جمہوریت کے دعویداروں کی جانب سے عوام کا قتل عام

آج کی بات کابل انتظامیہ کے سربراہ اشرف غنی نے ایک طرف جمہوریت کا نعرہ بلند کیا اور کہا کہ وہ آخر دم تک جمہوریت کا دفاع کریں گے لیکن دوسری طرف انہوں نے جمہوریت کی بقا اور دفاع کی خاطر عوام کا قتل عام اور فضائی حملوں میں نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے، […]

آج کی بات

کابل انتظامیہ کے سربراہ اشرف غنی نے ایک طرف جمہوریت کا نعرہ بلند کیا اور کہا کہ وہ آخر دم تک جمہوریت کا دفاع کریں گے لیکن دوسری طرف انہوں نے جمہوریت کی بقا اور دفاع کی خاطر عوام کا قتل عام اور فضائی حملوں میں نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے، صوبہ ہلمند میں حالیہ جرم اور اس سے قبل ملک کے مختلف حصوں میں کابل حکومت کی جانب سے نہتے شہریوں پر ظلم اور بربریت نے یہ ثابت کیا ہے کہ جمہوریت کے علمبردار اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے سب کچھ اپنے لئے جائز سمجھتے ہیں اور کسی قانون اور اصولوں کی پاسداری نہیں کرتے ہیں۔
ہلمند کے ضلع ناوہ میں شہریوں کو اس لئے نشانہ بنایا تاکہ اشرف غنی کا جمہوری اقتدار برقرار رہے، اس جمہوریت کا کیا فائدہ جو عوام کے لہو سے باقی رہے، عجیب تضاد ہے، ایک طرف جمہوریت کو عوام کی رائے سے ماخوذ نظام سمجھا جاتا ہے اور دوسری طرف اسی نظام کے لئے گزرے بیس سالوں سے عوام کا خون بہایا جارہا ہے، ان پر بمباری کی جاتی ہیں اور لاکھوں افغانوں کو جمہوریت کے قدموں میں قتل کردیا گیا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جمہوریت کے علمبرداروں کی ڈکشنری میں صرف ان کا سیاسی فارمولا (جمہوریت) تقدس تک اہم ہے اس کے علاوہ عوام، لوگ اور انانوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ ان کو نہایت بے رحمی سے قتل کرتے ہیں اور مختلف قسم کے ہتھیاروں کا تجربہ ان پر کیا جاتا ہے۔
افغان عوام کو چاہئے کہ وہ جمہوریت کے علمبرداروں کے ظلم و ستم پر گہری نظر رکھیں اور اس سے معلوم کرنا چاہئے کہ ان کے قول اور فعل میں واضح تضاد ہے، وہ محض عوام اور جمہوریت کے نعرے لگارہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ عوام کے لئے زندگی جینے کا حق بھی تسلیم نہیں کرتے ہیں، سیاسی اقتدار اور خودمختاری کا حق تو دور کی بات ہے۔
جمہوریت کے علمبرداروں کا یہ ظلم و ستم ہماری قوم کو کمیونسٹوں کے مجرمانہ دور کی یاد دلاتا ہے، جنہوں نے ڈیڑھ لاکھ افغانوں کو اپنے جھوٹے نظام کے لئے شہید کیا اور نعرے لگائے کہ ہمارے لئے بیس ملین سے چند ہزار افراد اہم ہیں اور وہ اپنے نظام کو مسلط کرنے کے لئے لاکھوں لوگوں کو قتل کرنے کے لئے تیار تھے۔
لیکن جس طرح کل کے کمیونسٹ اپنے مشن ، بمباری ، مظالم اور قتل عام میں ناکام رہے، ان کے فرسودہ نظام کو تقویت نہیں ملی، اسی طرح موجودہ ظالم اور سفاک بھی کو بھی مظالم اور قتل عام میں اپنی بقا کی تلاش کرنی چاہئے، بلکہ ان کے ظلم اور جارحیت کا نتیجہ اس کے برعکس ہوگا کیونکہ تاریخی تجربے کا اصول یہ ہے کہ کوئی جبر باقی نہیں رہتا، اللہ جلد ہی مظلوموں کی مدد کرتا ہے اور ظالم اپنے اعمال کی سزا دیکھتے ہوئے پوری انسانیت کے لئے عبرت بن جاتے ہیں۔