جنگی جرائم پر حیرت انگیز خاموشی

آج کی بات گزشتہ روز صوبہ غزنی کے ضلع گیلان کے صدر مقام جنڈا شہر میں افغان فورسز کی جانب سے مجاہدین شہداء کی لاشوں کو آگ لگانے کی ایک المناک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ کچھ دن پہلے قندھار کے پولیس سربراہ، نیز صوبہ سمنگان میں قومی سلامتی کے کے ڈائریکٹر نے […]

آج کی بات
گزشتہ روز صوبہ غزنی کے ضلع گیلان کے صدر مقام جنڈا شہر میں افغان فورسز کی جانب سے مجاہدین شہداء کی لاشوں کو آگ لگانے کی ایک المناک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔
کچھ دن پہلے قندھار کے پولیس سربراہ، نیز صوبہ سمنگان میں قومی سلامتی کے کے ڈائریکٹر نے اپنے سرکاری دفاتر میں اپنے جنگجوؤں کو طالبان قیدیوں کو مارنے کا حکم دیا۔
کبھی کبھی میدان جنگ میں عام جنگجو کی جانب سے ایسے المناک واقعات رونما ہوتے ہیں جو جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں اور مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے مستحق ٹہرتے ہیں۔
لیکن جب صوبائی پولیس چیف یا قومی سلامتی کے صوبائی ڈائریکٹر جیسے اعلی حکام سرکاری وردی میں اپنے سرکاری دفاتر میں اپنے جنگجوؤں کو انسانیت کے خلاف جنگی جرائم کی ترغیب دیتے ہیں بلا شبہ یہ بات واضح ہے کہ حکومتی سطح پر ایسے انسانیت سوز کارروائیوں کے لئے ترغیب دی جاتی ہے۔
کابل انتظامیہ کے اعلی سرکاری حکام اس طرح کے احکامات سے مجاہدین کی جانب سے مسلسل اضلاع کو فتح کرنے کا سلسلہ روکنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
لیکن افغانستان میں انسانی حقوق کی تنظیمیں اور خاص طور پر یوناما کے حکام ایسے ظالمانہ جنگی جرائم پر خاموش کیوں ہیں؟
اس طرح کے جنگی جرائم جن کے مجرمین اپنے سرکاری فرائض کے دوران مسلسل مرتکب ہورہے ہیں، در حقیقت انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے بین الاقوامی کمیٹی، افغان آزاد انسانی حقوق کمیشن اور عام طور پر انسانی حقوق کے دفاع کے نام پر تمام تنظیموں کے لئے ایک چیلنج ہے۔
مجاہدین نے اب تک ہزاروں سیکیورٹی اہلکاروں کو سو سے زیادہ اضلاع کو فتح کرنے کے موقع پر حراست میں لیا ہے، ان کے ساتھ انسانی سلوک کیا، انہیں بھائی قرار دیا اور مختلف تحائف دے کر گھر بھیج دیا۔
کابل انتظامیہ جو ہتھیار ڈالنے والے اپنے فوجیوں کو اس عمل سے روکنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے، برعکس افغان اہل کار مجاہدین کے شہداء کی لاشوں کی تضحیک کرتے ہیں، تاکہ افغان افواج کے خلاف ان کے جذبات ابھارنے اور انتقام لینے پر اکسانے کی کوشش ہے۔
تاہم کابل انتظامیہ کو یہ سمجھنا چاہئے کہ مجاہدین اپنا جہاد اور تمام فوجی آپریشن شریعت کے دائرے میں رہ کر کرتے ہیں۔
امارت اسلامیہ کی قیادت اور فوجی عہدیدار اپنے مجاہدین کو ہمیشہ یہ مشورہ دیتے ہیں کہ ہتھیار ڈالنے والے فوجیوں کے ساتھ نیک سلوک کریں اور کسی کو بھی شرعی ہدایات کے خلاف کام کرنے کی اجازت نہ دیں۔