حافظ بدرالدین حقانی شہید کے حیات اور کاناموں پر ایک نظر

عبدالرؤف حکمت ہماری قابل فخر تاریخ میں صدیوں سے ہر منزل پر قابل فخر شخصیات کا پڑاؤ رہا ہے ۔ ان شخصیات اور تاریخی لوگوں میں کچھ وہ لوگ ہیں جنہوں نے علم ، تصوف ، تصنیف ، ادب وثقافت ، اجتماعی خدمت اور دیگر شعبوں میں بلند کردار ادا کیا ۔ اور بہت سی […]

عبدالرؤف حکمت

ہماری قابل فخر تاریخ میں صدیوں سے ہر منزل پر قابل فخر شخصیات کا پڑاؤ رہا ہے ۔ ان شخصیات اور تاریخی لوگوں میں کچھ وہ لوگ ہیں جنہوں نے علم ، تصوف ، تصنیف ، ادب وثقافت ، اجتماعی خدمت اور دیگر شعبوں میں بلند کردار ادا کیا ۔ اور بہت سی شخصیات ایسی ہیں جو راہ جہاد کے سرفروش مجاہد رہے۔ آج مسلم قوم  ان کے نام پر فخر کرتی ہے ۔

جس طرح تاریخ کے طول وعرض میں قابل شخصیات اور قابل فخر جہادی خاندان رہے ہیں الحمد للہ آج کے دور میں بھی ہم  اس فخر سے بہرہ مند ہیں ۔ ملک کے طول وعرض میں بہت سے ایسے جہادی خاندان ہیں جو اپنے نوجوانوں کی تربیت جہاد ، دین کی حفاظت ، اور شہادت کی روایات کو برقرار رکھنے کے لیے کرتے ہیں ۔ جن کی ساری زندگی دین الہی کی خدمت کے لیے وقف ہوتی ہے۔   ایسے قابل فخر دین دار ، جہادی خاندانوں میں سے ایک نمایاں خاندان افغانستان  کے جنوب مشرقی علاقے پکتیا میں  دواستعماروں کو شکست سے دوچار کرنے والے عظیم مجاہد مولوی جلال الدین حقانی کا خاندان ہے ۔ اس عظیم خاندان کی سابقہ اور موجودہ تاریخ کی ورق گردانی کریں اور ان کے جہادی کارنامو اور شہادتوں پر طائرانہ نگاہ ڈالیں تو پشتو کے عظیم شاعر خوشحال  خان خٹک  کا یہ شعر بے اختیار زبان پرآجاتاہے ۔

لوی واړه مې شهیدان وګور ته تللي

پُشت په پُشت مې دا هنر دی  آل په آل

(ترجمہ: ہمارے چھوٹے بڑے سب قبروں میں شہید ہوکر گئے ، یہ ہنر پشت در پشت نسل درنسل ہمارے پاس ہے ۔ )

جی ہاں حقانی خاندان افغان عوام کے انہیں خاندانوں میں سے ہے جنہوں نے شہادتوں کے فلک بوس مینار کھڑ کردیے ۔ اس خاندان کے ارکان کے سینوں پر جہاں مشرقی سپر پاور نے اپنے اسلحہ کے ذخائر پھونک دیے وہاں مغربی سپرپاور کے طاقتور ترین اسلحوں کے لیے بھی اسی خاندان کے سینے ڈھال بنے رہے ۔ اس خاندان نے تحریک حریت کی جڑوں میں ہمیشہ اپنے شہداء کا خون ڈالا۔ ذیل میں اسی غازیوں اور شہیدوں کے خاندان کے ایک نو خزاں شدہ پھول حافظ بدرالدین حقانی کی حیات اور کارناموں پر ایک نظر ڈالیں گے ۔

بدرالدین حقانی شہید:

