جی ہاں! یہاں ملامت کسی پر نہیں

تحریر:سیدعبدالرزاق امریکا نے افغانستان پر جس وقت حملہ کیا تو لوگوں کو ورغلانے کے لیے کچھ ضمیرفروش آگے کرکے انہیں قوم کے حقیقی نمائندوں کے طور پر پیش کیا اور پھر انہیں افراد کو نام نہاد حکومت کی زمام حوالہ کردی ـ ہر ایک کے لیے ایسے الفاظ تراشے گئے جن سے لگتا تھا قوم […]

تحریر:سیدعبدالرزاق
امریکا نے افغانستان پر جس وقت حملہ کیا تو لوگوں کو ورغلانے کے لیے کچھ ضمیرفروش آگے کرکے انہیں قوم کے حقیقی نمائندوں کے طور پر پیش کیا اور پھر انہیں افراد کو نام نہاد حکومت کی زمام حوالہ کردی ـ ہر ایک کے لیے ایسے الفاظ تراشے گئے جن سے لگتا تھا قوم کا بہی خواہ صحیح معنوں میں یہی ہوگاـ ملک کی ہمدردی تو بس اسے میسر آئی ہوگی ـ کسی کو جنرل کالقب دے کر یہ باور کرایا گیا کہ یہی شخصیت وہ آزمودہ کار سپاہی ہے جو ملک کو ہر گھمبیر صورتحال سے نکال سکتی ہےـ کسی کو بلاوجہ مارشل کا خطاب دے کر قوم کی ہمدردی اس کی طرف موڑنے کی کوشش کی گئی ـ کسی کو ماہر معیشت کے نام سے موسوم کرکے یہ جتانے کی کوشش کی گئی کہ یہی عظیم مردِ توانا ملک کو بحرانی کیفیت سے نکال سکتا ہےـ کوئی بیرون ملک شہری یہاں برآمد کرکے اصلیت کی ڈگری سے نوازا گیا اور باور یہ کرایا گیا کہ امید کی کرن اسی کی ذاتِ گرامی میں منحصر ہےـ
مگر تجربہ سے یہی ثابت ہوا کہ جس کو جس بابت لقب دیاگیا اس نے وہیں ملک وملت کا بیڑا غرق کر ڈالاـ جس کی ہمدردی کا ڈنکا بجایا گیا اس سے زیادہ خونخوار کوئی سامنے نہیں آیاـ جسے اس لیے جنرل اور دیگر القابات سے نوازا گیا کہ یہ ملک وقوم کو گھمبیر صورتحال سے چھٹکارا دے گا اسی نے صورتحال کی وہ درگت بنائی جس کی کوئی مثال نہیں ملتی ـ وہ آیا تھا امن قائم کرنے مگر جنگ کی انہونی سے بھی زیادہ بکھیڑے پیدا کردئیےـ افرادِ ملت کو گوناگوں کیفیات سے بلاوجہ جکڑدیاـ جس شخص کو مارشل کا خطاب دے دیا گیا تھا اصولی طور پر وہ ایک محبوب، ہر دلعزیز اور ملک کے لئے قابل فخر کارنامہ سرانجام دینے والا ہونا چاہیے تھا مگر کیفیت یہاں یہ بنی ہے کہ اس سے زیادہ مبغوض اور عوام وخواص کے لیے قابلِ نفرت پورے ملک میں شاید ہوـ جنھیں معیشت کے افلاطون قرار دے کر اعلی مناصب پر فائز کردیا گیا اس سے زیادہ قوم کو بحرانی کیفیت میں کسی نے مبتلی نہیں کیاـ
اس تسلسل کا ایک فرد اشرف غنی ہےـ جس وقت اس کا ستارہ ڈگمگارہا تھا اور بیرونی آقاووں نے اسے برائے نام تخت سونپنے کا ارادہ کرلیا تھا تو قوم کے سامنے اس کا تعارف وقت کے ارسطو سے کرادیا گیاـ کیا معیشت ،کیا تاریخ الغرض ہر فن مولی قرار دے دیا گیاـ خود اشرف غنی جب کبھی موقع پاتا تو اپنے فضائل اور مہارتوں کا ایک ناختم ہونے والا سلسلہ بیان کرتاـ اس میں سب سے زیادہ جن چیزوں کو وہ اچھال اچھال کربیان کرتا ان میں ایک چیز اس کی تاریخ دانی تھی جس پر وہ بہت ہی نازاں رہتا تھا اور قوم کو یقین دہانی کراتا