خالد بن ولیدآپریشن کے متعلق سیاسی مبصر اور تجزیہ نگار عبدالروف حکمت سے گفتگو

  انٹرویو : عمران خلیل امارت اسلامیہ افغانستان کی رہبری شوری کی جانب سے  نشر ہونے والے ایک رسمی اعلامیے میں خالد بن ولید کے نام سے نئے آپریشن کا اعلان کیاگیا ۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ اللہ اکبر کے پرعظمت نعرے کے ذریعے پورے افغانستان میں 18/جمادی الثانی 1434ھ ق بمطابق 28/اپریل2013ءکو جارحیت […]

 

انٹرویو : عمران خلیل

امارت اسلامیہ افغانستان کی رہبری شوری کی جانب سے  نشر ہونے والے ایک رسمی اعلامیے میں خالد بن ولید کے نام سے نئے آپریشن کا اعلان کیاگیا ۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ اللہ اکبر کے پرعظمت نعرے کے ذریعے پورے افغانستان میں 18/جمادی الثانی 1434ھ ق بمطابق 28/اپریل2013ءکو جارحیت پسندوں اور ان کے کٹھ پتلیوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کیاجائے گا ۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اس آپریشن میں دشمن کے خلاف بہت سے پیچیدہ عسکری تیکنیکوں کا استعمال کیاجائے گا ۔ خالدبن ولید کے نام سے شروع ہونے والایہ آپریشن کس حد تک  کامیاب ہوگا، اس کا دشمن پر کس حدتک اثر ہوگا ۔ اس حوالے سے ہم نے افغان امور  کے دانشور ،سیاسی مبصر اور معروف قلم کار عبدالروف حکمت سے گفتگو کی ۔ جو آپ کی نذر کی جاتی ہے ۔

سوال :     محترم حکمت صاحب جیسا کہ آپ جانتے ہیں امارت اسلامیہ کی رہبری شوری نے خالد بن ولید کے نام سے موسم بہار کے نئے آپریشن کا اعلان کیا ہے ۔ آپ کے خیال میں یہ آپریشن کس حدتک کامیاب اور دشمن پر اثر انداز ہوگا ؟

جواب :نحمده ونصلي علی رسوله الکریم ۔سب سے پہلے الامارہ سائٹ اور شریعت کی انتظامیہ ، کارکنوں اور تمام محبت کرنے والوں کا شکریہ اداکرتا ہوں ۔ جنگی آپریشن کی کامیابی اور اثراندازی کا تعلق بہت حدتک اس بات سے  ہوتاہے کہ آپریشن کاہدف کیا ہے ۔ اور اپنے متعین کردہ ہدف میں کہاں تک اسے کامیابی ملتی ہے ۔عمومی طورپر خارجی جارحیت پسندوں کے خلاف مزاحمتی جہادی آپریشن کو دو حصوں میں تقسیم کیاجاتا ہے ۔ پہلا ہدف اس کے اولین اور سامنے کے اہداف ہیں جب کہ دوسری قسم ثانوی اور آخری اہداف ہیں ۔ خارجی جارحیت پسندوں کے خلاف گوریلا جہادی آپریشن کا اصلی اور آخری ہدف ملک سے خارجی قوتوں کا اخراج اور مسلط شدہ  انتظامیہ کے تسلط کا قلع قمع کرنا ہے ۔ مگر اس آخری ہدف تک پہنچنے کے لیے سب سے پہلے دشمن کی جنگی طاقت کو تباہ کرنا ضروری ہے ۔ دشمن کو تھکاکر بدحال کردیاجائے ۔ ان کی قوت مقابلہ اور مورال  کو ختم کردیا جائے ۔ ان کانفوذ اور زمینی تسلط کنٹرول اور محدود کردیا جائے ۔ ان کی انسانی اور تیکنیکی صلاحیتیں ختم کردی جائیں ۔  یہ جارحیت کے خلاف مزاحمتی آپریشن کا پہلا اور سامنے کا ہدف سمجھاتا ہے ۔