جب افغانستان پر روسی جارحیت کا دور تھا اور اس کے خلاف افغان عوام کی مزاحمتی تحریکی شروع تھی ۔ افغانستان کے جنوب مشرقی پہاڑی سلسلے اور جنگل روسیوں کے لیے قبرستان بنتے جارہے تھے ۔ اس وقت پکتیا ، پکتیکا اور خوست کے پہاڑوں اور دروں میں ایک پہاڑی افغان جلال الدین حقانی نامی شخص سوویت لشکر کے آخری دستے پر حملہ آور ہورہاتھا ۔ بعد ازاں یہ شخص اسلامی دنیا کی سطح پر “جلال الدین حقانی ، قائد المیدانی ، امام شامل ثانی ” کے القاب سے مشہور ہوگیا ۔ جہاد کے اسی گرم مرحلے پررمضان المبارک 1406ھ کے پہلے دن جہادی قافلے کے اس عظیم رہبر کے گھر میں شمالی وزیرستان میرانشاہ میں ایام ہجرت میں ایک بچے کی ولادت ہوئی جس کانام “بدرالدین ” رکھاگیا ۔

بدرالدین کی پرورش ان کے مجاہد باپ  کی گود میں ہوئی ، زندگی کے پہلے اداب ، اخلاق اور عقائد انہوں نے اپنے والد سے سیکھے ۔ وہ بہت چھوٹے تھے جب انہوں نے میران شاہ میں حقانی صاحب کے عظیم مدرسے منبع العلوم کی شاخ انجمن القرآن میں داخل ہوگئے ۔ اور اس کے ساتھ عصری علوم کے تعلیمی ادارے میں بھی داخلہ لیا۔ انہوں نے سکول چھٹے کلاس تک پڑھا اور اس کے ساتھ قرآن کریم کا حفظ بھی شروع کردیا ۔ ان کی عمر صرف دس سال تھی جب انہوں نے حفظ قرآن کریم کی تکمیل کی ۔

دینی تعلیم :

بدرالدین حقانی نے حفظ قرآن کریم کی تکمیل کے بعد دینی علوم کی تحصیل شروع کردی ۔ اس سلسلے میں میران شاہ کے جامعہ منبع العلوم ، خیبر پختونخواکے مختلف مدارس میں دینی علوم کی تحصیل شروع کی ۔ اسی طرح امارت اسلامیہ کے دور اقتدار میں انہوں نے کابل میں اپنے والد سے خاص طورسے کچھ کتابوں کا درس شروع کردیا جو موقوف علیہ درجہ سابعہ کی تکمیل تک جاری رہا ۔

امریکا کے خلاف جہاد:

افغانستان پر امریکی جارحیت کے وقت حافظ بدرالدین حقانی نوجوانی کی دہلیز پر قدم  رکھ چکے تھے ۔ چونکہ ان کی تربیت ان کے مجاہد والد کے ہاتھوں ہوئی تھی اور ان کا تعلق جہادی خاندان سے تھا اس لیے انہوں نے زندگی کی دوسری مصروفیات ترک کردیں اور جہاد کے جذبے سے سرشار میدان جنگ میں اتر گئے ۔

حافظ بدرالدین حقانی نے شروع میں ایک عام مجاہد کی حیثیت سے پکتیا ، پکتیکا اور خوست کے جنگی محاذوں پر دشمن کے خلاف جہادی کارروائیاں شروع کردیں۔ چونکہ مولوی جلال الدین حقانی کا شمار ان رہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے بذات خود بنفس نفیس جنگوں میں حصہ لیا تھا اس لیے حافظ بدرالدین سمیت ان کے کئی اور بیٹے بھی جنگوں میں شریک ہوگئے ۔ گوریلا جنگ میں کچھ عرصہ خدمات انجام دینے کے بعد انہیں فدائی حملوں کے ایک یونٹ کا سربراہ بنایا گیا ۔ شہادت کے دن تک انہوں نے یہ ذمہ داری بخوبی نبھائی ۔ اور پوری بہادری اور استقامت سے اپنا کام کرتے رہے ۔ مخصوص فدائی حملوں کی منصوبہ بندی کے علاوہ جنوب مشرقی زون کے تنظیمی ریاست کے سیکرٹری اور صوبہ خوست کے عسکری ذمہ دار کی حیثیت سے اور اسی طرح دیگر جہادی خدمات اور ذمہ داریاں بھی نبھاتے رہے ۔