تھا کہ افغانستان کا ہر باشندہ اس کی اس مہارت سے بہرہ مند ہوگاـ لیکن ابھی رواں مہینے میں جب ہجری شمسی تاریخ کی چودہ صدیاں مکمل ہونے کو ہے ـ اور آخری سال کا آغاز ہوگیا تو اس بابرکت موقع پر کابل انتظامیہ نے سالِ نو کی مناسبت سے پروگرام منعقد کیا اور اس میں اشرف غنی نے خطاب کیاـ اس خطاب میں اشرف غنی ہی نے اپنی تاریخ دانی کا کچھ اس انداز سے پول کھول دیا کہ گزشتہ تمام باتیں ہوا ہو کر رہ گئیں ـ موصوف کا کہنا ہے کہ ہجرتِ نبویہ سے لے کر آج پندرہ صدیاں مکمل ہوگئی ہیں اور اب نئی صدی شروع ہورہی ہےـ ” ظاہر ہے اشرف غنی جو خطاب کرتا ہے اس کے لیے پہلے سے تیاری کرتا ہے اور سب کچھ لکھ کر ساتھ لاتا ہے اس لیے یہ بدگمانی تو ہونہیں سکتی کہ سبقتِ لسانی ہوئی ہوـ پھر موصوف جس قدر دقت سے صدی کی تکمیل کا پژمردہ سنارہا ہے حالانکہ ابھی صدی مکمل نہیں بلکہ آخری سال شروع ہوا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دراصل اس کی تاریخ دانی ہی اسے یہ کہنے پہ مجبور کرتی ہےـ کیونکہ یہ تو ہم کہہ سکتے ہیں حسنِ ظن کی بنیاد پر کہ چودہ اور پندرہ میں اس سے کوئی چوک ہوئی ہوگی مگر جو صدی کی تکمیل کا جس وثوق سے کہا جارہا ہے وہ تاویل سے مبرا اور کسی طرح بھی وجہ بیان کرنے کے لئے موزون نہیں ہوسکتاـ
پھر قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ جس طرح امارتِ اسلامیہ کابل انتظامیہ کی پوری ٹیم کے بارے میں یہ موقف رکھتی ہے کہ یہ برآمد شدہ جماعت ہے جو استعماری مفادات کے لئے استعمال ہورہی ہے اسی موقف کو یہ جماعت اپنے اقوال اور اعمال سے تقویت پہنچارہی ہےـ سالِ نو کے مراسم کے لئے جو تقاریب منعقد ہوئیں ان میں سے ایک تقریب کے اندر خطاب کرتے ہوئے اشرف غنی نے اپنے گورنروں کی کچھ حالت اس طرح بیان کی·”میں نے اپنے ایک گورنر سے پوچھا: بتاو صوبہ قندوز کے مرکز کا نام کیا ہے؟ تو جواب میں وہ صاحب کہنے لگے “کنر” (یاد رہے کہ کنر باقاعدہ اور مستقل صوبہ ہے اور قندوز کے ساتھ سینکڑوں میل کی مسافت رکھتا ہے) پھر اشرف غنی نے کہا: ایک یہ گورنر ہی نہیں اکثریت عملہ افغانستان کے شہروں اور صوبوں کے نام تک سے نا آشنا ہیں ـ ”
اب اس بات پر تو اشرف غنی کو ماتم کرنا چاہیے تھا مگر آگے جو کچھ انہوں نے کہا اس سے آپ موصوف کی ڈھٹائی کا خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں ـ موصوف نے مزید کہا: میں انہیں اس ناواقفیت پر ملامت بھی نہیں کرتا کیونکہ یہ سب تو باہر سے آئے ہوئے ہیں انہیں کیا پتہ ہوگا؟”
ظاہر ہے ملامت تو یہاں کسی پر بھی نہیں ہے؛کیونکہ یہ سب تو آقا کی خدمت میں دن رات کیے ہوئے ہیں ـ ملامت تو وہی ہے ہے جو ملک وملت کے مفادات کے لیے استعمار کی خلاف ورزی کررہا ہےـ البتہ اس سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ امارتِ اسلامیہ نے جو موقف اختیار کیا تھا ااسے آج یہ طبقہ اپنے فرمودات سے خود ثابت کررہاہےـ