سادہ انداز میں اظہارِ رائے کی آزادی کا مطلب تو یہ ہے کہ مخالف کو بھی کم از کم اپنے موقف کے اظہار کا کھل کر موقع دینا چاہیے تاکہ پتہ تو چل جائے کہ واقعی وہ غلط راستوں میں بھٹک گیا ہے یا ویسے ہی غلط فہمی پھیلائی جارہی ہے؟لیکن آزادی اظہار رائے کے تمام قواعد وضوابط کو پاوں تلے روندتے ہوئے گزشتہ بیس سال میں امریکا اور کابل انتظامیہ نے زور زبردستی امارتِ اسلامیہ کے موقف کو ایسے دبائے رکھا کہ ہرسو صرف پروپیگنڈا ہی دکھتا رہاـ مگر یہ اصول ہے کہ حق دبنے سے مزید ابھرتا ہے اس لئے امارتِ اسلامیہ کا موقف پوری دنیا کے سامنے ابھر کر آیاـ البتہ شرم کی بات یہ ہے کہ جمہوریت اور اظہار رائے کی آزادی جیسے خوشنما نعروں کی نااہلوں نے جس طرح اپنے سیاہ کرتوت کی وجہ سے توہین کی ہے اس سے لفظ “جمہوریت اور آزادی بیان” ماتم کناں ہے!