جس طرح امریکی جارحیت کے خلاف افغانوں کا رواں جہاد بھی جنگی کیٹگری کا حصہ ہے اس لیے اس جنگ کے اہداف کو دیکھتے ہوئے بھی ایسا سمجھاجاتاہے کہ گذشتہ سالوں کی طرح ان شاء اللہ حالیہ آپریشن بھی انتہائی کامیابی سے چلے گا ۔ خارجی جارحیت پسندوں اور ان کے کٹھ پتلیوں کی صفوں کو بہت نقصان پہنچے گا ۔ ان کے اختیار واقتدار کا حلقہ اور بھی محدود ہوگا ۔ اور قوی احتمال ہے کہ کچھ علاقوں میں مکمل طورپر دشمن کے تسلط کاخاتمہ ہوجائے ۔

سوال :     جارحیت پسند فوجی قوتوں اور کرزئی انتظامیہ کے سیکیورٹی حکام نے خالد بن ولید کے نام سے شروع ہونے والے نئے آپریشن کے اعلان کو صرف ایک پروپیگنڈا قراردیا ہے ۔ اور کہا ہے کہ طالبان  اس طرح کے اعلانا ت سے لوگوں کو خوف زدہ کرنا چاہتے ہیں، عملی طورپر مقابل جانب کی قوت پر کوئی خاص اثر نہیں ڈال سکتے۔

جواب :   میرے خیال میں یہ ٹھیک نہ ہوگا کہ آنکھوں دیکھے مشاہدے کو پروپیگنڈا قراردیا جائے ۔ جو کچھ ہم نے گذشتہ چند سالوں میں دیکھا ہے وہ یہی ہے کہ ہر سال بہار کے موسم میں نئے جہادی آپریشن کا اعلان کیا جاتاہے ۔ امریکا اور اس کے اتحادی اسے صرف پروپیگنڈا قرار دیتے ہیں مگر عملی طورپر وہ پروپیگنڈا نہیں جہادی حملے ہوتے ہیں ۔ ہر سال جس کی قوت اورشدت بڑھتی ہوئی ثابت ہوتی ہے ۔ چند برس پہلے جب امریکا کی جارحانہ پالیسیوں کا زور نہیں ٹوٹا تھا اس نے باربار مختلف اور عجیب ناموں سے جنگی آپریشن کا پروپیگنڈا کرکے اپنا رعب جمانے کی کوشش کی ۔ اب یہ لوگ سمجھتے ہیں مجاہدین بھی صرف آپریشن کے اعلانات کرتے ہیں ، عملی طورپر کچھ نہیں کرتے ۔ حالانکہ مجاہدین ہر سال آپریشن کے اعلان کے بعد اپنی ترقی اور پیش رفت عملی طورپر ثابت کرتے ہیں ۔

سوال:     رہبری شوری کے اعلامیے میں لکھا گیا ہے کہ خالد بن ولید آپریشن میں دشمن کے خلاف انتہائی پیچیدہ اور موثر فوجی تیکنیک کا استعمال کیا جائے گا ۔ کیا اس سے معلوم نہیں ہوتا کہ مجاہدین عسکری حوالے سے ماضی کی بہ نسبت زیادہ مضبوط ہوگئے ہیں ؟  اور بڑے ہتھیاروں تک رسائی حاصل کرلی ہے ؟ ۔

جواب :    اس میں کوئی شک نہیں کہ گیارہ سال سال سے جہاد میں مصروف مجاہدین ہر حوالے سے  ماضی کی بنسبت مضبوط اور زیادہ مسلح ہیں ۔ مجاہدین نے جارحیت کا مقابلہ کرنے کا دس سالہ تجربہ حاصل کرلیا ہے ۔ جنگی تدبر اور استعداد بڑھ چکا ہے ۔ دشمن پر وار کرنے اور دشمن کے خطرے سے خود کو بچانے کے نئے طریقے انہوں نے سیکھ لیے ہیں ۔ دشمن کی کمزوریاں جان چکے ہیں ۔ دشمن کی صفوں میں گھس گئے ہیں ، اس طرح ان کی اطلاعاتی ضرورتیں پوری ہورہی ہیں ۔ جو جنگ کا اہم عنصر سمجھی جاتی ہیں ۔

