جنگجو اور ناکام تجربے کو دہرانے کی کوشش

آج کی بات ملک میں تیزی سے جاری فتوحات اور حکومت کے فوجی دستوں کے مجاہدین کے ساتھ بڑے پیمانے پر انضمام سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس ملک میں قابض افواج اور ان کے حامیوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ موجودہ صورتحال سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ افغانستان میں جنگ […]

آج کی بات
ملک میں تیزی سے جاری فتوحات اور حکومت کے فوجی دستوں کے مجاہدین کے ساتھ بڑے پیمانے پر انضمام سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس ملک میں قابض افواج اور ان کے حامیوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
موجودہ صورتحال سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ افغانستان میں جنگ کی سب سے بڑی وجہ قابض افواج کی جارحیت تھی، جارحیت کے حامی جنگ اور افغان عوام کے قتل عام سے جو توانائی حاصل کرتے تھے، اس کی وجہ بھی جارحیت تھی۔
مثال کے طور پر سن 2018 میں جب افغان فورسز نے قندوز کے ضلع دشت آرچی میں قرآن پاک کے حفاظ کرام کے مدرسہ پر بمباری کی، جس میں درجنوں معصوم طلبہ اور حفاظ بہیمانہ طریقے سے شہید ہوئے، سفاک دشمن نے بڑی بے شرمی سے اس کی ذمہ داری قبول کی کیونکہ اس کے پیچھے جارحیت کی آکسیجن تھی۔
لیکن گزشتہ روز جب انہوں نے مجاہدین اور عام شہریوں کا نعرہ تکبیر سنا تو اتنے خوف زدہ ہوگئے کہ چند لمحوں میں پورے ضلع سے پسپائی اختیار کی، کیوں کہ غیر ملکی آقاؤں کی فضائی مدد سے وہ مایوس ہوگئے ہیں، اگر اب بھی وہ قابض افواج کی فضائی مدد سے مایوس نہ ہوتے تو ملک کے کسی بھی حصے میں کسی ظلم سے باز نہیں آتے۔
حقیقت یہ ہے کہ قابض افواج اور جارحیت کی موجودگی افغانستان میں تمام مسائل اور بحرانوں کی جڑ ہیں، آج حالات تبدیل ہوگئے، ایک ماہ کے دوران سو کے قریب اضلاع جنگ کے بغیر یا معمولی مزاحمت کے نتیجے میں دشمن کے کنٹرول سے آزاد ہوگئے، افغان فورسز کے اہل کار جوق در جوق مجاہدین کے سامنے ہتھیار ڈال رہے ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ افغانستان میں جنگ غیر ملکیوں نے شروع اور مسلط کی تھی، افغان عوام کبھی بھی خانہ جنگی نہیں چاہتے ہیں۔
موجودہ صورتحال نے یہ بھی ظاہر کیا کہ قابض افواج کی طاقت اور ڈالر کے ذریعے تشکیل دی گئی حکومت نے افغان عوام کی مرضی کی نمائندگی نہیں کی، اگرچہ انتخابی ڈرامے رچائے گئے ، جمہوریت، ترقی وغیرہ جیسے خوشنما نعرے بہت لگائے گئے لیکن حقیقت اب عیاں ہوگئی کہ چند محدود مغرب نواز لوگوں اور ایکسپائر جنگجوؤں کو کروزر اور ڈرون کے ذریعے مسند اقتدار پر بٹھایا گیا تھا، جنہیں کوئی عوامی حمایت حاصل نہیں تھی۔
اسی طرح اربوں ڈالر کے اخراجات سے نام نہاد فوج کو بھی اس قوم کے لئے نہیں بلکہ کرائے کے قاتل کی حیثیت سے تشکیل دیا تھا، جو قابض افواج کے انخلا کے ساتھ ہی اس کا شیرازہ بکھر رہا ہے۔
آج ایک بار پھر کچھ سابق ناکام جنگجو کمانڈر ایک نئی مزاحمت کے نعرے لگارہے ہیں، قومی نوجوانوں کو متحرک کرنے اور ملیشیا تشکیل دینے کے بلند و بانگ دعوے کررہے ہیں، نئی جنگی طاقت تیار کرنے کے فیس بک کی آوازوں کو پھیلارہے ہیں اور یوں خانہ جنگی کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ان کے پیچھے بھی غیر ملکی ہاتھ کارفرما ہے۔
لیکن امارت اسلامیہ افغان عوام کی نمائندگی سے ہرگز کسی کو ایسے ناکام تجربات دہرانے کی اجازت نہیں دے گی۔ اگر وہ پھر بھی اپنی حماقت سے باز نہیں آتے ہیں، مزاحمت شروع کرنے کی کوشش کریں پھر اللہ تعالی کی مدد سے ماضی کی طرح انہیں ایک بار پھر کچل دیا جائے گا، ان کی سرکوبی کی جائے گی اور بھگا دیا جائے گا۔
ان جنگجوؤں اور کچھ مغربی نواز سیکولروں نے بیس سالہ جارحیت کے سائے میں قوم کے خزانے سے جائیدادیں اور بنگلے بنائے ہیں، ان کی حفاظت کے لئے ایک نئی مزاحمت یعنی خانہ جنگی شروع کرنے کے نعرے کو قومی مزاحمت کا نام دے رہے ہیں۔
یہ بات خود ہی ایک دھوکہ دہی ہے، افغان اور مسلم قوم چند ایکسپائر بندوق برداروں کے اثاثوں کے تحفظ کے لئے خود کو اور اپنے ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کی حماقت نہیں کرے گی۔