کفر شکن فدائی حملے:

بدرالدین حقانی کا شمار امارت اسلامیہ کی صفوں ایک ذہین، مدبر اور فعال عسکری شخصیات میں ہوتا ہے ۔ گذشتہ بارہ سالوں میں انہوں نے اپنے پورے تحقیق کے ساتھ مرتب کردہ منصوبوں اور کامیاب حملوں کے ذریعے دشمن کو باربار شدید نقصانات سے دوچار کیا ۔

کابل ، بگرام ، پکتیا ، خوست ، میدان وردگ ، اور ملک کے دوسرے علاقوں میں بدرالدین حقانی کے جدید طرز سے کئے گئے حملوں اور ان کے بارے میں دشمن کے اعترافات سے ہمارے اس دعوے کی تصدیق ہوتی ہے ۔

سرفروش مجاہدین کے ہاتھوں بدرالدین شہید کے ترتیب شدہ کامیاب حملوں سے دشمن کو کئی سخت نقصانا ت اور رسوائی کا سامنا رہا۔ اسی لیے دشمن نے ان کے خلاف شدید پروپیگنڈہ شروع کردیا ۔ دشمن نے کوشش کی تاکہ میڈیا پروپیگنڈے کے ذریعے حقانی صاحب کے ساتھیوں کو امارت اسلامیہ سے الگ ایک گروپ ثابت کیا جائے مگر دشمن کے اس پروپیگنڈے کی بھی امارت نے سختی سے تردید کی۔ حافظ بدرالدین حقانی نے اپنی ذمہ داری کے دور میں دشمن کے مراکز پر75 مختلف النوع بڑے فدائی حملے کیے جس میں بگرام ، کابل اور خوست کے جیسے بڑے آپریشن شامل ہیں ۔

ان کارروائیوں میں خوست کے صحراباغ میں قائم امریکی مرکز پر آپریشن ، خوست کے صوبائی مرکز پر آپریشن ، ضلع دومندو میں حملہ ، صبریو کے امریکی اڈے اور بگرام کے ہوائی اڈے پر بڑا حملہ ، انٹرکانٹی نینٹل ہوٹل پر حملہ اور دارالحکومت کابل میں کچھ دیگر بڑے اہداف پر آپریشن ، جس سے دشمن کو سخت جانی ومالی نقصانات پہنچے ۔

بالآخر  شہادت:

بدرالدین حقانی جسے جارحیت پسند امریکی اپنے دشمن کی حیثیت سے جان چکے تھے ۔ کافی عرصے سے امریکی غاصبوں کا ہدف بن گئے تھے ۔ اسی لیے ان کا نام بلیک لسٹ میں شامل کیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ بالآخر دشمن کے مسلسل حملوں اور کوششوں کے بعد ڈرون طیارے کے حملے میں کچھ فدائی مجاہدین کے ساتھ شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہوگئے ۔ انا لله وانا الیہ راجعون

امارت اسلامیہ کے رہبری شوری نے بدرالدین حقانی کی شہادت کی مناسبت سے نشر ہونے والے اعلامیہ میں کہا :” امارت اسلامیہ افغانستان ان کے والد محترم معروف جہادی اور علمی شخصیت مولوی جلال الدین حقانی صاحب حفظہ اللہ ، ان کے خاندان ، ساتھیوں اور دوستوں کو ان کی شہادت کی مبارک باد پیش کرتی ہے ۔ بدرالدین شہید صلیبی جارحیت پسندوں کے خلاف جاری حالیہ جہاد میں ناقابل فراموش کردار کے حامل ایک بہادر مجاہد تھے جنہوں نے دفاع حق کے محاذ پر تاریخی خدمات انجام دیے ۔ اللہ تعالی ان کی جہادی خدمات قبول فرمائے اور جنت میں بلند درجات اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطافرمائے ۔