اس کے علاوہ جنگی تیکنیک اور حربوں کے حوالے سے بھی مجاہدین بہت پیش رفت کرچکے ہیں ۔ حالیہ چند سالوں میں مجاہدین نے بہت زیادہ مقدار میں اسلحہ دشمن سے غنیمت میں پکڑا ہے ۔ اسی طرح ہتھیار ڈالنے والے داخلی فوجی بھی بہت زیادہ اسلحہ اپنے ساتھ لارہے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ حاصل ہونے والی نئی معلومات بتاتی ہیں کہ مجاہدین انتہائی جدید ہتھیاروں سے مسلح ہوچکے ہیں ۔ ہوسکتا ہے خالد بن ولید آپریشن میں ان کا استعمال ہوجائے ۔ یہ سب اس بات کی دلیل ہے کہ مجاہدین ہتھیاروں کے حوالے سے ماضی کی بنسبت زیادہ اچھی صورتحال میں ہیں ۔

سوال :    جارحیت پسندوں نے بار بار اعلان کیاہے کہ 2014ء تک اکثر فوجی افغانستان سے نکل جائیں گے اور اختیارات کرزئی انتظامیہ کے حوالے کردیں گے ۔ اس فیصلے کی بنیاد پراتحادی فوجیوں نے ملک کے مختلف حصوں سے فوجی اپنے ٹھکانوں سے منتقل کرکے ان بڑے اڈوں میں پہنچادیے ہیں جو زیادہ محفوظ سمجھے جاتے ہیں۔ کیا اس طرح جارحیت پسند فوجیوں کے نقصانات  کم نہیں ہوجائیں گے ؟  اس نئے آپریشن میں کیا مجاہدین کے لیے ممکن ہوگا کہ دشمن کے محفوظ مراکز تک خود کو پہنچاکر انہیں نقصان پہنچائیں ؟ ۔

جواب:    آپ نے دوباتوں کی جانب سے اشارہ کیا ،ایک جارحیت پسندوں کے جانی نقصانات کی کمی  ۔ دوسرا جارحیت پسندوں کے محفوظ ٹھکانوں تک مجاہدین کی رسائی۔

آئیں ان دونوں مسائل کا الگ الگ جائزہ لیتے ہیں  ۔ امریکی 2001 کے اواخر میں افغانستان آئے تھے ۔ 2009 میں جنگی مجبوری کے باعث اپنے فوجیوں کی تعداد اوربڑھادی ۔ ان کا خیال تھا کہ عراق کی طرح افغانستان میں بھی فوجیوں کی تعداد بڑھا کر مجاہدین کا خاتمہ کردیں گے ۔ مجاہدین نے اس وقت بھی کہا تھا کہ فوجیوں کی تعداد بڑھانے سے جارحیت پسندوں کے نقصانات میں اور بھی اضافہ ہوگا ۔ 2009سے 2011کے آخر تک امریکیوں نے اپنا سارا زور آزمالیا مگر کامیابی کا کوئی سرا ان کے ہاتھ نہیں آیا ۔ اس لیے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ صاف شکست تسلیم کرنے کی بجائے جنگ افغان انتظامیہ کے سپرد کی جائے ۔ اور خود میدان جنگ سے بھاگ جائیں ۔ ان کا خیال تھا کہ افغان فوجی اگر مجاہدین سے شکست کھاجائیں تو یہ امریکی فوج کی شکست نہیں ہوگی ۔ بلکہ امریکی  ایک آبرومندانہ طریقے  سے افغانستان سے نکل چکے ہوں گے۔

امریکیوں نے اس سے قبل 1973میں ویتنام میں بھی یہی طریقہ آزمایا تھا ۔ امریکیوں نے ویت کنگ کے مقابلے میں شکست تسلیم کرنے کی بجائے جنگ کے آخری دوسالوں میں میدان جنگ جنوبی ویت نام کے مسلح جنگجوؤں کے حوالے کردیا ۔ اور خود بڑے اڈوں تک محدود ہوگئے ۔ بعدازاں وہاں سے بھی نکل گئے ۔ مگر امریکی ابھی پوری طرح ویت نام سے نکلے نہیں تھے کہ جنوبی ویت نام کے جنگجو ،ویت کنگ سے مکمل طورپر شکست کھاگئے ۔ جنگ کے آخری سالوں میں مختصرسے عرصے کے لیے امریکیوں نے اپنے نقصانات کنٹرول کرلیے مگر یہ سٹریٹجی امریکیوں کے کسی درد کا مداوا نہ کرسکی اور نہ اس طریقے سے امریکا کے ماتے سے شکست کا داغ دھلا۔

اب افغانستان سے بھی امریکیوں نے بھاگنے کا پکا ارادہ کیا ہوا ہے ۔ اس لیے بعینہ وہی ویتنامی طریقہ اپنارہے ہیں ۔ امریکا افغانستان سے اپنے فوجی نکال رہا ہے اس لیے ان کے نقصانات میں کمی ضرور آئیگی ۔ کچھ خام فکر لوگ امریکیوں کے نقصانات میں ہونے والی اس کمی کو امریکیوں کی فتح قراردے رہے ہیں حالانکہ میدان جنگ سے بھاگنا شکست ہی شمارہوتاہے ۔ فتح اورکامیابی تو یہ ہے کہ میدان جنگ میں رہتے ہوئے  دیکھاجائے کہ کس کے نقصانات کم اورکس کے زیادہ ہیں ۔ اور اگر کوئی میدان جنگ سے بھاگتا ہے اور پھر اپنی سلامتی کو کامیابی قراردیتاہے تو اسے کامیاب نہیں شکست خوردہ قراریا جاتا ہے ۔ افغان مجاہدین کا ہدف تو غیرملکی فوجیوں کو افغانستان سے نکالنا ہے ۔ امریکیوں کا افغانستان سے نکلنا صرف مجاہدین کی کامیابی ہے ۔

امریکیوں کا یہ خیالی پلاو بھی غلط ثابت ہوا کہ اس جنگ کو لمبے عرصے کے لیے افغانوں کی جنگ بنادیا جائے۔ اور افغانستان کے مزدور فوجیوں کے ذریعے اپنے مقبوضہ علاقوں پر اپنا تسلط برقرار رکھیں ۔ اس لیے کہ افغانستان کے جانشین جنگجو گروپ مجاہدین سے مل رہے ہیں ۔ اکثرلوگ فوجی صفوں سے فرار ہورہے ہیں ۔ کچھ مجاہدین کے حملوں میں ہلاک ہورہے ہیں یا علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہورہے ہیں ۔ گذشتہ دومہینوں میں اس طرح کے بہت سے واقعات ظہور پذیر ہوئے ہیں ۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ امریکیوں کا یہ حالیہ انتقال اقتدار اور جنگی علاقوں سے خروج ان کے لیے کوئی کامیابی نہیں بلکہ فوجی نقطہ نظر سے یہ مطلق شکست ہے ۔ امریکی چاہتے ہیں اس شکست کو چھپانے کے لیے مختلف طریقوں کا استعمال کریں ۔

دوسری بات جو آپ نے کہی کہ کیا مجاہدین بڑے امریکی اڈوں تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ یہ ایک اہم سوال ہے ۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ امریکی افغانستان سے نہیں نکلیں گے بلکہ اپنے محفوظ اڈوں میں  بندرہیں گے ۔ میرے خیال میں یہ بالکل ممکن نہیں کہ امریکی خشکی کے ان جزیروں یعنی اپنے اڈوں میں بند ہوکر رہیں ۔ دنیا میں اب تک کہیں بھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی ملک سارا کا سارااس کے اصلی باشندوں کے قبضے میں ہو اور اس کے محدود سے علاقے میں جارح لشکر لمبے عرصے تک رہے ۔

افغانستان مشرقی جرمنی نہیں کہ مغربی لوگ اپنے لیے اس میں  سےبرلن الگ کرکے ہوائی پل کے ذریعے اسے مغرب سے ملائیں ۔ ایسی کوئی توجیہ نہیں کہ جس کی بناء پراس بات کو تسلیم کیا جائے ۔ اور اگر ہم بات کریں مجاہدین کی رسائی کی ، تو وہ مجاہدین جو باربار ارگ{افغان صدارتی محل} کے تیس میٹر تک پہنچ سکتے ہیں ، جو شوراب اور بگرام کے قلب میں امریکی اڈوں اور امریکی تنصیبات پر حملے کرسکتے ہیں ، وہ جو امریکی سفارت خانے اور نیٹو ہیڈکوارٹرز کو آگ میں جھونک سکتے ہیں ۔ شاید امریکیوں کے دیگر محفوظ اڈے اور دفاعی بیرئیر بھی ان کا راستہ نہ روک سکیں ۔