امارت اسلامیہ بدرالدین شہید جیسے جوانوں کی خدمت اور قربانی پر فخر کرتی ہے کہ انہوں نے اپنی جوانی دین کی خدمت کے لئے وقف کردی تھی ۔ اور اسلام اور ملک پر جارحیت کرنے والے طاغوتی قوتوں کے خلاف جہاد کا محاذ گرم رکھا ۔ اللہ تعالی ان کی خدمت اور پاک خون کی برکت سے مسلمانوں کو کامیابی اور کفار کو شکست اور ذلت نصیب فرمائے آمین یارب العالمین”۔

بدرالدین حقانی کی شخصیت اور خصوصیات:

ہم پورے اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ حافظ بدرالدین حقانی رواں جہاد کی ایک بے مثال ہستی تھی ۔ جن کی شہادت پر ان کے دوست غمگین اور دشمن ایک لمحے کے لئے خوش ہوگئے ۔ ان کی شہادت پر مختلف ردعمل اور نقطہ ہائے نظر سامنے آئے ۔ ذیل کی چند سطروں میں ان کی شخصیات کے حوالے سے چند لوگوں کی آراء پڑھیں ۔

خلیفہ سراج الدین حقانی کہتے ہیں شہادت کے وقت حافظ بدرالدین کا جسم امریکی میزائل لگنے کی وجہ سے ٹکڑے ٹکڑے ہوچکا تھا ۔ صرف سینہ صحیح سلامت رہ گیا تھا۔ مجاہدین نے انہیں سینے سے پہچان لیا۔ یہ ان کی کرامت اور قرآن کریم کے اعجاز کی علامت تھی ۔ کیوں کہ ان کے سینے میں قرآن کریم محفوظ تھا ۔ اللہ تعالی نے ان کے پورے جس میں سے صرف سینے کو صحیح سلامت رکھا ۔

صوبہ خوست کے عسکری ذمہ دار مولوی محمد جان نے ان کے بارے میں کہا : “حافظ بدرالدین گفتگو اور تعبیر کے بادشاہ تھے ۔ محفل میں شریک سب لوگوں  کی توجہ کھینچ لیتے ۔ وہ صبر اور حوصلہ کے مالک تھے اور ٹھنڈے دل اور دماغ سے لوگوں کے مشورے سنتے ۔ حافظ صاحب کو اللہ تعالی نے بہت کچھ عطافرمایا تھا ۔ اچھے اخلاق ، عاجزی ، انکساری ، تقوی، ایثاراور ساتھیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ اور خوش طبعی یہ حافظ صاحب کی امتیازی صفات ہیں ۔

دشمن کی صفوں میں گھس کرکارروائیاں کرنے کی انہیں بھرپور صلاحیت حاصل تھی۔ انہوں نے دشمن کی صفوں میں لوگوں کو جہاد کے لیے تیار کیا ۔ اور دشمن کے گھر سے اس پر کاری حملے کیے ۔ حافظ بدرالدین کی جہادی فعالیت اور استعداد کا اعتراف دشمن نے بھی کیا ۔ان میں اطاعت کا مادہ بھی کھوٹ کھوٹ کر بھرا تھا ۔ وہ پوری دیانت داری سے امارت اسلامیہ کے رہبری شوری کی جانب سے جاری کردہ احکامات تسلیم کرتے اور اس پر عمل کرتے ۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں کی بھی ایسی تربیت کی تھی کہ وہ امارت اسلامیہ کے پورے وفادار رہتے ۔ صوبہ پکتیکا کے سابق عسکری ذمہ داری مولوی محمد سنگین فاتح کہتے ہیں : حافظ بدرالدین اسٹریٹجک امور میں بھرپور مہارت رکھتے تھے ۔ اس لیے گذشتہ چند سالہ جہاد میں ہم نے دیکھا کہ جب ساری دنیا کے ترقی یافتہ فوج کے تجربہ کار جرنیل ہمارے ملک میں آئے ، اپنی دفاع کے لیے محفوظ مراکز تعمیر کیے ، مگر حافظ بدرالدین نے اپنی کامیاب تیکنیکوں کے ذریعے دشمن کے مضبوط دفاعی حصار توڑ دیے کر دشمن کے قلب پر حملے کئے ۔ انہوں نے ایسے محفوظ مراکز اور مقامات پر حملے کیے جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔

امارت اسلامیہ کی آفیشل ویب سائٹ کے صحافی حبیب مجاہد حافظ بدرالدین کے بارے میں کہتے ہیں : حافظ بدرالدین ایک ہوشیار ، مدبر اور جہادی امور میں صحافت کی اہمیت سے واقف شخص تھے ۔ وہ جس باریکی اور باریک بینی کے ساتھ عسکری آپریشن مرتب کرتے اتنی ہی باریک بینی سے آپریشن کے بعد اس کی عکس بندی کرتے ۔ وہ شروع کردہ آپریشن کے حوالے سے انتہائی دقت اور سرعت سے امارت اسلامیہ کے ترجمانوں اور نشریاتی ادارے تک معلومات  پہنچاتے ۔ اور معلومات جمع کرنے میں انتہائی باریک بینی سے کام لیتے ۔ وہ جہادی آپریشن کی عکاسی کرتے تاکہ یہ کارروائیاں مستند طورپر ناظرین کے سامنے پیش کی جائیں ۔ ان کی یہی خصوصیت تھی جس کی بناء پر ہونے والی جہادی کارروائیوں کے اثرات عسکری محاذ کے ساتھ مطبوعاتی میدان پر بھی پڑتے ۔

بدرالدین حقانی کی شہادت کے بعد امریکی ذرائع ابلاغ نے انہیں امریکا کا ایک خطرناک دشمن قراردیا ۔ THE LONG WAR نامی ایک امریکی نشریاتی ادارے نے لکھا ” امریکی جاسوس طیاروں نے بدرالدین حقانی کے نام سے طالبان کے سب سے اہم کمانڈر کو ماردیا ہے ۔ بدرالدین حقانی نے افغانستان میں امریکیوں پر سب سے بڑے اور ہلاکت خیز حملے کیے ۔ اہم امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے بدرالدین شہید کی شہادت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ :”وہ افغانستان میں امریکی کامیابیوں کے سامنے ایک بڑی رکاوٹ تھے جنہوں نے امریکیوں پر مسلسل خطرناک اور ہلاکت خیز حملے کئے۔

عربی کامقولہ ہے “والفضل ماشہدت بہ الاعداء” (اصل فضیلت اور بہتری وہی ہے جس کا دشمن بھی اعتراف کرے)۔ امریکی فرعونی حکام اپنے تکبر اور غرور کی انتہاء میں بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ بدرالدین حقانی ان کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ تھا ۔ اس سے ان کی عسکری وجہادی حیثیت معلوم ہوتی ہے ۔

بدرالدین حقانی ان مجاہدین میں سے تھے جنہوں نے شہادت کے بعد امریکی کفار سے اپنی شہادت کا انتقام لیا ۔ وہ اس طرح  کہ شہادت سے قبل کابل کے آریانا ہوٹل میں سی آئی اے کے مرکزی دفتر پر حملے کی منصوبہ بندی اور تیاری انہوں نے مکمل کرلی ۔ جو ان کی شہادت کے بعد انتہائی کامیابی سے پایہ تکمیل کو پہنچا ۔ جس سے دشمن کے انٹیلی جنس حکام کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ۔

اللہ تعالی حافظ بدرالدین حقانی کی شہادت قبول فرمائے آمین یارب العالمین