سوال :    امارت اسلامیہ نے عوامی نقصانات کی روک تھام کے لیے پہلے بھی بہت مضبوط احکام صادرکیے ہیں ۔ نئے آپریشن کے اعلان کے ساتھ ایک بارپھر مجاہدین سے عوامی نقصانات سے خود کو بچائے رکھنے کی سخت تاکید کی ہے ،اس حوالے سے اور کیا ہونا چاہیے ؟  اب تک اس حوالے سے کونسی تدابیر سامنے آئی ہیں؟

جواب:   عوامی نقصانات جنگ کی ایک تلخ حقیقت سمجھی جاتی ہے ۔ یہ انتہائی حساس موضوع ہے ۔ اس کی روک تھام کے لیے مجاہدین کی طرح جارحیت پسند فوجیوں کو بھی جنگی قوانین کی روسے توجہ دینی چاہیے ۔ خوش قسمتی سے مجاہدین کی قیادت اس مسئلے پر گہری توجہ دی ہوئی ہے ۔ گذشتہ چند سالوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ مجاہدین کی قیادت کی جانب سے باربار مجاہدین کو ملکی لوگوں کے جان ومال کی حفاظت کی جانب متوجہ کیا جاتاہے ۔ حتی کہ مجاہدین کو کہا جاتاہے عوام کی زندگی کے تحفظ کو اولیت دی جائے ۔ ایسی کارروائیوں سے بچنے کی کوشش کریں جہاں مجاہدین کی جانب سے ملکی لوگوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو ۔ یا جس سے دشمن کو عام لوگوں پر مظالم ڈھانے کا بہانہ میسر آئے ۔

امارت اسلامیہ کی قیادت کی جانب سے ملکی نقصانات کی روک تھام کے لیے خصوصی کمیشن تشکیل دیا گیا ہے جو افغان عوام کے جان ومال کے تحفظ کے لیے کام کرتا ہے اور ملکی لوگوں کے ہونے والے نقصانات کا تجزیہ اور نگرانی کرتی ہے ۔ مجاہدین کے یہی اقدامات ہیں جن کے باعث افغانستان کی حالیہ گیارہ سالہ جنگ معاصر جنگوں کی تاریخ میں وہ جنگ ہے جس میں عوامی نقصانات بہت کم ہوئے ہیں ۔ اور جو ہوئے ہیں و  ی ہ بھی سب کہ سب وہ ہیں جو امریکی طیاروں کی اندھی بمباریوں اور قتل عام میں شہید کیے گئے ۔

مگر میراخیال ہے کہ ملکی نقصانات کی روک تھام کے لیےہونے والی حالیہ  کوششیں کافی نہیں ہیں ۔ مجاہدین کو اور بھی تحقیق اور تلاش سے کام لینا چاہیے تاکہ  عوام جنگ کی اذیت سے محفوظ رہیں ۔

سوال :     بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ خالد بن ولید کے نام سے نئے آپریشن کے اعلان کا مطلب یہ ہے کہ طالبان صلح اور مذاکرات پر تیار نہیں ہیں بلکہ جنگ پر اصرار کررہے ہیں ۔ آپ کا کیا خیال ہے ؟

جواب :   صلح کا اگر مطلب یہ ہو کہ امریکی جارحیت کو تسلیم کرلیا جائے ، مجاہدین مسلح جہاد چھوڑدیں تو اس حوالے سے تو مجاہدین نے بارہا کہا ہے کہ ایسا کوئی بھی مطالبہ ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے ۔ بلکہ گذشتہ گیارہ سالوں سے قربانیاں اس لیے دے رہے ہیں کہ افغانستان پر ہونے والی جارحیت کا خاتمہ کردیں ۔کوئی ذی عقل اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیارنہیں  کہ مجاہدین مذاکرات کے لیے تیار  نہیں ہیں ۔ انسان کو فطرتا جنگ کی بنسبت امن زیادہ پسند ہوتاہے ۔ مگر وہ امن اور وہ صلح جو خود مختاری ، اسلامی نظام، زمینی آزادی ، اور قومی وقار کے ساتھ ملے ۔ بات کی تہہ تک پہنچنا چاہیں تو ہم دیکھتے ہیں افغانستان کا امن اس وقت تباہ ہوا جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کردیا۔ میرے خیال میں جس دن امریکی افغانستان سے نکلیں گے اس دن سے افغانستان میں امن کی راہ ہموار ہوگی ۔

سوال :     محترم حکمت صاحب  اس سے قبل امارت اسلامیہ نے الفاروق کے نام سے آپریشن شروع کیا تھا جو ایک سال تک جاری رہا ، آپ لمبے عرصے سے افغانستان کے حالات کا انتہائی قریب سے جائزہ لے رہے ہیں ۔ آپ کیاکہیں گے ، الفاروق آپریشن میں مجاہدین کو کونسی کامیابیاں حاصل ہوئیں ، اور اس کا دشمن پر کیا اثر پڑا؟

جواب:   1391ھ ش سال میں مجاہدین کا جہادی آپریشن الفاروق آپریشن ماضی میں ہونے والے دوسرے آپریشنز کی طرح طاقتور اورکامیاب آپریشن تھا ۔ اسے ہم مجاہدین کی بڑی کامیابی کہہ سکتے ہیں ۔ اس کارروائی کے نتیجے میں مجاہدین نے مغربی جارحیت پسندوں کے 40ہزار فوجیوں کو بھاگنے پرمجبور کردیا ۔ برطانیہ ، فرانس ، بلغاریہ اورنیوزی لینڈ جیسے ممالک اپنا حوصلہ ہاربیٹے اورمیدان جنگ سے راہ فراراختیارکی۔

مجاہدین نے نفوذی حملوں کے نام سے ایک نیا طریقہ ایجاد کیا ہے ۔ جس کے استعمال سےامریکی فوجیوں کے جنگی حوصلے انتہائی پست ہوئے ہیں ۔ امریکی فوجیوں کی قیادت کو مکمل طورپر اس بات آمادہ کردیا کہ افغانستان سے نکلنے کے راستے تلاش کرے ۔ مجاہدین نے شوراب جیسے بڑے اور ہدفی حملے کیے ۔ جس سے داخلی فوجیوں کو سخت نقصان پہنچا ۔ الفاروق آپریشن کے سلسلے میں ملک کے بہت سے ایسے حصے جہاں پہلے امریکی فوج قابض تھی آج آزاد ہوگئے ہیں ۔ امریکی فوجی ان مقامات سے بھاگنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ یہ سب باتیں اس بات کی دلیل ہیں کہ  یہ آپریشن کامیاب رہا ۔

آخری سوال :        خالدبن ولید کے نام سے آپریشن کے اعلان سے چند دن قبل دشمن کے بعض جاسوس حلقوں نے کوشش کی ، بعض ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایک بے بنیاد تحریر نشر کی گئی اور خیبر کے نام سے نئے آپریشن کا اعلان کردیا ۔ امارت اسلامیہ کے ترجمان کی جانب سے اس کی تردید بھی کی گئی ۔اس تزویراتی کوششوں کے ذریعے دشمن کیا ہدف حاصل کرنا چاہتا ہے ؟

جواب :   ایک محاورہ ہے کہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ، آپ اپنے دشمن کی کمزوری اس کے افعال سے معلوم کرسکتے ہیں ۔ پہلے جب موسم گرم ہونے لگتااور موسم بہار میں نئی کارروائیوں کا آغاز ہوتاتوامریکی جنرلز اور ان کے اتحادی جنگی تیاریاں  کرنے میں مصروف ہوجاتے ۔ وہ مجاہدین کی کارروائیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نئی صف بندی کرتے اور مقابلے کے لیے تیار ہوجاتے ۔ مگر امسال میدان جنگ میں ان کی عملی سرگرمی اور مورال انتہائی کمزور رہا ۔ اس لیےاس سال ان کا سارا زور صرف اور صرف پروپیگنڈے پر ہے ۔ مجاہدین کے نام سے آپریشن کے ایسے اعلامیے نشر کرنا اور عام لوگوں کے ذہنوں کو تشویش میں ڈالنے کی کوشش امریکیوں کی بے بسی کی واضح دلیل ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ  انہوں نے مجاہدین کے موسم بہار کے آپریشن کے مقابلے میں کتنا کمزور رد عمل اورموقف اپنا یا ہے ۔